فلسطینیوں کی بے دخلی منصوبے کے خلاف لندن میں مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی منصوبے کے خلاف لندن میں احتجاجی مارچ کیا گیا۔
فلسطینی پرچم لہراتے ہزاروں افراد نے امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا۔
مظاہرین قبضہ نہیں آزادی، غزہ برائے فروخت نہیں اور نسلی صفائی نامنظور کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔
اس موقع پر احتجاجی مظاہرین نے امریکا کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
عید کے بعد احتجاجی تحریک
بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی ۔ اس سے پہلے انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں 8فروری کو ان کے کہنے پر پورے ملک میں عوام احتجاج کے لئے جو گھروں سے باہر نکلے اس پر انھوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ احتجاجی تحریک پر بات کرنے سے پہلے مختصر سا ذکر اس شکریہ کا کہ جو بانی پی ٹی آئی نے آٹھ فروری کو پورے ملک میں ان کے کہنے پر احتجاج کرنے پر عوام کا ادا کیا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بانی پی ٹی آئی کو جو لوگ جیل میں ملتے ہیں وہ انھیں کس طرح کی بریفنگ دیتے ہیں لیکن ملنے والوں کو دوش دینے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لئے کہ عمران خان کو بارہ ٹی وی چینل کی سہولت ہے اور ساتھ میں ہر روز دواخبار دیئے جاتے ہیں ۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ خان صاحب جیل سے باہر کی خبروں کے لئے کسی کے محتاج نہیں ہیں بلکہ انھیں اخبار اور ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں ملتی رہتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ آٹھ فروری 2025کو پورے ملک میں ایک جلسہ خیبر پختون خوا کے شہر صوابی میں ہوا اور تمام مبصرین کے نزدیک اس جلسے میں گذشتہ جلسوں سے جو اسی شہر میں ہوئے ان سے کم تعداد میں لوگ آئے جبکہ ملتان میں چند درجن لوگ شامل تھے اس کے علاوہ پورے ملک میں کہیں کوئی ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا تو عید کے بعد وہ کون سا انقلاب آ جائے گا کہ جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی تحریک نہ صرف یہ کہ شروع ہو جائے گی بلکہ اس سے موجودہ حکومت میں تھرتھلی مچ جائے گی ۔ اس سے پہلے بھی اگلی کال ، اب پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے اور ایک سے زائد فائنل کالز دی جا چکی ہیں اور یہ سب کی سب ناکامی سے دور چار ہوئی ہیں اور اسی بات کا ذکر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے کیاکہ بانی پی ٹی آئی کی احتجاج کی ہر کال ناکام ہوئی ہے تو پھر ان کی مقبولیت کہاں ہے اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہیں گے کہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میںعمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت ہے تو خان صاحب نے سول نا فرمانی کی کال کے تحت جب بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجیں تو اس کا بالکل الٹا اثر ہوا اور جنوری 2025میں گذشتہ سال جنوری 2024کے مقابلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے25%زیادہ ترسیلات زر پاکستان بھجوائیں ۔ ہمیں بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے اور ہم خیال تجزیہ کاروں کے بیانات سے ہٹ کر ہمیں یہ مقبولیت جب بھی زمین پر حقیقت میں نظر آئی تو ہم اسے تسلیم کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگائیں گے لیکن پہلے کہیں ثابت تو ہو کہ مقبولیت کی حقیقت کیا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عید تک گرینڈ الائنس بن جائے گا ۔ اس لئے کہ ہفتہ دس دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور اس مہینہ میں سیاسی سرگرمیاں ویسے ہی ماند پڑ جاتی ہیں ویسے بھی ایک الائنس تو پاکستان تحفظ آئین کے نام سے پہلے ہی بنا ہوا ہے جس کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں اور اسی تحفظ آئین کے تحت بار بار اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو بات بھی تو انہی سے ہو گی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اور خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات سے کون سے کام لینا ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو بے اختیار کہہ کر ان سے مذاکرات نہیں کرتے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت واقعی بے اختیار ہے تو 2018میں تحریک انصاف کی حکومت بھی تو بے اختیار ہی تھی اور اس کا ثبوت بھی ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا گیا کہ آپ چیف الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہیں لیکن اسے آپ نے ہی تو اس منصب پر لگایا تھا تو خان صاحب کا جواب تھا کہ ’’ میں نے اسے جنرل باجوہ کے کہنے پر لگایا تھا ‘‘ ۔ تحریک انصاف کی حکومت اور خود بانی پی ٹی آئی کس حد تک بے اختیار تھے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی کہ کسی کو علم نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی جب 2018کی اسمبلی معرض وجود میں آئی تو حلف کے بعد میاں شہباز شریف نے اور بلاول بھٹو زرداری دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین نے آپ کو میثاق معیشت پر مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے انتہائی تکبرانہ انداز میں اس پیشکش کو رد کر دیا تھا ۔اب بھی اگر بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ سیاست دان بے اختیار ہیں اور اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ترلے منت کرنے کی بجائے موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے انھیں طاقت ور کریں ۔ آج اگر موجودہ حکومت مضبوط ہو گی تو کل کو جب آپ حکومت میں آئیں گے تو یہی مضبوطی آپ کو بھی ورثے میں ملے گی لیکن آپ کا مقصد آئین و قانون کی بالادستی نہیں بلکہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد آپ کے سر پر آ جائے ۔
خیر بات ہو رہی تھی عید کے بعدحکومت کے خلاف تحریک کی تو جے یو آئی والوں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر مولانا کو اس مجوزہ اتحاد کا سربراہ بنایا جائے تو وہ اس میں شامل ہو جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی بھی اس اتحاد میں شامل ہو گی اور کیا وہ بھی مولاناکی سربراہی قبول کر لے گی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرز کا احتجاج تحریک انصاف کرتی ہے تو کیا الائنس میں شامل دیگر جماعتیں بھی اس طرز کے احتجاج پر راضی ہو جائیں گی ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوئی اور پھر یہ تحریک کہ جو عوامی مسائل پر نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہو گی کیا اسے عوامی پذیرائی مل پائے گی ۔