Nai Baat:
2025-04-16@18:43:33 GMT

سرسبز پاکستان بمقابلہ سُرخ پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سرسبز پاکستان بمقابلہ سُرخ پاکستان

یہ چوائس آپ کی ہے کہ آپ سر سبز پاکستان کے ساتھ جاتے ہیں یا ایک سرخ پاکستان کے۔ سبز پاکستان، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا پاکستان ہے جس میں فوج اور حکومت مل کر پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کو مضبوط بنا رہے ہیں، اس میں گرین پاکستان انیشئیٹو کے نام سے ترقی، جدت، تحقیق اور سہولت لا رہے ہیں اور سرخ پاکستان ان کا ہے جو دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں، ان کے فکری پشتی بان ہیں۔ یہ لوگ نو مئی اور چھبیس نومبر برپا کرتے ہیں کیونکہ انہیںسرخ پاکستان کے لئے لہو اور لاشیں چاہئے ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہی ملک کی ترسیلات زر کو روکتے ہیں تاکہ اسے ڈیفالٹ کر سکیں، اسے بھوک اور بدامنی دے سکیں۔

پاک فوج کے سربراہ نے ، جو زراعت اور معدنیات کے شعبے میں انقلاب کی قیادت کر رہے ہیں، قرار دیا ہے کہ پنجاب ، پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ متحدہ پنجاب پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا ۔ مجھے کم و بیش ایک برس پہلے ملتان کے قریب ایک کارپوریٹ فارم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تھا اوراس پر تفصیلی کالم بھی لکھے تھے مگر اب چولستان میں اس سے کہیں بڑی ایکٹویٹی ہوئی ہے بلکہ ملک بھر کی بات کی جائے تو زراعت جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں بیس فیصد سے زیادہ کا شیئر رکھتی ہے اس کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ ہماری بہت ساری زمینیں غیر آباد پڑی ہیں اور جو آباد ہیں ان میں پانی کی فراہمی سے فی ایکڑکم پیداوار تک کے مسائل ہیں کیونکہ ہمارے کسان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تک رسائی بہت کم ہے۔ پاک فوج اور حکومت مل کے تیرہ ملین ایکڑ بنجر زمین کو آباد ، زر خیز اور سرسبز و شاداب کرنے جا رہے ہیں۔ گرین پاکستان منصوبے میں سعودی عرب بھی پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے جس سے نہ صرف زرمبادلہ کا فائدہ ہو گا بلکہ مجموعی طور پر زرعی برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس پوری ایکٹیویٹی سے ملک بھر میں تیس سے چالیس لاکھ ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ میں پنجاب کی بات بعد میں کروں گا پہلے سندھ کی کر لیتے ہیں جہاں کارپوریٹ فارمنگ کے لئے باون ہزار ایکڑ سے زائد بنجر زمین کاشت کے لئے لیز پر دی گئی اور دوسری طرف بلوچستان کی پانچ ملین ایکڑ کے قریب اراضی کو آباد کرنے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں کیچ مندر، ہوشاب، دشت، پنجگور کی ستائیس ہزار چار سو ایکڑ اراضی پر کام شروع ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں بلوچ آبادی کو روزگار کے وسیع مواقعے ملیں گے اور علاقے میں خوشحالی آئے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ماضی میں صوبائی حکومتوں کی کم فعالیت کی وجہ سے معدنیات کے شعبے میں کام نہیں ہوسکا لیکن اب پاک فوج نے ذمے داری سنبھالی ہے کہ قدرتی خزانوں کو نکالا جائے اور انہیں عوام کے مسائل کے حل پر لگایا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایک بڑے منصوبے کا افتتاح کرچکے ہیں جس کے تحت بلوچستان کے تمام زرعی ٹیوب ویلوں کو سولرپر منتقل کیا جا رہا ہے۔

پنجاب کی طرف آتے ہیں۔ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چولستان کے علاقے کا دورہ کیا۔ کندائی کے علاقے میں سمارٹ ایگری فارم اور گرین ایگری مال، چاپو کے مقام پر زراعت کی تحقیق اور سہولت کے مرکز کا افتتاح کیا۔ گرین ایگر ی مالز کے بارے بتایا جا رہا ہے کہ یہ پچیس کے قریب تیار ہو چکے جبکہ اس سال کے آخر تک اڑھائی سو تیار ہوجائیں گے۔ چولستان میں دوسرے مرحلے میں پانچ ہزارایکڑ پر جدید زرعی فارم شروع کیا گیا ہے جس میں آبپاشی کا جدید نظام استعمال کیا جائے گا اور دوسری طرف زمین کی جانچ سمیت تحقیق سے متعلق لیبارٹری کی تمام تر خدمات بھی فراہم ہوں گی۔ ریسرچ سنٹرتعلیم و تحقیق والے دوسرے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔گرین ایگری مال اینڈ سروسز کمپنی کسانوں کو ان کے دروازے پر معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی نرخوں پر مہیا کرے گی اور اسی طرح کسانوں کو ڈرونز سمیت تمام جدید مشینری بھی کم کرائے پر دستیاب ہوگی۔ پنجاب کی زرعی معیشت تیزی کے ساتھ آزاد معیشت میں بدلتی جار ہی ہے۔ اسے آپ آئی ایم ایف کا دباؤ کہیں یا اقتصادی مجبوریاں کہ حکومت کے لئے فصلوں بالخصوص گندم کی امدادی قیمت دینا ممکن نہیں رہا۔ یہ کسانوں کو فائدہ ضرور دیتی تھی مگر حکومت کے لئے انتظامی بنیادوں پر بہت ساری مشکلات پیدا ہوجاتی تھیں، کرپشن اس سے الگ۔ ایسے میں کسانوں کو بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے جس کے لئے کسان اور لائیو سٹاک کارڈ سمیت بہت سارے پراجیکٹس بھی لائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں گرین پاکستان انیشئیٹیو چیزوں کو مربوط بھی کرے گا اور ٹھیک بھی کرے گا کیونکہ یہ ایس آئی ایف سی بھی جڑا ہوا ہے۔ اس میں سعودی عرب ہی نہیں بلکہ یو اے ای اور چین کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔ کئی اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ کارپوریٹ فارمنگ کا پراجیکٹ ہے تو وہ پوری تصویر نہیں دکھاتے، پوری بات نہیں کرتے۔ یہ ہرگز ہرگز صرف کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ نہیں۔ یہ زراعت کی جدت اور مہارت کو اوپر سے لے کر نیچے تک لاگو کرنے کی جامع منصوبہ بندی ہے۔اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ فوج کا کام نہیں ہے اوراس کے پیچھے بھی ان کی بدنیتی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا تھا اوراگر خدانخواستہ حکومت، فوج اور عدلیہ کے سربراہ ایک دوسرے کو سپورٹ نہ کرتے تو یہ خاکم بدہن پاکستان کو لے دے چکے تھے۔ اس وقت پاکستان کو بچانے میں میرے، تیرے کا تصور نہیں چل سکتا۔ جب کشتی ڈوب رہی ہو تو اسے بچانے کے لئے سب ہی ہاتھ پیر مارتے ہیں، سب ہی چپو چلاتے ہیں۔ ہمیں اس موقعے پر اعتراضات کرنے کی بجائے پاک فوج کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ وہ اپنی توانائیاں پاکستان کو بچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مضبوط بنانے میں بھی صرف کر رہی ہے ۔

کیا کہا؟ یہ آئینی نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فوج کا حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہی عین آئینی اور جمہوری ہے۔ غیر آئینی اور غیر قانونی وہ تھا جو جنرل فیض حمید کرتے رہے اور اب وہ اپنے ان غیر قانونی سیاسی رابطوں کی تفتیش بھگت رہے ہیں۔ حقائق تو یہ ہیں کہ عمران خان اس وقت بھی آرمی چیف کو سیاسی خطوط لکھ کر سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں اور آرمی چیف ایسے خطوط کی وصولی پر عین آئینی اورقانونی جواب دے رہے ہیں کہ ایسے خط ملے بھی تو وہ وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ پاک فوج اس وقت اپنے آئینی کردار کو بہترین اور شاندار انداز میں مکمل غیر جانبداری اور بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرر ہی ہے۔ ہمیںسر سبز پاکستان کے لئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں اور پاکستان کو اس کے عوام کے لہو سے سرخ دیکھنے والوں کے ہاتھ توڑنے ہیں،انشاء اللہ!

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کو پاکستان کے کسانوں کو جا رہا ہے پاک فوج کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی

ستر سالہ حمید اعظم ساری عمر مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے۔ بڑھاپا آیا تو وہ بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ علاج کراتے ہوئے ان کی بیشتر آمدن خرچ ہونے لگی۔ عوارض رفتہ رفتہ اتنے بڑھے کہ وہ ملازمت کرنے سے معذور ہو گئے۔

اب وہ اولاد کے رحم وکرم پر آ گئے ۔ ان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ نوجوانی میں انھوں نے بالکل نہیں سوچا، بڑھاپے کے لیے مناسب رقم پس انداز کر لی جائے۔ اگر وہ اس وقت ریٹائرمنٹ کا کوئی عمدہ منصوبہ بنا لیتے تو انھیں بڑھاپے میں دوسروں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اسی محتاجی کے باعث بھی اولاد اپنے والدین کو ایدھی سینٹر یا دیگر رفاہی اداروں میں چھوڑ جاتی ہے کہ وہ ان کا خرچ نہیں اٹھا پاتی۔

یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں اکثر مردوزن نوجوانی یا جوانی میں ایسا کوئی مناسب منصوبہ نہیں بناتے جس کی مدد سے وہ اپنی ریٹائرمنٹ یا بڑھاپے کا عموماً تکلیف دہ اور کٹھن عرصہ کم از کم مالی دشواریوں کے بغیر گزار سکیں۔ جو عاقل اور پیش بیں حضرات ایسا منصوبہ بنا لیں تو ان کا بڑھاپا خوشگواری سے بسر ہوتا ہے کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔ اولاد اگر فرماں بردار نہ بھی ہو تو وہ انھیں اپنے ساتھ رکھ لیتی ہے کہ اسے بوڑھے والدین پر کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ اسے توقع ہوتی ہے کہ والدین کی وراثت سے انھیں کچھ دولت مل سکے گی۔

سرکاری ملازمین کو تو پھر پنشن مل جاتی ہے، نجی ملازمت کرنے والوں کو خاص طور پہ بروقت ریٹائرمنٹ کا کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور اپنانا چاہیے۔ اب تو حکومت پاکستان پنشن کے بڑھتے خرچ کی وجہ سے اس نظام میں بھی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ لہذا اس وقت جتنے بھی نوجوان اور جوان پاکستانی کام کر رہے ہیں، انھیں اپنے بڑھاپے کے حالات مدنظر رکھ کر لازماً ریٹائرمنٹ کا عمدہ پلان تشکیل دینا چاہیے تاکہ بعد ازاں انھیں پچھتانا نہ پڑے۔ یہ پلان بچت کے ساتھ ساتھ کسی اچھی انشورنس کمپنی اور اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی شعوری اور زندگی بھر کا عمل ہے جس کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ آرام دہ اور آزاد ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے کافی فنڈز بنانے کی خاطر وقت درکار ہے۔ ہم سب خوشگوار اور پُر سکون ریٹائرڈ زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لہٰذا اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

 زیادہ تر کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے پاس ریٹائرمنٹ پلان کی کوئی شکل ہوتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھیے ، حقیقی زندگی میں ریٹائرمنٹ اس سے مختلف ہو سکتی ہے جس کا ہم میں سے اکثر نے تصور کیا تھا۔ زیادہ تر ریٹائر ہونے والوں کو تلخ حقیقت کا سامنا ناقص مالیاتی انتظام اور سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں ریٹائرمنٹ کے بہت سارے منصوبے دستیاب ہیں، لیکن کسی ایک پر انحصار کرنا اچھی حکمت عملی نہیں ۔

 تین اہم عناصر

 پُرسکون ریٹائرڈ زندگی تین اہم عناصر پر منحصر ہے: ریٹائر ہونے والے کی سماجی زندگی، مالی حالت اور عمر۔ مضبوط مالی پوزیشن اور اچھے سماجی حلقے کے ساتھ جلد ریٹائر ہونا ایک مثالی امر ہے۔ہم اس کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

 مالی استحکام

مستحکم پوزیشن میں ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنانے کے لیے مضبوط مالیاتی ریٹائرمنٹ پلان کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہت سے مناسب ریٹائرمنٹ انشورنس پلان دستیاب ہیں جو آسانی سے ریٹائر ہونے میں مدد کرنے کے لیے بنے ہیں۔ تاہم اپنے منصوبے کو سمجھداری سے منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں،پاکستان میں بہترین ریٹائرمنٹ انشورنس پلان بھی اس وقت آپ کی تمام مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا جب آپ ریٹائر ہوں گے۔

دراصل افراط زر یا مہنگائی کا عنصر ایک ایسی چیز ہے جسے جامع ترین ریٹائرمنٹ یا سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی مالیاتی مشیر کی مدد سے مرضی کے مطابق بنائے منصوبے کے ذریعے کیجیے۔ بنیادی اصول کے طور پر جامع منصوبے میں حصص اور دیگر اثاثوں میں کچھ سرمایہ کاری شامل ہونی چاہیے۔ اسٹاک کے تناسب میں کچھ ڈیویڈنڈ اسٹاک اور دوسرے گروتھ اسٹاک ہونے چاہئیں۔

سماجی زندگی

سماجی زندگی پہ مکمل قابو پانا مشکل ہے لیکن اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو 9 سے 5 کے معمول سے آزاد ہونے اور مصروف وقت گزارنے کے بعد سماجی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صدقہ یا سماجی کام کرنا ان کی مدد کرتا ہے۔ سماجی اور خیراتی کوششیں مصروفیت بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ یتیم خانوں میں رضاکارانہ کام کرنا یا غریب بچوں کو مفت جز وقتی ٹیوشن پڑھانا ایک اچھا خیال ہے۔ اس طرح کی کوششوں میں وقت لگانے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل عمدہ سماجی زندگی میّسر آتی ہے۔

 ریٹائرمنٹ کی عمر

 یہ اوسط عمر 60 سال ہے لیکن یہ ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض مردو زن تو چالیس پچاس برس کی عمر میں ریٹائرہو جاتے ہیں۔ مگر انھیں کافی سرمایہ بچانا ہوتا ہے تاکہ آباد و خوش ریٹائرڈ زندگی گزار سکیں۔اگر آپ مصروف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آپ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا سکتے ہیں تاکہ زیادہ دیر تک کام کا لطف اٹھائیں۔ اپنے کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل طرز زندگی کا ہونا ایک اچھا اختیار ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ذہن میں رکھیے کہ مالی طور پر مستحکم ریٹائر ہونے والوں کی اکثریت ضروری نہیں کہ امیر ہو اور ان میں سے سبھی زیادہ تنخواہ والی ملازمتوں میں بھی نہیں ہوتے۔ تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو مالیات کا اچھا انتظام کرنا جانتے ہیں اور خوشی سے ریٹائر ہونے کے لیے جامع منصوبہ بناتے ہیں۔

ریٹائرڈ زندگی کی تیاری کیسے کریں

ہیلتھ انشورنس ریٹائر ہونے والوں کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی عمر میں یہ غیر ضروری ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اور صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، مناسب ہیلتھ انشورنس کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔ لہذا مناسب ہیلتھ انشورنس کرانا ضروری ہے۔یوں ریٹائر ہونے والے ہر وقت صحت سے متعلق ہنگامی اخراجات کے لیے تیار رہتے ہیں۔

دوم یقینی بنائیے کہ قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔یہ عمل آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ سود دینے کی ذمے داریوں کے ساتھ زندگی گزارنا خاص طور پر باقاعدہ آمدنی کے بغیر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی ریٹائرمنٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض ادا کرنے پر خرچ کرنا پڑے تو ریٹائرمنٹ میں کم لطف آئے گا۔ اس لیے مشورہ ہے کہ قرض پر مبنی ذمے داریوں کو ختم کریں اور پھر ریٹائر ہو جائیں۔

 وقت کیسے گزارنا ہے ؟

ریٹائرمنٹ کے دوران ایک شخص جتنا زیادہ مصروف رہتا ہے،اسے اتنی ہی کم چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے، اس بارے میں منصوبہ بنائیں اور ہفتہ وار یا ماہانہ سرگرمیوں کا شیڈول بنائیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کا وقت تعمیری طور پر گزارنے کے لیے کاموں کی فہرست بنائیں۔

آپ کی ریٹائرمنٹ کی جتنی اچھی منصوبہ بندی ہو گی، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے لیے بہترین سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے ،اس بارے میں منصوبہ بندی کریں اور ایک مضبوط سماجی حلقہ تیار کریں تاکہ آپ کو بھرپور و خوشگوار ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے احباب کا ساتھ مل سکے۔

ریٹائرمنٹ پلان کیسے بنایا جائے؟

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی میں ریٹائرمنٹ کے لیے اہداف طے کرنا اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے درکار اقدامات اور فیصلوں کا اندازہ لگانا شامل ہے۔ اقدامات میں آمدنی کے ذرائع دریافت کرنا، اخراجات کی پیشن گوئی ، بچت اور اثاثہ جات کا انتظام شامل ہیں۔

پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے جو اپنی ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ریٹائرمنٹ زندگی کا ایک ناخوشگوار مرحلہ بن جاتا ہے۔محدود آمدنی، زندگی کے بنیادی اخراجات کا انتظام کرنے میں دشواری، بچوں پر انحصار، متعلقہ اخراجات کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مسائل، مشکلات کے ساتھ جینا اور بے لطف و بے رس زندگی اس مرحلے کے نمایاں اثرات ہیں۔

ریٹائر ہونے والے ایسے افراد جن کے پاس مناسب آمدنی کا انتظام نہ ہو، خاندان کے افراد کے تعاون سے زندگی گزارنا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ذلت آمیز بھی ہو سکتا ہے۔جیسا کہ بتایا، پاکستان میں زیادہ تر پرائیویٹ ملازمین کسی ریٹائرمنٹ پلان کا حصہ نہیں ہوتے۔ انھیں اپنے بڑھاپے کی کفالت کے لیے اگلی نسل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔گو وہ جائیداد سے کرائے کی آمدن اور بینک ڈپازٹس کے منافع پر انحصار کر سکتے ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ

نجی ملازمتیں کرنے والوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ بیشتر زندگی بھر مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس لیے ایک کمپنی میں ملازمت کرنے سے انھیں ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو مالی مدد ملتی ہے، وہ ان کو نہیں مل پاتی۔ جو مردوزن ایک کمپنی میں تاعمر یا طویل عرصہ ملازمت کرتے ہیں ، وہ گریجوٹی یا پراویڈنٹ فنڈ کے حقدار پاتے ہیں۔ گریجوٹی کی ساری رقم کمپنی ادا کرتی ہے۔ جبکہ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم بھی اپنا مالی حصہ ڈالتا ہے۔ رضاکارانہ پنشن اسکیم بھی پراویڈنٹ فنڈ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان دونوں منصوبوں میں رقم عموماً سرمایہ کاری میں لگائی جاتی ہے تاکہ منافع حاصل ہو سکے۔

قانون کے مطابق جس کمپنی میں بیس ملازمین کام کرتے ہیں، اس میں ملازم چھ ماہ کام کرنے کے بعد گریجوٹی پانے کا حق دار بن جاتا ہے۔ اگر کوئی صنعتی ادارہ ہے تو اس میں کم ازکم پچاس ملازمین ہونے چاہئیں ۔ نیز گریجوٹی پانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہا ہو۔نیز عام طور پر مینجیریل اور ایڈمنسٹریٹیو شعبوں میں کام کرتے ملازمین کو گریجوٹی نہیں دی جاتی۔

پاکستان کے جن نجی اداروں میں کم از کم دس ملازمین کام کرتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک سرکاری ادارے ،ای اوبی آئی (Employees' Old-Age Benefits Institution)سے رجسٹرڈ ہوں۔ یہ نجی ملازمین کو پنشن دینے والا سرکاری ادارہ ہے، گو اس کی پنشن کافی کم ہوتی ہے۔ تاہم بالکل نہ ہونے سے کچھ پنشن بھی بڑھاپے میں کام آ جاتی ہے۔ جو ملازمین پندرہ سال تک ادارے سے رجسٹر رہ کر کام کریں، وہ پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کیسے کی جائے؟

نوٹ کرنے کے لئے کچھ اہم نکات یہ ہیں:

٭ آمدنی اور اخراجات کا تجزیہ کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ اپنی کمائی سے زیادہ بچا سکتے ہیں۔

٭ ایک بجٹ بنائیں جس میں بچت کا مخصوص فیصد شامل ہو اور اس پر عمل کریں۔

٭ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہنگامی حالات کے لیے اپنے ریٹائرمنٹ سیونگ اکاؤنٹ سے رقم نہ نکالیں۔

٭ اگر آپ کے آجر کے پاس رضاکارانہ پنشن سکیم ہے تو اس میں حصہ لیں۔

٭ سرمایہ کاری کے مشیروں سے مشورہ کریں تاکہ اپنی ضروریات کے لیے موزوں سرمایہ کاری کی مصنوعات منتخب کرسکیں۔ موجودہ عمر اور ریٹائرمنٹ کی متوقع عمر موثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کی مدت جتنی لمبی ہوگی، آپ اپنے پورٹ فولیو میں خطرے کی سطح کو اتنا ہی زیادہ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسٹاک میں سرمایہ کاری کرکے آپ کمپنی کے جزوی مالک بن جاتے اور کمائی کے ساتھ ساتھ نقصانات میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ طویل وقت آپ کو اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ برداشت کرنے اور اپنے پورٹ فولیو کو متوازن کرنے کی اجازت دے گا۔

 ریٹائرمنٹ فنڈ بنانا

آپ ریٹائرمنٹ کے بعد والے اخراجات کے بارے میں اپنی توقعات حقیقت پسندانہ رکھیں جب آمدنی میں کمی آئے گی اور طویل مدتی اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعدان کا سالانہ خرچ کم ہو جائے گا . ایسا مفروضہ اکثر غیر حقیقی ہوتا ہے، خاص طور پر اگر طبی اخراجات مفروضوں میں شامل نہ ہوں۔ہمیشہ ایک قابل اعتماد مالیاتی مشیر سے مالی مشورہ حاصل کریں۔ مالیاتی پیشہ ور مناسب بچت کا منصوبہ تیار کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔نیز باقاعدگی سے بچت کی عادت ڈالیں اور ہر سال جتنی رقم بچاتے ہیں ،اُسے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ اضافہ ترجیحاً مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا چاہیے۔

نظریہ بامقابلہ حقیقت

یہ واضح رہے ، نظریاتی طور پر ہر کمپنی کے کارکنان گریجوٹی یا اس کے بدلے متبادل وصول کرنے کے حقدار ہیں، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔بعض صورتوں میں کمپنی مالی سال کے اختتام پر کنٹریکٹ پر رکھے ملازمین کی ملازمت ختم کر دیتی ہے۔ وہ پھر اگلے مالی سال کے آغاز پر انھیں دوبارہ تعینات کرتی ہے۔ چونکہ گریجوٹی کمپنی میں کام کرنے والے برسوں کی تعداد کا تعین ہے، اس لیے سال کے آخر میں ملازمت ختم اور دوبارہ تعینات کرنے کا مطلب ہے کہ ملازمین کو گریجوٹی کے طور پر ملی کُل رقم اس سے کافی کم ہو گی جو انہیں مستقل ملازمت کی صورت موصول ہوتی۔

 بعض صورتوں میں آجر کوئی گریجوٹی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ جب وہ قانونی طور پر ایسا کرنے کے پابند ہوں۔اس کے برعکس بڑی کمپنیوں میں صورت حال بہتر ہے۔ کچھ کمپنیاں اپنے ان ملازمین کو بھی گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور بہت سے دوسرے الاؤنس پیش کرتی ہیں جو قانونی طور پر گریجویٹی وصول کرنے کے حقدار نہیں ہوتے۔

حرف آخر

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میںسے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جائے تو وہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے کہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے بوجھ سمجھتا ہے ۔قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا۔

ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار، بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔ اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن، مایوسی، مختلف طرح کی کشمکش، نفسیاتی الجھن، چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں فالتو سامان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو تے ہیں۔ یہی وجہ ہے ، ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔

قران حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔(الروم:32)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔‘‘(النبا:11)

ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی نیکی ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا معاشی شغل اپناتے تھے۔حضرت داؤدؑ زرہ بنانے کاکام کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپﷺ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا۔گھر کے کام خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں بذاتِ خود 35 سال کی عمر میں حصہ لیا ۔خندق کی کھدائی میں بھی صحابہ کرام کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح صحابہ کرام محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔

ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصّور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔بسااوقات ہمارے قائدین اور راہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے اور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔  

متعلقہ مضامین

  •   اسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد، فارن آفس کا بیان
  • عمران خان ہوا میں باتیں کرتے ہیں کہ روس سے ڈیل کرنے پر امریکا نے ان کی حکومت گرائی، مصدق ملک
  • پی ایس ایل 10: اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ ملتان سلطانز میچ میں ٹاس کیوں نہیں ہو سکا؟
  • ویمن بمقابلہ مشینز، لاہور ڈیجیٹل فیسٹیول کی نمائش
  • پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کا ذکر تک نہیں کیا، ایاز صادق
  • وزیر اعظم کا اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان
  • سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
  • 9 مئی کیسز، اے ٹی سی کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • یہ حکمران نہیں جیب کترے ہیں, مونس الٰہی
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی