سرسبز پاکستان بمقابلہ سُرخ پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
یہ چوائس آپ کی ہے کہ آپ سر سبز پاکستان کے ساتھ جاتے ہیں یا ایک سرخ پاکستان کے۔ سبز پاکستان، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا پاکستان ہے جس میں فوج اور حکومت مل کر پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کو مضبوط بنا رہے ہیں، اس میں گرین پاکستان انیشئیٹو کے نام سے ترقی، جدت، تحقیق اور سہولت لا رہے ہیں اور سرخ پاکستان ان کا ہے جو دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں، ان کے فکری پشتی بان ہیں۔ یہ لوگ نو مئی اور چھبیس نومبر برپا کرتے ہیں کیونکہ انہیںسرخ پاکستان کے لئے لہو اور لاشیں چاہئے ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہی ملک کی ترسیلات زر کو روکتے ہیں تاکہ اسے ڈیفالٹ کر سکیں، اسے بھوک اور بدامنی دے سکیں۔
پاک فوج کے سربراہ نے ، جو زراعت اور معدنیات کے شعبے میں انقلاب کی قیادت کر رہے ہیں، قرار دیا ہے کہ پنجاب ، پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ متحدہ پنجاب پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا ۔ مجھے کم و بیش ایک برس پہلے ملتان کے قریب ایک کارپوریٹ فارم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تھا اوراس پر تفصیلی کالم بھی لکھے تھے مگر اب چولستان میں اس سے کہیں بڑی ایکٹویٹی ہوئی ہے بلکہ ملک بھر کی بات کی جائے تو زراعت جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں بیس فیصد سے زیادہ کا شیئر رکھتی ہے اس کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ ہماری بہت ساری زمینیں غیر آباد پڑی ہیں اور جو آباد ہیں ان میں پانی کی فراہمی سے فی ایکڑکم پیداوار تک کے مسائل ہیں کیونکہ ہمارے کسان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تک رسائی بہت کم ہے۔ پاک فوج اور حکومت مل کے تیرہ ملین ایکڑ بنجر زمین کو آباد ، زر خیز اور سرسبز و شاداب کرنے جا رہے ہیں۔ گرین پاکستان منصوبے میں سعودی عرب بھی پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے جس سے نہ صرف زرمبادلہ کا فائدہ ہو گا بلکہ مجموعی طور پر زرعی برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس پوری ایکٹیویٹی سے ملک بھر میں تیس سے چالیس لاکھ ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ میں پنجاب کی بات بعد میں کروں گا پہلے سندھ کی کر لیتے ہیں جہاں کارپوریٹ فارمنگ کے لئے باون ہزار ایکڑ سے زائد بنجر زمین کاشت کے لئے لیز پر دی گئی اور دوسری طرف بلوچستان کی پانچ ملین ایکڑ کے قریب اراضی کو آباد کرنے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں کیچ مندر، ہوشاب، دشت، پنجگور کی ستائیس ہزار چار سو ایکڑ اراضی پر کام شروع ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں بلوچ آبادی کو روزگار کے وسیع مواقعے ملیں گے اور علاقے میں خوشحالی آئے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ماضی میں صوبائی حکومتوں کی کم فعالیت کی وجہ سے معدنیات کے شعبے میں کام نہیں ہوسکا لیکن اب پاک فوج نے ذمے داری سنبھالی ہے کہ قدرتی خزانوں کو نکالا جائے اور انہیں عوام کے مسائل کے حل پر لگایا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایک بڑے منصوبے کا افتتاح کرچکے ہیں جس کے تحت بلوچستان کے تمام زرعی ٹیوب ویلوں کو سولرپر منتقل کیا جا رہا ہے۔
پنجاب کی طرف آتے ہیں۔ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چولستان کے علاقے کا دورہ کیا۔ کندائی کے علاقے میں سمارٹ ایگری فارم اور گرین ایگری مال، چاپو کے مقام پر زراعت کی تحقیق اور سہولت کے مرکز کا افتتاح کیا۔ گرین ایگر ی مالز کے بارے بتایا جا رہا ہے کہ یہ پچیس کے قریب تیار ہو چکے جبکہ اس سال کے آخر تک اڑھائی سو تیار ہوجائیں گے۔ چولستان میں دوسرے مرحلے میں پانچ ہزارایکڑ پر جدید زرعی فارم شروع کیا گیا ہے جس میں آبپاشی کا جدید نظام استعمال کیا جائے گا اور دوسری طرف زمین کی جانچ سمیت تحقیق سے متعلق لیبارٹری کی تمام تر خدمات بھی فراہم ہوں گی۔ ریسرچ سنٹرتعلیم و تحقیق والے دوسرے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔گرین ایگری مال اینڈ سروسز کمپنی کسانوں کو ان کے دروازے پر معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی نرخوں پر مہیا کرے گی اور اسی طرح کسانوں کو ڈرونز سمیت تمام جدید مشینری بھی کم کرائے پر دستیاب ہوگی۔ پنجاب کی زرعی معیشت تیزی کے ساتھ آزاد معیشت میں بدلتی جار ہی ہے۔ اسے آپ آئی ایم ایف کا دباؤ کہیں یا اقتصادی مجبوریاں کہ حکومت کے لئے فصلوں بالخصوص گندم کی امدادی قیمت دینا ممکن نہیں رہا۔ یہ کسانوں کو فائدہ ضرور دیتی تھی مگر حکومت کے لئے انتظامی بنیادوں پر بہت ساری مشکلات پیدا ہوجاتی تھیں، کرپشن اس سے الگ۔ ایسے میں کسانوں کو بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے جس کے لئے کسان اور لائیو سٹاک کارڈ سمیت بہت سارے پراجیکٹس بھی لائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں گرین پاکستان انیشئیٹیو چیزوں کو مربوط بھی کرے گا اور ٹھیک بھی کرے گا کیونکہ یہ ایس آئی ایف سی بھی جڑا ہوا ہے۔ اس میں سعودی عرب ہی نہیں بلکہ یو اے ای اور چین کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔ کئی اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ کارپوریٹ فارمنگ کا پراجیکٹ ہے تو وہ پوری تصویر نہیں دکھاتے، پوری بات نہیں کرتے۔ یہ ہرگز ہرگز صرف کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ نہیں۔ یہ زراعت کی جدت اور مہارت کو اوپر سے لے کر نیچے تک لاگو کرنے کی جامع منصوبہ بندی ہے۔اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ فوج کا کام نہیں ہے اوراس کے پیچھے بھی ان کی بدنیتی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا تھا اوراگر خدانخواستہ حکومت، فوج اور عدلیہ کے سربراہ ایک دوسرے کو سپورٹ نہ کرتے تو یہ خاکم بدہن پاکستان کو لے دے چکے تھے۔ اس وقت پاکستان کو بچانے میں میرے، تیرے کا تصور نہیں چل سکتا۔ جب کشتی ڈوب رہی ہو تو اسے بچانے کے لئے سب ہی ہاتھ پیر مارتے ہیں، سب ہی چپو چلاتے ہیں۔ ہمیں اس موقعے پر اعتراضات کرنے کی بجائے پاک فوج کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ وہ اپنی توانائیاں پاکستان کو بچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مضبوط بنانے میں بھی صرف کر رہی ہے ۔
کیا کہا؟ یہ آئینی نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فوج کا حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہی عین آئینی اور جمہوری ہے۔ غیر آئینی اور غیر قانونی وہ تھا جو جنرل فیض حمید کرتے رہے اور اب وہ اپنے ان غیر قانونی سیاسی رابطوں کی تفتیش بھگت رہے ہیں۔ حقائق تو یہ ہیں کہ عمران خان اس وقت بھی آرمی چیف کو سیاسی خطوط لکھ کر سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں اور آرمی چیف ایسے خطوط کی وصولی پر عین آئینی اورقانونی جواب دے رہے ہیں کہ ایسے خط ملے بھی تو وہ وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ پاک فوج اس وقت اپنے آئینی کردار کو بہترین اور شاندار انداز میں مکمل غیر جانبداری اور بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرر ہی ہے۔ ہمیںسر سبز پاکستان کے لئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں اور پاکستان کو اس کے عوام کے لہو سے سرخ دیکھنے والوں کے ہاتھ توڑنے ہیں،انشاء اللہ!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان کو پاکستان کے کسانوں کو جا رہا ہے پاک فوج کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
انسٹاگرام پر ناپسندیدگی کا اظہار، نئے ڈس لائیک بٹن کی تیاری
انسٹاگرام نے طویل عرصے کے انتظار کے بعد آخرکار ’’ڈس لائیک بٹن‘‘ متعارف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ابتدائی طور پر ’ڈس لائیک بٹن صارفین کو پوسٹس یا ویڈیوز پر ڈس لائیک کرنے کی اجازت نہیں دے گا، بلکہ یہ فی الحال صرف کمنٹس تک محدود رکھا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق اگرچہ یہ فیچر ابھی آزمائشی مراحل میں ہے اور محدود صارفین کے لیے دستیاب ہے تاہم یہ جلد ہی تمام صارفین کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔
اس فیچر کے ذریعے صارفین کسی بھی پوسٹ یا ویڈیو پر کیے گئے کمنٹس کو ڈس لائیک کر سکیں گے، لیکن مستقبل میں اسے پوسٹس اور ویڈیوز کے لیے بھی فعال کیا جا سکتا ہے۔
ڈس لائیک بٹن کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے متعلق معلومات خفیہ رکھی جائیں گی۔ یعنی عام صارفین ڈس لائیک کی تعداد نہیں دیکھ سکیں گے؛ یہ تعداد صرف کمنٹس کرنے والے اور پوسٹ کے مالک کو نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ، ڈس لائیک کرنے والے کا نام بھی ظاہر نہیں ہوگا۔
انسٹاگرام کے سربراہ نے اس اقدام کے بارے میں کہا کہ ڈس لائیک بٹن کا مقصد یہ ہے کہ صارفین کو یہ آگاہ کیا جا سکے کہ ان کا کمنٹ دوسروں کو ناگوار محسوس ہو سکتا ہے، جس سے سوشل میڈیا پر ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔