برطانوی پروفیسر پال ورک مین نے کینسر ریسرچ ٹارگٹنگ کورڈوما میں اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے۔

پروفیسر پال ورک مین نے کئی سال ناقابل علاج کورڈوما کے مطالعہ کے لیے وقف کیے ہیں، جو ہڈیوں کا ایک منفرد کینسر ہے جس نے ان کی والدہ اینا کی بھی جان لے لی تھی۔

رپورٹس کے مطابق تقریباً ایک ملین میں سے ایک فرد اس حالت سے متاثر ہوتا ہے جو کہ علاج کے موجودہ اختیارات کے خلاف مزاحم رہتا ہے۔

ورک مین جو کہ اپنی والدہ کے انتقال کے وقت 37 سال کے تھے، نہوں نے چھتیس سال قبل کورڈوما کے علاج معالجے کی کمی کی وجہ سے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بیماری کی دنیا کو کم سے کم سمجھ تھی اور میری ماں کی مدد کے لیے کوئی دوائیاں دستیاب نہیں تھیں، تاہم، حالیہ پیش رفت اس تاریک منظر نامے کو بدل سکتی ہے۔

ورک مین اور ان کی ٹیم نے بین الاقوامی محققین کے ساتھ مل کر ایک اہم پروٹین کی نشاندہی کی ہے جسے بریچیوری کہا جاتا ہے جو انسانی جسم کے اندر کورڈوما کینسر کے خلیات کی بقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

بریچیوری کی شناخت نے ریسرچ کمیونٹی کے اندر کافی جوش پیدا کیا ہے کیونکہ یہ کورڈوما میں خلل ڈالنے کے لیے ایک ممکنہ نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔

پروٹین بریچیوری کو روکنے سے، کینسر کے خلیات کی نشوونما میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوسکتی ہے۔ بنیادی چیلنج بریچیوری کا پیچیدہ ڈھانچہ تھا، جسے پہلے منشیات کی نشوونما کے خلاف مزاحم سمجھا جاتا تھا۔

نیچر کمیونیکیشنز کی ایک حالیہ اشاعت میں آکسفورڈ اور شمالی کیرولینا کے اداروں کے ورک مین اور اس کے ساتھیوں نے یہ ظاہر کیا کہ وسیع تجزیے کے ذریعے انہوں نے بریچیوری پر کئی سطحی سائٹس کو پہچان لیا ہے جو مخصوص فارماسیوٹیکل ایجنٹوں کے ڈیزائن کے لیے قابل عمل اہداف کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔

اس پیش رفت کو ڈائمنڈ لائٹ سورس سنکروٹرون کے استعمال سے سہولت فراہم کی گئی جو عالمی سطح پر ایک جدید ترین ایکس رے جنریٹرز میں سے ایک ہے جو آکسفورڈ شائر کے ڈیڈکوٹ میں واقع ہے۔

ورک مین کی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ کئی امید افزا مرکبات کو الگ کر دیا ہے جن کا فی الحال بریچیوری کو روکنے اور اس کے نتیجے میں اس کلیدی پروٹین کو ختم کرنے کے لیے ممکنہ علاج کے طور پر جانچا جا رہا ہے۔

اس طرح کی پیشرفت صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو کورڈوما کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، ایک ایسی حالت جس نے تاریخی طور پر اس کی ترقی کو روکنے کے لئے علاج کی کوششوں کی مزاحمت کی ہے۔

اس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ میں اب اس بیماری کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں جس نے میری ماں کی جان لی۔

ورک مین نے مزید کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ بریچیوری اور کورڈوما کو نشانہ بنانے کے لیے جو طریقہ کار تیار کیا جارہا ہے وہ وسیع تر مضمرات رکھتا ہے اور دوسرے مروجہ کینسر کے علاج کے اختیارات کو بڑھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ بریچیوری مختلف ٹیومر کے میٹاسٹیٹک پھیلاؤ میں ملوث ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے کام کو روکنے کے لیے بنائے گئے فارماسیوٹیکل ایجنٹ دیگر خرابیوں کے پھیلاؤ کو بھی کم کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کو روکنے پیش رفت کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

تصوف اسلامی معاشرت و ممالک اور خاص طور پر برصغیر میں روحانیت بعض ترک دنیا اور کچھ قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم دیتے ہیں۔ مسلمان علماء میں سے بہت سے متفق اور زیادہ تر غیر متفق ہی نہیں باقاعدہ معترض ہیں۔ اسلامی تاریخ میں تیسری ہجری میں اس کی شروعات کے شواہد ملتے ہیں۔ برصغیر میں بڑے علماء اور فقراء کے باقاعدہ آگے سلسلے چلتے جاتے ہیں لیکن انسانی تاریخ اور اس کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ تصوف پر صرف مسلمانوں کا قبضہ تصور کرنا سخت زیادتی ہے۔ انسان روح اور بدن کے سنگم کا نام ہے۔ روح کو ہمیشہ فطرت کے مطابق پاک جانا جاتا ہے جبکہ بدن بر تقاضا بشریت اس کے برعکس ہے۔ کسی شخص کے بشری تقاضوں پر روح حاوی ہو اور اپنا کردار ادا کرتی رہے تو وہ شخصیت روحانی شخصیت کہلاتی ہے۔ بشریت کے تقاضے انسان کا حسن مگر ان پر قابو پانا اور روح راج ہونا صوفی اور نیک سیرت ہونا ہے۔ بشری تقاضوں میں ڈوبا ہوا شخص معاشرتی حیوان کہلاتا ہے جب ایسا کیا جائے تو روح کا کچھ لینا دینا نہیں۔ روح کو آقا کریمؐ نے امر اللہ قرار دیا۔ اس کے تجربہ کیلئے کوئی اپنی ذات کی تلاشی لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ وہ ہر وقت ایک کی بجائے دو کیوں ہے۔ اگر بازار میں ہے تو اس کی توجہ گھر میں، گھر میں ہے تو توجہ دفتر میں ہے۔ یہ انسان سے جدا ہو کر اس کا اپنا آپ ہی اگر کہیں اور ہے اس کو روح کہا جا سکتا ہے۔ ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں، بدھوں غرض دنیا کے تمام مذاہب حتیٰ کہ ملحدین میں بھی صاحب تصوف لوگ پائے جاتے ہیں البتہ اسلامی حوالہ سے اس کا جائزہ لیا جائے تو تزکیہ نفس اور حصول قرب الٰہی و بارگاہ رسالتؐ میں شرف قبولیت اس کا مرکز ہے۔تصوف فرقہ واریت اور نفرت سے پاک ہوا کرتا ہے۔ اہل تصوف میں جن کو معراج حاصل ہو وہ صاحب کشف بھی ہوا کرتے ہیں جن کو القاء ہونا معمولی بات ہے۔ انسانوں کی انتہائی تھوڑی انگلیوں پر گنی جانے والی ہستیاں اس سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیت صاحب علم بھی ہو دینی علم کے علاوہ اس کو سائنسی علوم پر بھی دسترس ہو، علم العداد بھی ہو اور یہ انسانیت کا مبلغ ہونے کے ساتھ قرآنی آیات مبارکہ کے فضائل سے بھی بھرپور واقف ہو۔ اللہ پر اس کے اس کرم کو جب زبان ملے گی جب وہ بات کرے گا تو پھر لوگ اس کو پروفیسر جناب احمد رفیق اختر صاحب کے نام سے جانیں گے۔ آج ان کے معتقدین دنیا بھر میں پائے جاتے، ہزاروں گھرانے ان کی بات سنتے ہیں۔ آیات مبارکہ اور دعا جات کے علم اور انسانی مسائل ورد کے ذریعے حل ہونے کا کشف انہیں عطا ہوا ہے۔ یہ سلسلے آج کے نہیں یہ شاہ شمس تبریزی، مولانا رومی اور ڈاکٹر محمد اقبال تک صوفیاء کی تاریخ پر ماتھے کا جھومر ہوا کرتے ہیں۔ ان کی جلائی ہوئی جوت انسانوں میں موجود رہ کر انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جو دلوں کو اجالا کردار کو جلا بخشتی ہے اور سکون قلب کا سبب بنتی ہے۔ پروفیسر صاحب کا مجھے ایک دوست نے 2005ء میں بتایا کہ گوجر خان کے ہر شخص کے ہاتھ میں تسبیح اور اللہ کا ذکر پروفیسر صاحب کی تعلیمات کی بدولت ہے۔

پروفیسر صاحب کی بدولت تسبیح اور روحانی پاکیزگی ہی نہیں انسانی خدمت کی صورت میں لوگ ملتے ہیں جیسے سابق ایم این اے زمرد خان جو سویٹ ہوم کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں۔ وطن عزیز کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ اگست 2013 کو ملک سکندر نامی شخص نے ایک کار چوری کی اور کئی پولیس اہلکاروں کو بے بس کر لیا۔ بالآخر وہ بلیو ایریا میں جناح ایونیو کے وسط میں چلا گیا۔ جائے وقوعہ پر موجود پولیس ابتدائی طور پر اس شخص کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ یہ واقعہ چھ گھنٹے تک براہ راست نشر کیا گیا۔ کئی سیاست دانوں نے یرغمال بنانے والے کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ زمرد خان جائے وقوعہ پر صورت حال دیکھ رہا تھا جہاں اس نے بندوق بردار سے رابطہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ خان نے بندوق بردار کے ساتھ چند الفاظ کا تبادلہ کیا۔ بچوں سے مصافحہ کرتے ہوئے، خان نے اچانک اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں کھو گئے۔ بندوق بردار نے کئی گولیاں چلائیں تاہم خان زخمی ہونے سے بچ گیا۔ خان بچوں کی طرف بھاگا اور انہیں خطرے سے دور کر دیا۔ اس کے بعد دستیاب پولیس نے بندوق بردار کی ٹانگوں پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

گزشتہ روز پروفیسر صاحب گوجرہ میں مذہبی اجتماع تھا جس میں انہوں نے فرمایا… بڑھتا ہوا دماغ اور ترقی انسان کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے، وسائل تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زمین کا ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے جبکہ حیاتیاتی وسائل پورے کرنے کیلئے چار مزید زمینوں کی ضرورت ہے۔ اے آئی سے خود اسکے خالق خوفزدہ ہیں یہ ترقی کی معراج ہے مگر اے آئی میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جو دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا، ابھی ایک بہت بڑی جنگ ہونا باقی ہے جسے اے آئی لیڈ کریگی۔ آج قرآن کی ہر سٹیٹمنٹ سو فیصد درست ثابت ہو چکی ہے، اب اللہ کا انکار آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی بدی کو جانچنے کا شعور بخشا ہے، عقل اللہ اور انسان کے مابین پل کا کام دیتی ہے۔ اے آئی 2030 تک نوجوان جسم پر بوڑھے شخص کا سر لگانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سائنس بتاتی ہے کہ انسانی دماغ 300 سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر بدن نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عنقریب لوگوں پر دھوکے کے بھرپور سال آئیں گے جب بددیانت کو دیانتدار، جھوٹے کو سچا اور بے وقوفوں کی رائے کو عوامی معاملات میں اہمیت حاصل ہو گی، علم صرف دکھلاوے کیلئے رہ جائیگا، دعوئوں کی منڈیاں لگیں گی، چھوٹے لڑکوں کو مذہب پر اتھارٹی مانا جائیگا، دجال کا فتنہ بھی یہی ہو گا کہ آسمان سے بارش برسائیگا اور بارش کے بغیر غلہ اگائے گا، اور کہے گا میں تمہارے باپ یا بھائی کو زندہ کر دوں گا تو مجھے خدا مان لو گے۔ اب اے آئی بھی یہی کرنے جا رہی ہے، ہم نے زمین مال اور اقتدار کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس میں ہمیں مکمل ہار ہو گی۔

جناب قبلہ محمد صادق صاحب ڈی جی کسٹم ویلیو ایشن نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا شعر لکھ کر دیا۔ جس کا مفہوم ہے ’’گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے کہ نہیں؟ حجاز سے پھر وہی نسیم سحر آتی ہے کہ نہیں؟ اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں؟‘‘۔
پروفیسر صاحب کو اللہ زندگی دے لوگوں کے روحانی مسیحا ہیں اور سائنسی امتزاج کے ساتھ کمال درجے کے انسان ہیں اور امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: میو اسپتال میں لفٹ گرنے سے 12 نرسیں زخمی، 3 کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں
  • پوپ فرانسس کی صحت مزید بگڑ گئی، نئے پوپ کا نام سامنے آگیا؟
  • فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے وفد کا ریسرچ سینٹر کادورہ
  • سندھ یونیورسٹی میں تھیسز شو کا انعقاد
  • 7 فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ادویات جعلی قرار،زہریلے اور نشہ آوراجزا شامل ہونے کا دعویٰ
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان
  • بے مثل شیدائی پروفیسر نو روز جان
  • مرگی کی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ تشویشناک ہے‘ ڈاکٹرفوزیہ
  • ٹنڈوجام ،نجی اسکول میں ٹی ٹی کیآگاہی کے حوالے سے سیمینار
  • پوپ فرانسس کی طبیعت سنبھل نہ سکی، ہفتہ وار بیان بھی منسوخ