الطاف وانی کا اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے نام خط
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
حریت رہنما نے لکھا کہ بھارتی فورسز کو کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت بے لگام اختیارات حاصل ہیں اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مورس ٹڈ بال بنز Morris Tidball Binz’s سے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد اور حراستی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین وانی نے لکھا ”مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض فورسز کی طرف سے حراستی تشدد کا مسلسل اور منظم استعمال بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، دوران حراست تشدد جبر کا ایک ایسا ہتھکنڈہ ہے جو جبری اعترافات، لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ عمل انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی معاہدے کے ساتھ ساتھ آر سی پی اور پولیٹیکل آرگنائزیشن کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔“ انہوں نے ایک کشمیری نوجوان مکھن دین کے حالیہ قتل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع سے تعلق رکھنے والے اس 25 سالہ شخص کو بھارتی پولیس نے دوران حراست وحشیانہ تشدد کر کے شہید کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز کو کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت بے لگام اختیارات حاصل ہیں اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر بھارت کو جواب دہ ٹھہرائیں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
کوٹلی یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد
ذرائع کے مطابق ”نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور جموں و کشمیر کے لیے حق خودارادیت کی راہ ہموار کرنا” کے زیر عنوان سیمینار کی صدارت وائس چانسلر رحمت علی خان نے کی۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے اشتراک سے کوٹلی یونیورسٹی میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق ”نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور جموں و کشمیر کے لیے حق خودارادیت کی راہ ہموار کرنا” کے زیر عنوان سیمینار کی صدارت وائس چانسلر رحمت علی خان نے کی جبکہ مہمان خصوصی آزاد جموں و کشمیر کے وزیر چودھری عامر یاسین تھے۔ مقررین نے اس موقع پر نوجوانوں کے کردار، مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ کے جنرل سیکرٹری ایڈوکیٹ پرویز شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد میں ہے تاکہ کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جا سکے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا بھارت کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس مسئلہ کشمیر کا جزوی نہیں بلکہ مکمل حل چاہتی ہے اور اس موقف کو مقبوضہ جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
پروفیسر شگفتہ اشرف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر گزشتہ 76سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث لاکھوں کشمیری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اپنی قیادت کے وعدوں کا احترام کرتے ہوئے کشمیری عوام کو جلد از جلد استصواب رائے کا حق دینا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔حریت رہنما چودھری شاہین اقبال نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم فریق ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد اور سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد شفیع ڈار نے کہا کہ کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبریشن فرنٹ کو یقین ہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں اور بھارت کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
عبدالحمید لون نے طلباء پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔ چودھری عامر یاسین اور نبیلہ ایوب نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت تحریک آزادی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ رحمت علی خان نے کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کوٹلی یونیورسٹی میں ہونے والے اس سیمینار کی اپنی منفرد اہمیت اور افادیت ہے۔ انہوں نے حریت کانفرنس پر زور دیا کہ وہ مزید یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی اس طرح کے سیمینار منعقد کرائیں تاکہ نوجوانوں کو کشمیر کی حقیقی صورتحال سے روشناس کرایا جا سکے اور بھارت کے منفی پروپیگنڈے کا موثر جواب دیا جا سکے۔