پی ٹی آئی رہنماؤں میں شدید لڑائی، گالیوں اور تھپڑوں کی بوچھاڑ
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
راولپنڈی:
پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لڑائی کا واقعہ پیش آیا، جس میں گالیوں اور تھپڑوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر 5 پر فواد چوہدری اور بیرسٹر شعیب شاہین کے درمیان لڑائی ہوگئی۔ اس موقع پر فواد چوہدری نے بیرسٹر شعیب شاہین کو تھپڑ مار دیا، جس سے وہ زمین پر گر گئے۔
لڑائی کے دوران دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں۔ فواد چوہدری نے شعیب شاہین سے کہا تم ایجنسیوں کے ٹاؤٹ ہو، جس پر شعیب شاہین نے فواد چوہدری سے کہا کہ اپنے کام سے کام رکھو۔
لڑائی کے موقع پر موجود جیل عملے نے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرایا اور لڑائی سے چھڑایا۔
بعد ازاں فواد چوہدری اڈیالہ جیل کے اندر چلے گئے۔ تھپڑ لگنے اور نیچے گرنے سے شعیب شاہین کے بازو پر چوٹ آئی۔
نادیہ خٹک نے کہا کہ فواد چوہدری نے شعیب شاہین کو مارا اور وہ زمین پر گرگئے جو بھی اختلاف ہوں وہ زبانی کلامی ہونے چاہئیں مگر مارنا نہیں چاہیے، شکر ہے ان کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی وہ زمین سے اٹھے ان کے ہاتھ پر چوٹ آئی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان فواد چوہدری شعیب شاہین
پڑھیں:
گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر
آج کل تحریک انصاف میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میرے لیے حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی گالم گلوچ کے کلچر پر رکھی گئی تھی۔ گا لم گلوچ کا کلچر ہی ان کی پہچان تھا۔ بانی تحریک انصاف بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے تھے۔
وہ اپنی جماعت میں بھی ان لوگوں کو ہی پسند کرتے تھے جو گالم گلوچ میں مہارت رکھتے تھے۔ جو سیاسی مخالفیں کے ساتھ جو جتنی زیادہ بدتمیزی کرتا تھا، اسے اتنی ہی جلدی ترقی ملتی تھی۔ ٹاک شوز میں بد تمیزی کے خصوصی نمبر دیے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین سے بد تہذیبی سے پیش آنے پر خراج تحسین پیش کیاجاتا تھا۔ یہی سب تحریک انصاف کی پہچان تھی۔
آج تحریک انصاف اپنے اسی کلچر کا خود شکار ہو گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک اقتدار تھا، طاقت تھی تو سیاسی مخالفین کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اب اقتدار نہیں ہے، طاقت نہیں ہے تو آپس میں ہی ایک دوسرے کو گالیاں دینا شروع کر دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف میں جس طرح ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، اس کی کسی سیاسی جماعت میں پہلے کم ہی مثال ملتی ہے۔ سیاسی جماعت میں لوگوں کے ایک دوسرے سے اختلاف ہو تے ہیں، ناپسندیدگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ نہیں کی جاتی۔ بہر حال سیاسی تہذیب اور لحاظ ملحو ظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اب ایسا نہیں ہے۔ سب ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
کل تک تحریک انصاف اپنے سیاسی مخالفین کو چور کہنے میں مہارت رکھتی تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہے ہیں۔ شاید ان کو چور کہنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹاؤٹ کہتے تھے۔ اب ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہہ رہے ہیں۔
کل تک سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزام لگاتے تھے، اب ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگا رہے ہیں۔ کل سیاسی مخالفین کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے تھے۔ آج ایک دوسرے ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ مچھلی منڈی پارٹی بن گئی ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے درپے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور لڑائی اسٹبلشمنٹ کرا رہی ہے۔ میں یہ نہیں مانتا۔ میری رائے میں پہلے اس لڑائی کو بانی تحریک انصاف نے خود بڑھایا ہے۔ انھوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کا یہ خیال رہا کہ جب سب ایک دوسرے کے خلاف ہوںگے تو میری قیادت پر متفق ہوں گے۔
وہ اپنے بعد کسی کو بھی اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی جگہ لے لے۔ اس لیے اختلافات اور تقسیم کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ لیکن شاید اب صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ جیل سے ریموٹ کنٹرول سے سب کنٹرول کر لیں گے۔
سب ان کو تو لیڈر مانتے ہیں۔ اس لیے آپس میں لڑیں اچھی بات ہے۔ جب لڑائی حد سے بڑھے گی تو وہ کنٹرول کر لیں گے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہوا ہے۔ صورتحال کسی حد تک اب بانی تحریک انصاف کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئی ہے، ان کا ریموٹ کنٹرول خراب ہو گیا ہے۔
آپ فواد چوہدری کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ بانی تحریک انصاف نے معاملہ کو جان بوجھ کر الجھایا ہے۔ وہ فواد چوہدری سے جیل میں ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ، اسے پارٹی میں واپس لینے کا اشارہ بھی دیتے ہیں، میری رائے میں ان کا خیال تھا کہ وہ فواد چوہدری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیں گے، وہ پارٹی سے باہر رہ کر بھی ان کا ہی کام کریں گے، یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ بانی تحریک انصاف فواد چوہدری اور پی ٹی ٹی کے درمیان لڑائی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے فواد چوہدری کو جیل میں بلا کر پارٹی قیادت کے خلاف بیان بازی سے روک بھی دیا تھا۔
بھائی جب روکا ہے تو اسے جماعت میں لے لیں، صلح بھی کروا دیں، وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک طرف انھوں نے جماعت کی فواد چوہدری کو واپس نہ لینے کی پالیسی کی حمائت کی ،دوسری طرف فواد چوہدری کی بھی حوصلہ افزائی جاری رکھی ۔ آج صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ لڑائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سارا کھیل ہی خراب ہو گیا ہے۔ شیر افضل مروت کے معاملے میں بھی جان بوجھ کر حالات کو خراب رکھا گیا۔
عثمان ڈار کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ کیا گنڈا پور اور جنید اکبر کی لڑائی بھی بانی انجوائے نہیں کر رہے ہیں ۔اسی طرح تیمور جھگڑا اور گنڈا پور کی بھی لڑائی نظر آرہی ہے۔بانی تحریک انصاف ان کو کے پی کابینہ میں لانا چاہتے ہیں گنڈا پور نہیں لانا چاہتے۔ اگر وہ کابینہ میں آتے ہیں تو گنڈا پور بطور وزیر اعلیٰ کمزور ہوںگے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو نقصان ہو رہا ہے۔
آج تحریک انصاف میں اختلافات کی بنیاد میں سلمان اکرم راجہ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ فواد چوہدری کی شعیب شاہین سے لڑائی ہوئی ہے۔ لیکن شیر افضل مروت کی سلمان اکرم راجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ فواد چوہدری کی بھی سلمان اکرم راجہ سے دوستی نہیںہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سلمان اکرم راجہ وجہ تنازعہ کیوں نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی نسبت بیرسٹر گوہر کم تنازعات کا شکار ہیں۔ ان کی اگر قبولیت کم ہے تو مخالفت بھی کم ہے۔ کوئی ان کو اپنے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتا۔
میں مانتا ہوں آج کی صورتحال تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے فائدہ مند ہے۔ کمزور تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ ضرور سمجھیں یہ صورتحال تحریک انصاف کی قیادت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اس میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی کمال نہیں۔ یہ لڑائیوں کا کلچر ان کا اپنا ہے۔ ان لڑائیوں کو انھوں نے خود پروان چڑھایا ہے۔ اگر یہ لڑائیاں بڑھتی ہیں تو اس میں بھی تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی تحریک انصاف میں نیا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے لوگ بانی تحریک انصاف کو ایک دوسرے کی شکائتیں لگاتے رہے ہیں۔
وہ شکائتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار اور جیل کا فرق وہ نہیں سمجھ سکے۔ جو چیز اقتدار میں اچھی ہو سکتی ہے، جیل میں زہر قاتل بن جاتی ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی زہر قاتل بن گیا ہے۔ گالم گلوچ اور شکایتی کلچر اب تحریک انصاف کو اندر سے کھا رہاہے۔ یہ ہتھیار انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو مارنے کے لیے بنائے تھے، آج خود اس کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔