UrduPoint:
2025-04-13@17:02:33 GMT

افریقہ امکانات اور امید سے لبریز ہے، یو این چیف

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

افریقہ امکانات اور امید سے لبریز ہے، یو این چیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افریقہ کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم اور اس کی نوجوان آبادی کی صلاحیتوں سے بہت سی امیدیں اور امکانات وابستہ ہیں۔

ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں افریقن یونین (اے یو) کی اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور افریقی ممالک کی اس تنظیم کے مابین شراکت اب جتنی مضبوط ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔

نوجوان آبادی اور قابل تجدید توانائی کے حصول میں استعمال ہونے والے وسائل ناصرف براعظم بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم اثاثہ ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ افریقی ممالک کے مابین درآمدات و برآمدات پر رکاوٹوں میں کمی لانے کے لیے قائم کردہ آزاد تجارتی علاقے کی بدولت مستقبل میں ترقی و خوشحالی کے مواقع پیدا ہوں گے۔

(جاری ہے)

ازالے اور اصلاحات کا وقت

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنے ابتدائی ایام میں نوآبادیات کے خاتمے اور آزادی کے لیے بہت سا کام کیا تاہم اس سے افریقیوں کو درپیش بنیادی مسائل حل نہ ہو سکے جن میں بہت سے استعماریت اور اوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کی میراث تھے اور یہ دونوں بہت بڑی اور شدید ناانصافیاں تھیں۔

20ویں صدی کے وسط میں جب کثیرفریقی نظام بنائے گئے تو اس وقت اقوام متحدہ کے بہت سے موجودہ رکن ممالک بڑی طاقتوں کی نوآبادیات تھے۔ آج دیگر عالمی کثیرفریقی اداروں کی طرح اقوام متحدہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اور سلامتی کونسل میں افریقہ کی نمائندگی نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ افریقن یونین اور تمام رکن ممالک کے ساتھ کام کرتے ہوئے افریقہ کو ادارے میں درکار نمائندگی اور انصاف یقینی بنانے اور سلامتی کونسل میں اسے دو مستقل نشستیں دلانے کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں گے۔

سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ موجودہ شکل میں یہ نظام افریقہ کے بہت سے ممالک کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اس کے باعث وہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر حسب ضرورت اخراجات نہیں کر سکتے۔

نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا بحران

انتونیو گوتیرش نے امن و سلامتی کو کثیرفریقی اقدامات کے حوالے سے ترجیح قرار دیتے ہوئے سوڈان کے حالات کی جانب توجہ دلائی جہاں نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا عالمی بحران جنم لے چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افریقن یونین اور اقوام متحدہ مل کر اس جنگ کو ختم کرا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے مشرقی علاقے میں ایم 23 باغیوں کے حملے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ملک میں جاری تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں اور اس پر صرف بات چیت کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں اقوام متحدہ کا امن مشن (مونوسکو) لوگوں کی مدد جاری رکھے گا۔

ترقی اور قابل تجدید توانائی کا انقلاب

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ میں صنفی مساوات، ماحول دوست توانائی، نظام ہائے خوراک میں بنیادی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ترقی کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ رکن ممالک کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے جانے والے مستقبل کے معاہدے میں بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

موجودہ نظام میں انہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قرضوں کے حصول پر آٹھ گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت امیر ممالک ترقی پذیر معیشتوں کو ہر سال 500 ارب ڈالر مہیا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی بحران کے باعث افریقہ کو جہاں بہت سی قدرتی آفات کا سامنا ہے وہیں یہ ایسے مواقع بھی لایا ہے جن کی بدولت براعظم عالمی معیشت کو ماحول دوست بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس وقت قابل تجدید توانائی کے حوالے سے صرف دو فیصد بین الاقوامی سرمایہ کاری افریقہ میں ہوتی ہے۔ تاہم مالیاتی اصلاحات کے ذریعے براعظم کو ماحول دوست توانائی کے میدان میں بہت آگے لے جایا جا سکتا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ کی تقریباً دو تہائی آبادی کو قابل بھروسہ انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ اور 2035 تک روزگار کی منڈی میں داخل ہونے والے افریقیوں کی سالانہ تعداد دنیا بھر کی مجموعی تعداد سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس طرح انہیں ترقی پانے کے لیے ہنر کی ضرورت ہے جس کا حصول بڑی حد تک انٹرنیٹ سے وابستہ ہو گا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ نے کہا کہ انہوں نے سکتا ہے کے لیے

پڑھیں:

سوڈان خانہ جنگی عام شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج کی حامل، یو این ادارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ دو سال سے خانہ جنگی کا شکار سوڈان میں قحط پھیل رہا ہے جہاں شہریوں کو بڑے پیمانے پر تشدد، بدسلوکی اور جنسی زیادتی کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے امدادی امور (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ سوڈان میں لوگ بہت بڑے انسانی بحران کی لپیٹ میں ہیں اور فوری طور پر امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

دو تہائی آبادی یا تین کروڑ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ دنیا بھر سمیت سوڈان کو بھی امدادی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ Tweet URL

ملکی فوج اور اس کی مخالف ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جاری لڑائی میں ایک کروڑ 24 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں 33 لاکھ نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔

(جاری ہے)

'جنسی زیادتی بطور جنگی ہتھیار'

'اوچا'، امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے متواتر خبردار کیا ہے کہ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر جنسی زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ سوڈان میں 'او ایچ سی ایچ آر' کی نمائندہ لی فنگ کے مطابق، ایسے ہی ایک واقعے میں اپنے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ان پر ظلم کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اب وہ ان کی ملکیت ہیں۔

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے ممکنہ قحط کا سامنا کرنے والے دو کروڑ 50 لاکھ لوگوں کے لیے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بھوک کا غیرمعمولی بحران درپیش ہے۔

طبی سہولیات پر بڑھتے حملے

اطلاعات کے مطابق 'آر ایس ایف' نے ڈارفر کے اہم علاقے ام کدادہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں طبی سہولیات اور عملے پر حملے بڑھ گئے ہیں۔

گزشتہ دو برس کے عرصہ میں ملک کے طول و عرض میں طبی سہولیات پر 156 مصدقہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک او ر270 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں مریض اور طبی کارکن دونوں شامل ہیں۔

امدادی وسائل کی قلت

خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں 80 فیصد ہسپتال فعال نہیں رہے جس کے نتیجے میں زچگی کی اموات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔

'یو این ویمن' کی ڈائریکٹر صوفیا کالتورپ نے بتایا ہے کہ سوڈان میں 80 فیصد بے گھر خواتین کو صاف پانی تک رسائی نہیں ہے جس سے بدحال لوگوں پر امدادی وسائل میں کمی کے اثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' کی ترجمان اولگا ساراڈو نے کہا ہے کہ عطیہ دہندہ ممالک کی جانب سے امدادی وسائل میں بڑے پیمانے کمی کے باعث بہت سے ضروری امدادی پروگراموں کو خطرات لاحق ہیں۔

ان حالات میں امدادی ٹیموں کو مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں اور پناہ گزینوں کی بڑی تعداد اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے خطرناک اقدامات پر مجبور ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سوڈان میں امدادی وسائل کی کمی کے باعث کم از کم پانچ لاکھ بے گھر لوگوں کی صاف پانی تک رسائی ختم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں اسہال اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں اسرائیلی محاصرے سے قیامت خیز قحط: 60 ہزار بچے فاقہ کشی کا شکار
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • غزہ میں پانچ سال سے کم عمر 60 ہزار سے زائد بچوں میں غذائی قلت کا شکار
  • اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے کا پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں عملے میں 20فیصد کمی کا اعلان
  • اسرائیل غزہ میں صرف خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اقوام متحدہ کی تصدیق
  • امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں بفر زون بنانیکی کوشش پر اقوام متحدہ کا انتباہ
  • سوڈان خانہ جنگی عام شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج کی حامل، یو این ادارے
  • اسرائیلی اقدامات فلسطینیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہیں، اقوام متحدہ
  • غریب ممالک کو نئے امریکی محصولات سےمستثنیٰ ہونا چاہیے، اقوام متحدہ