Nai Baat:
2025-02-20@20:29:51 GMT

منزل مراد تک پہنچنا مشکل نہیں !

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

منزل مراد تک پہنچنا مشکل نہیں !

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک عوام کو سو فیصد بنیادی حقوق مل گئے ہوتے اور وہ پْر آسائش زندگی بسر کر رہے ہوتے مگر ایسا نہیں ہو سکا پچاس فیصد بھی حقوق نہیں مل سکے لہٰذا مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہو گئے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر اقتداری کھیل ہی ختم نہیں ہو رہا۔ ایک دوسرے کو گرانے اور جھکانے کی حکمت عملیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ایک حکومت کوئی عوامی منصوبہ بناتی ہے تو دوسری آکر اس میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتی ہے اس طرح تو ملک ترقی نہیں کر سکتا لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں سے عرض ہے کہ وہ عوام کی خاطر ایک پلیٹ پر کھڑی ہو جائیں یہ جو ٹانگ کھینچنے کی سیاست ہے اس سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے ملک کو باہمی چپقلشوں سے بے حد نقصان پہنچ چکا ہے اسی لئے ہی ابھی تک حقیقی جمہوریت نہیں آسکی کیونکہ کوئی نہ کوئی طالع آزما آکر عنان اقتدار سنبھال لیتا ہے اور اپنے مطابق امور مملکت نمٹانے لگتا ہے اگرچہ اس کے دور میں معاملاتِ حیات میں تھوڑی بہتری آتی ہے مگر وہ جو "اصلاحات‘‘ کر جاتا ہے آنے والی منتخب حکومت کے لئے مشکلات کا سبب بن جاتی ہیں کیونکہ وہ ٹھیک طور سے ڈیلیور نہیں کر پاتی نتیجتاً عوام ناراض ہو جاتے ہیں اور کسی دوسری حکومت کی خواہش کرنے لگتے ہیں وہ بھی جب آتی ہے تو ان کی آس امید پر پورا نہیں اترتی لہٰذا اس وقت مسائل کی یلغار ہے جن سے چھٹکارا پانا کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں ضروری ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں حکومت سے تعاون کریں اس سے انہیں بھی سیاسی فائدہ ہوگا کیونکہ عوام کو معلوم ہو گا کہ اگر حزب اختلاف حکومت کی مدد نہ کرتی تو وہ اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پاتی لہذا کون جیتا کون ہارا کو پس پشت ڈالتے ہوئے متحد ہونا پڑے گا اس سے جہاں جمہوری عمل کو تقویت ملے گی وہاں عوام کے سلگتے مسائل بھی حل ہو سکیں گے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے لہٰذا ایک سیاسی ہنگامہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس امر کا خیال نہیں رکھا جا رہا کہ ان کی سیاسی لڑائی سے کوئی تیسرا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ جو حکومت مخالف اتحاد تشکیل پا رہا ہے جس کا مقصد حکومت کو ہٹانا ہے مگراسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اس الجھے اور بگڑے نظام کو کیسے ٹھیک کر سکے گا ان میں شامل کسی جماعت کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے جس سے وہ خوشحالی کی لہر ابھار سکے گی ؟
ہمیں نہیں لگتا کہ کسی کے پاس کوئی مربوط معاشی نظام کا خاکہ ہے۔ سب ہی پیوند کاری کرتے ہیں اور دکھائی دینے والے منصوبے بنا کر سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو راضی کیا جا سکتا ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے کیونکہ لوگ خود تجزیہ کرنے لگے ہیں انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ لنکن نے صحیح کہا تھا کہ ’’آپ لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے آپ ان میں سے اکثر کو بے وقوف بنا کر ایک بڑے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں‘‘۔

بہرحال وطن عزیز میں ایک دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اور ہر کسی کی نظریں اقتدار پر جمی ہوئی ہیں اس نظام کو بدلنے کے لئے کوئی ایک بھی سیاسی جماعت کچھ کرنے کو تیار نہیں جو منظر پے موجود ہے وہ سب ٹھیک کا دعویٰ کر رہی ہے اور جو اقتدار سے باہر ہے وہ کہتی ہے کہ جب ہم آئیں گے تو اجڑے چمن میں بہار آ جائے گی کیسے آئے گی یہ بتانے سے قاصر ہے۔ عوام مگر مایوس ہیں انہیں اپنے مستقبل کے روشن ہونے کی کوئی امید نہیں۔ بس یہی کہا جا رہا ہے کہ دن جلد پھریں گے۔ایسا تو پانچ چھے دہائیوں سے سن رہے ہیں مگر ہوا اتنا ہی جتنا جسم حرکت میں رہے۔ اس کے بر عکس اہل اقتدار کو ہمیشہ توانا دیکھا گیا ہے انہوں نے خود کو اس قدر مضبوط کر لیا ہے کہ اس کی کئی نسلیں ہاتھ ہلائے بغیربھر پور طور سے جی سکیں گی۔ کیا ہم اسے منصفانہ سمجھیں جمہوریت خیال کریں نہیں بالکل نہیں۔

یہاں جو نظام چل رہا ہے وہ لوگوں کی امنگوں کے مطابق بالکل نہیں اب تو ارباب اختیار پیداواری ذرائع کو بھی تبدیل کرتے جا رہے ہیں یعنی ان سے منسلک مزدوروں، کارکنوں اور ملازمین کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مستقلاً ان سے جڑے رہ سکیں جبکہ ریاست اپنے شہریوں کو ہر نوع کے تحفظات سے محفوظ رکھتی ہے مگر یہ تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے حیرت مگر یہ ہے کہ حکمران طبقہ اسے جمہوریت کہتا ہے تو پھر آمریت کیا ہے؟ ستتر برس بیت چکنے کے بعد بھی سماجی، سیاسی اور معاشی پرنالہ وہیں کا وہیں ہے مگر ڈھول کارکردگی کا ہر حکومت بڑا پیٹتی ہے اور بذریعہ بیانات و اشتہارات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ بس اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ہوتا کچھ نہیں مہنگائی بھی موجود رہتی ہے قانون بھی سہما سہما رہتا ہے تھانے عقوبت خانے نظر آتے ہیں سرکار کے محکموں کے اہلکاروں کے ماتھوں کی شکنیں بھی واضح دکھائی دیتی ہیں آوے کا آوا ہی بگڑ ہوا ہے لہٰذا داد نہ فریاد نہ کوئی میرٹ۔ ایسے کیسے ملک خوشحال ہو گا مگر اہل اقتدار کا اصرار ہے کہ وہ بڑے کاریگر ہیں سیانے ہیں لہٰذا نئی سویر ضرور طلوع ہو گی۔ہم بھی یہ بات کہتے ہیں کہ آخر کار سہانی صبح کو نمودار ہونا ہی ہے مگر اس کے لئے پرخلوص جدوجہد کی جاتی ہے ہمت دکھائی جاتی ہے خالی خالی دعوے نہیں کیے جاتے لہٰذا اپنے بہی خواہوں سے واہ واہ کروانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا واہ واہ اس وقت بھلی لگتی ہے جب ملک میں حقیقی جمہوریت ہو جو شہریوں کو حق رائے دہی ہی نہیں دیتی انہیں شریک اقتدار بھی کرتی ہے لہٰذا اگر اہل اقتدار مخلص ہیں اور وطن عزیز کو مشکلات سے باہر نکالنا چاہتے ہیں تو وہ عوامی فکر کو نظر انداز نہ کریں اور انہیں غربت افلاس اور بے روزگاری سے چھٹکارا دلانے کی بھر پور سعی کریں اور وہ صاف نظر آئے وگرنہ وہ سمجھیں گے کہ سب طفل تسلیاں ہیں لہٰذا وہ اطمینان قلب سے محروم رہیں گے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی نفرت بھی ختم نہیں ہو گی تو پھر معاشی اور سیاسی میدان میں بھی اداسی و ویرانی رہے گی لہٰذا کیوں نہ وہ کیا جائے جو ہمیں منزل مراد تک پہنچا دے !

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نہیں ہو ہے مگر کے لئے نہیں ا ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، کسی سے بیک ڈور ملاقاتیں نہیں ہو رہیں: عمر ایوب

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، کسی سے بیک ڈور ملاقاتیں نہیں ہو رہیں۔

پشاور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ تحریک انصاف شفاف انتخابات چاہتی ہے، پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں اور اپوزیشن جماعتوں کا گلا کاٹا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، لوگ پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں، اینٹیلجس ایجنسیز اس وقت پی ٹی آئی کے پیچھے لگی ہے، ہماری حکومت آئے گی تو 26 ویں آئینی ترمیم واپس کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ  پاکستان میں رول آف لاء نہیں ہے، ہمارے کارکنان مختلف کیسز میں جیلوں میں ہے، ملٹری کورٹ میں سویلین کا ٹرائل نہیں چلایا جاسکتا ہے۔

عمر ایوب نے مزید کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی سے وکلاء کی ملاقاتیں روک دی گئی ہیں، ہم اپنے قید ساتھیوں کی رہائی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ اعظم نے پی ٹی آئی کو فلور آف دی ہائوس مذاکرات کی آفر کی: رانا ثنااللہ
  • حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللہ
  • حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللّٰہ
  • سیاسی استحکام
  • اسد قیصر نے بیک ڈور چینل سے مذاکرات کی تردید کردی
  • ٹریفک حادثات پر آل پارٹیز کانفرنس، ڈمپرز حادثات پر کمیشن بنانے کا مطالبہ
  • سندھ حکومت بھی سمجھے کہ شہریوں کا غصہ قابو میں رکھنا اب مشکل ہوگیا ہے، گورنر سندھ
  • حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، کسی سے بیک ڈور ملاقاتیں نہیں ہو رہیں: عمر ایوب
  • سندھ حکومت بھی سمجھے شہریوں کا غصہ قابو میں رکھنا اب مشکل ہو گیا ہے: کامران ٹیسوری
  • خطوط کی سیاست اور مفاہمتی امکانات