ارض فلسطین اور ڈونلڈٹرمپ کا ناپاک منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
کہاجاتا ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے لیکن جب میں فلسطین میں اسرائیل اورمقبوضہ کشمیر میں بھارت کاظلم وستم دیکھتاہوں تو اس کہاوت کی حدتک مایوس ہوجاتا ہوں کہ آخریہ ظلم کے خاتمے کی ایسی کونسی حد ہے جس کو اسرائیل اور بھارت کے مظالم نہیں پہنچ پارہے۔ساتھ ہی ساتھ جب میں آزادی کی تحریکوں کی کامیابی پرنظر ڈالتا ہوں توامید جاگ جاتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہوقبضہ کرنے والا کتنا ہی طاقتوراور جارح ہوآزادی کے مجاہد اپنی جان پر کھیل کرآزادیاں حاصل کرتے رہے ہیں ۔اگر آزادی کی تحریکیں منزل مراد کو نہ پہنچتیں تو آج بھی برطانوی سامراج میں سورج کو غروب ہونے کی جگہ نہ مل پاتی۔ اٹھارویں صدی میں برطانیہ کا تسلط برصغیر سے شروع ہواجو پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور ترکی کی ہار کے بعد خلافت عثمانیہ کو توڑتے ہوئے برطانوی سرحدوں کو جنوبی ایشاسے پورے ایشاتک پھیلا گیاان ممالک کے نام درکار ہوں تو دولت مشترکہ میں شامل ممالک کی فہرست دیکھی جاسکتی ہے لیکن پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی کی تحریکوں کو فتح نصیب ہونا شروع ہوگئی۔مجھے یقین ہے کہ آزادی کی کامیاب تحریکوں میں بہت جلد فلسطین اورکشمیر کابھی شمار ہوگا۔پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران پچیس سال کا عرصہ آزادی کی تحریکوں کے لیے سازگار عرصہ کہلاتا ہے۔لیکن یہی وہ عرصہ بھی ہے جس میں برطانیہ کے زیرتسلط فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری شروع کرائی گئی ۔جب برصغیر میں تحریک آزادی زوروں پر تھی ۔برطانیہ یہاں پسپا ہورہا تھا تو مشرق وسطیٰ میں اسی برطانیہ کے زیر سایہ یہودیوں کی آبادکاری جاری تھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ نے اپنے زیرتسلط علاقوں کو آزادی دینا شروع کی تو وہیں فلسطین اور عرب دنیا کے دل میں اسرائیل کو گاڑدیا گیا۔اقوام متحدہ نے انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کو بطورالگ ملک تسلیم کرلیا۔یہاں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام امت مسلمہ کے لیے خوشی کا باعث تھا وہیں فلسطین کی تقسیم اوروہاں ایک یہودی ریاست کا قیام مسلمانوں کے لیے گہرازخم بن رہا تھا۔
اسرائیل اُس وقت مقبوضہ بیت المقدس کاکنٹرول لینے میں ناکام رہا۔یروشلم کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس رکھنے پر اتفاق ہوا ۔اسرائیل کے قیام کو کسی نے بھی تسلیم نہ کیاجس کے نتیجے میں اسی سال انیس سو اڑتالیس میں عرب اسرائیل پہلی جنگ شروع ہوگئی۔یہ جنگ جس معاہدے پرختم ہوئی اس نے اسرائیل کومزید مضبوط کردیا۔اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا فلسطین کی مزید تین گنا زمین پرقبضہ ہوگیا۔اس جنگ میں سات لاکھ فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑگیا۔اس وقت مغربی کنارہ اردن جبکہ غزہ پر مصرکا کنٹرول تھا۔ یہ فلسطینی زیادہ تر انہی دو علاقوں میں مہاجر بن کر آباد ہو گئے۔ دوسری طرف عرب ممالک سے ڈیڑھ لاکھ یہودی ہجرت کرکے اسرائیل میں آباد ہوگئے۔
1967میں عرب اسرائیل جنگ دوبارہ شروع ہوگئی ۔اس جنگ میں بھی عربوں کو شکست ہوئی اورمزید علاقے اسرائیل کے کنٹرول میں چلے گئے۔اس جنگ کے نتیجے میں اردن سے مغربی کنارہ اسرائیل نے چھین لیا۔ مصرنے غزہ کا کنٹرول اسرائیل کے حوالے کردیااورشام کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرکے عرب ممالک پر اپنی دھاک بٹھا دی ۔ اس جنگ کے بعد عرب ممالک کی توجہ فلسطین سے ختم ہوکر اپنے اپنے ممالک کے مسائل کی طرف ہوتی گئی ۔ جب فلسطین کے ہمسایہ ممالک نے ذہنی طوپراسرائیل کو ایک طاقتور حقیقت تسلیم کرلیا تو اسرائیل نے ان ممالک سے چھینے علاقوں میں یہودی بستیاں بنانا شروع کردیں۔
اسرائیل سے جنگ ہارنااور بہت سے علاقوں پر اسرائیل کے کنٹرول نے خطے میں عربوں کا رعب ختم کردیا تھا۔اپنی اس سبکی کا بدلہ لینے کے لیے مصراور شام نے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کی۔ اس حملے کا مقصد مصر کا سنائی کا علاقہ اور شام کاگولان کی پہاڑیوں کا قبضہ واپس لینا تھا۔اس حملے کے لیے 1973میں یہودیوں کے مقدس دن یوم کپور کا انتخاب کیا گیا۔یہ اسرائیل پرپہلا شدید حملہ تھا ۔یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ اسرائیل کونہ سمجھنے کا موقع ملا اور نہ ہی سنبھلنے کا۔اس جنگ میں امریکا اسرائیل کے ساتھ اور روس مصر کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔یہ جنگ عرب اسرائیل کم اور امریکا روس کے درمیان زیادہ بنناشروع ہوئی تو سیز فائر کی کوششیں بھی شروع ہوگئیں۔ چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو شروع ہونے والی یہ جنگ پچیس اکتوبر کو اس معاہدے کے ساتھ ختم ہوگئی کہ اسرائیل سنائی کا علاقہ مصرکو واپس کرنے پر راضی ہوگیا لیکن گولان کی پہاڑیوں پر اس کا قبضہ رہا۔نہ مغربی کنارے کا قبضہ واپس اردن کو ملا نہ غزہ کی قسمت میں کوئی تبدیلی آئی ۔اس دن کے بعد سے آج تک اسرائیلی مظالم کا سلسلہ دراز ہے۔عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ناکامی کے بعد فلسطینیوں نے مزاحمتی تحریکوں کا آغازکردیا۔
1973کی جنگ کے بعد گزرے پچاس سالوں میں عرب دنیا فلسطین کا کوئی پرامن حل نکالنے میں لگ گئی ۔ جتنے بھی امن معاہدے ہوئے اس پر عمل بھی صرف ایک فریق یعنی فلسطین نے ہی کیا دوسری طرف اسرائیل کو کوئی طاقت ان معاہدوں پر عمل کا پابند ہی نہیں بنا سکی۔ یوم کپور کے حملے کوپچاس سال مکمل ہونے پر حماس نے6اکتوبر2023کو پھر بڑا حملہ کردیالیکن اس کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ کو مکمل تباہ کردیا۔لبنان پر حملوں میں حزب اللہ کی پوری قیادت ختم کردی۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت بھی ہو گئی۔ ہزاروں فلسطینی ایک بار پھر شہید ہوگئے ۔اب سیز فائر ہوا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات میں غزہ کو مظلوم فلسطینیوں کے وطن سے زیادہ رئیل اسٹیٹ کے ٹکڑے کے طورپرڈیل کرنے کا خوفناک منصوبہ بنالیا۔ڈونلڈ ٹرمپ ہر روزاپنے عزائم کو دہراتے ہوئے فلسطینیوں کو قریبی عرب ممالک میں جاکر بسنے کے مشورے دیتے ہیں۔وہ سعودی عرب میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی بے سروپا باتیں بھی کررہے ہیں۔گزشتہ اسی سال میں ارض فلسطین نے بہت زخم کھالیے اب امریکا اسرائیل کی اتنی جرات اور ہمت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ فلسطین کا وجود ہی ختم کرنے کی کھلم کھلم بات کر رہے ہیں۔ یہ صرف عرب دنیا کا امتحان نہیں صرف مسلم دنیا کا بھی امتحان نہیں بلکہ پوری سات ارب دنیا کا امتحان ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کھڑے ہوجائیں ۔مجھے تو اس بحران میں امید دکھائی دے رہی ہے اور یقین ہے کہ ٹرمپ کا ناپاک منصوبہ نہ صرف ناکام ہوگا بلکہ فلسطین کا مسئلہ حل کرنا اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مجبوری بھی بن جائے گا۔اللہ مظلوموں پر رحم کرے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے نتیجے میں میں اسرائیل عرب اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کو اسرائیل کے شروع ہوگئی عرب ممالک ا زادی کی دنیا کا جنگ کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
غزہ فلسطینیوں کا ہے، سیاسی سودے بازی کیلئے بارگیننگ چپ نہیں، چین
NEWYORK:چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارہ سیاسی سودے بازی کے لیے بارگیننگ چپ نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں کا وطن ہے اور چین مشرق وسطی میں دو ریاستی حل کا حامی ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے تنازع کا دو ریاستی حل ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطین کے لوگوں کا وطن ہے اور سیاسی سودے بازی کے لیے ایک بارگیننگ چپ نہیں ہے، فلسطینیوں کی حکمرانی میں فلسطین ایک لازمی اصول ہے جس پر غزہ کشیدگی کے بعد حکومت کے حوالے سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ پر قبضہ کرے گا اور تجویز دی تھی کہ اردن اور مصر غزہ کے شہریوں کو پناہ دے جبکہ اردن اور مصر نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔