ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں سے اللہ دشمن کو بھی بچائے۔ کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں میں اب جو کچھ ہوتا ہے ایسا اگر بزرگوں کے دور اور وقت میں ہوتا تو یقین مانیں ہمارے وہ بزرگ دن میں ایک نہیں ہزار بار ان کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں سے پناہ مانگتے۔ کورٹ، کچہریوں اور تھانوں کو چھوڑیں ہسپتالوں کے نام پر بننے والے صرف ان قصاب خانوں میں اب جو کچھ ہو رہا ہے واللہ ان ہسپتالوں کے حالات دیکھ کر دل پھٹنے لگتا ہے۔ مویشیوں کے باڑے میں باندھنے والے جانوروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں ہوتا جو سلوک اور ظلم ان ہسپتالوں میں اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے آنے والے غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنے کزن بہرام خان کے شیرخوار بچے کی بیماری کے باعث بہت سے ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسز سے واسطہ پڑا۔ ایبٹ آباد سے پشاور تک اس بھاگ دوڑ میں جہاں یہ یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر اور نرسز کی اکثریت کے سینے میں دل نہیں ہوتا وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہسپتال بٹگرام کے ہوں، ایبٹ آباد کے یا پھر پشاور کے یہ سب تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں غریب، مجبور اور لاچار انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ موسم سرما کی سرد راتوں میں جب یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے جانور بھی باہر پناہ تلاش کئے پھرتے ہیں اس حال میں جب ان ہسپتالوں کے دلانوں اور بیابانوں میں وارڈز سے نکالے گئے غریبوں اور مجبوروں کو سردی سے کانپتے اور ٹھٹھرتے ہوئے انسان دیکھتا ہے تو روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ جن ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین تین اور چار چار مریض لٹائے جاتے ہوں ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کے لئے کیا انتظام ہو گا۔؟ یہ سب کو اچھی طرح پتہ ہے۔ غریب لوگ اپنا اور اپنوں کا علاج کرانے کے لئے اپنی مرغیاں، گائے، بکری اور بھینس کیا۔؟ گھر کی ایک ایک چیز تک بیج دیتے ہیں لیکن ان ہسپتالوں میں پھر بھی ان غریبوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ پیسے ہر کسی کو اچھے لگتے ہیں پر ہسپتالوں کے نام پر قصاب خانے کھولنے والے ان نام نہاد خدائی خدمتگاروں اور مسیحاؤں کی پیسوں سے محبت لیلیٰ و مجنون اور ہیر رانجھا کی محبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ مخلوق پیسے سے صرف محبت نہیں بلکہ محبت کی بھی انتہاء کرتے ہیں۔ ہسپتال اور بیڈز پر پڑے مریضوں سے اس مخلوق کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ہسپتال کے بیڈ پر ایڑھیاں رگڑنے والا مریض مرتا ہو یا جیتا ہو اس سے اس مخلوق کا کیا کام۔؟ ان کا کام اور مقصد فقط پیسے تک ہے۔ یہ وہی کام کرتے ہیں جس سے پیسہ ملنے کا یقین ہو۔ مانا کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں اور بہت سے ڈاکٹر سچ اور حقیقت میں غریبوں اور مجبوروں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں لیکن اس مقدس پیشے سے وابستہ مسیحائوں کی اکثریت زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کرنے والوں کی ہے۔ اکثر ڈاکٹر پیسوں کے بغیر مریضوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ جس کے پاس فیس کے پیسے نہ ہوں اس کا ڈاکٹر سے چیک اپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بغیر فیس اور پیسوں کے تو ڈاکٹر کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ اس ملک میں سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا حال بہت برا ہے۔ ان ہسپتالوں میں ایک ہی رات گزارنے کے بعد بندے کو خدا یاد آجاتا ہے۔ یہاں مریض کے لواحقین دن اور رات کو جس کرب و تکلیف سے گزارتے ہیں وہ صرف ان ہسپتالوں میں شب و روز گزارنے والے غریب اور ان کا خدا ہی جانتا ہے۔ عالمی سٹینڈرڈ کے پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرانے والے حکمران اور سیاستدان کیا جانیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔؟ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین جس طرح ذلیل اور خوار ہوتے ہیں وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ سنگ مرمر سے بنے محلات میں خراٹے مارنے والوں کو ایک لمحے کے لئے سوچنا چاہئے کہ سخت سردی میں آدھی رات کو وارڈ سے بیدخل ہونے والے مریضوں کے لواحقین پر کھلے آسمان تلے کیا گزرتی ہو گی۔؟ ہم نے ایبٹ آبادسے پشاور تک مریضوں کے ساتھ ہسپتال آنے والے رشتہ داروں اور قرابت داروں کو یخ بستہ ہواؤں اور راتوں میں کھلے آسمان تلے سردی سے کانپتے اور ٹھٹھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے دھکے اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کوئی انتظام نہیں۔ اللہ کسی کو غریب پیدا نہ کرے۔ کوئی غریب پیدا ہو تو پھر رب اسے ہر بیماری سے بچائے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کے ساتھ صرف برا نہیں بلکہ بہت برا ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں کے ہسپتال امریکہ اور برطانیہ جیسے ہوں حکمران اس ملک کے غریب عوام کے لئے بے شک عالمی سٹینڈرڈ کے ہسپتال نہ بنائیں لیکن ان ہسپتالوں کو کم از کم اس قابل تو بنائیں کہ یہاں آنے والے غریب ارمانوں اور مایوسیوں کی بوریاں سروں پر اٹھائے ان ہسپتالوں سے نہ نکلیں۔ جو مریض آخری ہچکیاں لے رہا ہو اور اس کا خونی رشتہ دار بھائی، بہن، ماں اور باپ کسی ڈاکٹر، نرس اور گارڈ سے باہر دھکے کھا رہا ہو تو خود سوچیں اس مریض کے مرنے کے بعد ان رشتہ داروں اور قرابت داروں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔؟ حکمران ان ہسپتالوں کو عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق سہولیات دیں یا نہ دیں لیکن کم از کم ان ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف کو اخلاقیات اور انسانیت کاسبق ضرور پڑھائیں اور سکھائیں، جن لوگوں کو اخلاقیات اور انسانیت کا ہی نہیں پتہ وہ لوگ انسانیت کی کیا خدمت کریں گے یا انسانیت کو کیسے بچائیں گے۔ ڈاکٹرز اور نرسز سرکاری ہسپتالوں میں ایسے کام کرتے ہیں جیسے یہ نوکری نہیں بلکہ اس ملک اور قوم پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہے ہوں۔ پرائیویٹ کلینک اور ہسپتالوں میں یہی ڈاکٹر صبح سے رات تک بیٹھے رہتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں دو تین مریض دیکھنے اور تین چار گھنٹے گزارنے کے بعد ان کو موت آنے لگتی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر ملازمین اگر پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں میں جی جی کر سکتے ہیں تو پھر سرکاری ہسپتالوں میں کیوں نہیں۔؟ پیسہ ہی سب کچھ نہیں انسانیت بھی آخر کوئی شے ہے۔ مال بٹورنا اور جاگیریں بنانا بعد میں ہے پہلے انسانیت بچانا ہے۔ انسانیت تب بچے گی جب پیسے پر ایمان لانے والی یہ مخلوق انسان بنے گی نہیں تو یہ انسان اس مخلوق کے ہاتھوں اسی طرح لٹتے، رلتے اور تڑپتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سرکاری ہسپتالوں میں ہسپتالوں میں غریب ان ہسپتالوں میں اور ہسپتالوں ہسپتالوں سے ہسپتالوں کے نہیں بلکہ غریبوں کے مریضوں کے نہیں ہوتا جو کچھ ہو ا نے والے اس مخلوق ہوتا ہے کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
بیٹے کی ہاؤسنگ سکیم اور اکاؤ نٹ میں 49ارب روپے کی موجودگی کی افواہوں پر مولانا طارق جمیل کی وضاحت آگئی
فیصل آباد (نیوز ڈیسک)معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے واضح کیا ہے کہ میرے بیٹے کی نہ تو کوئی ہاوسنگ سکیم نہیں اور نہ ہی میرے اکاونٹ میں 49ارب موجود ہیں،جس نے تحقیق کرنی ہے میرے دروازے کھلے ہیں۔رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر بینک اکاونٹ میں اربوں موجود ہونے کی خبریں چلنے پر اپنے بیان میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ دونوں چیزیں بہت ہی غلط پھیلائی جا رہی ہیں۔
میں صرف ان دو چیزوں پر اپنی صفائی پیش کرنا چاہتا تھا۔ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہوں۔اللہ تعالی نے ایک بھرم بنایا ہوا ہے لیکن کروڑوں روپے کبھی میرے پاس نہیں آئے۔
ان کاکہناتھاکہ مجھے اللہ کے راستے میں چلتے ہوئے 52 سال ہوگئے لیکن کبھی اس طرح کے حرام مال کی طرف نہیں گیااور نہ ہی اپنے بچوں کو حرام کی کبھی ترغیب دی ہے اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال رزق کمانے کی تلقین کی ہے۔اگر میں نے یہی کام کرنا تھا تو میری 52 سال کی محنت تو صفر ہوگئی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری باتوں سے ہزاروں لوگ ایمان لائے اور غیر مسلموں نے کلمہ پڑھا۔ 6 براعظموں میں اللہ میری آواز پہنچا رہا ہے۔میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ اس طرح کا کام کرسکتا ہوں۔ا پنے بچوں کو کبھی کوئی غلط لقمہ نہیں کھلایا اور نہ ہی کبھی غیرقانونی طریقے سے پیسہ بنایا ہے۔
مولانا طارق جمیل کا یہ بھی کہنا تھاکہ حسد کرنے والوں کی زبان کون بند کرسکتا ہے؟ جب سے اس راستے پر چلا ہوں کبھی زندگی میں جھوٹ نہیں بولا۔انہوں نے کہا کہ ایک بار پہلے بھی میرے بارے میں خبر چلی کہ میرے اکاونٹ میں 50 ارب روپے موجود ہیں اور اب پھر کہا جا رہا ہے کہ میرے اکاونٹ میں 49 ارب روپے موجود ہیں۔میرے سارے اکا?نٹ سب کے سامنے ہے۔میرے گھرکے دروازے کھلے ہیں جس نے جو بھی تحقیقات کرنی ہیں آکر کر لے۔
بھارت اور نیپال میں شدید بارش اور آسمانی بجلی، 100 سے زائد افراد جاں بحق