کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا اس کے بانی مسٹر عمران خان کی سیاسی حکمت عملیوں کی ناکامی کی تاریخ کافی طویل ہے لیکن ماضی میں بہت دور تک جائے بغیر اگر صرف عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے اور اس کے کامیاب ہو جانے سے لے کر آج تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اول تو ابتدا سے ہی انہوں نے درست حکمت عملی نہیں اپنائی ، اور اگر کہیں ان کی پلاننگ درست تھی بھی تو ٹائمنگ کسی بھی طور درست نہ تھی۔
جب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں ارکان کی تقسیم بالکل واضح تھی لیکن ان کی جانب سے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے تاخیری حتیٰ کہ غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے جن میں ایک واضح طور پر کامیاب ہوتی ہوئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
یہاں سبکی کاسامنا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ارکان سے قومی اسمبلی سے استعفے دلوا لیے۔ پھر بھی دل کو تسلی نہ ہوئی تو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومتیں ختم کر ڈالیںاور جو سپورٹ اور قوت انہیں ان صوبائی حکومتوں سے مل سکتی تھی خود ہی اپنے آپ کو اس سے محروم کر ڈالا۔
اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر نو مئی، چھبیس نومبر اور اسلام آباد پر چڑھائی جیسے کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں شرکت تو کی، ڈپٹی سپیکر، سپیکر ، وزیر اعظم غرض ہرآئینی عہدہ کے انتخاب میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے۔ پھر قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا حصہ بھی بنتے رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی جعلی کہنے کی گردان بھی جاری رکھی۔
پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں، آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے اور سول نافرمانی کی کال تک دے کر دیکھ لیا گیا لیکن حاصل مکمل ناکامی اور سبکی کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔
پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ہم نے دیکھا کہ وہی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی جن پر بھرے جلسوں میں تبرے چھوڑے جاتے تھے ان کے نام بگاڑے جاتے تھے اور کسی سٹیج اداکار کی طرح ان کی نقالی کی جاتی تھی ان کو اپنا رہبر اور راہنما تسلیم کر لیا گیا اور یہ ہر وقت حاضری کے لیے ان کی چوکھٹ پر موجود رہنے لگے۔
پہلے حکومت اور موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے رہے پھر اچانک ہی اس پر راضی ہو ئے۔ لیکن مذاکرات کو درمیان میں ہی چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ جس اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے، ان کی اعلیٰ قیادت پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے، ان کے نام بگاڑتے رہے اوران کے دفاتر پر حملے کرتے رہے پھر انہیں کو واحد نجات دہندہ سمجھ کر ان سے مذاکرات کی کوششیں اور کاوشیں کرتے رہے۔ کورا جواب ملنے کی صورت میں خط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اس میں بھی ناکامی پر کھلے خط لکھنے کی آپشن اپنائی گئی۔ خیال ہے کہ دراصل اس طرح سے وہ آرمی چیف کو نہیں بلکہ آرمی کو آوازیں دے رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ سانحہ نو مئی کے روز جب پی ٹی آئی کی قیادت کارکنان کے ہمراہ لاہور کینٹ کی جانب گامزن تھی تو شیرپاو پل سے پہلے گلبرک کے علاقہ میں موجود ایک بڑے پلازہ میں موجود میرے چند احبات نے فون پر مجھے ان کے کینٹ کی جانب جانے کی خبردی۔ ابتدا میں تو مجھے لگا کہ بتانے والے کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کارکن لبرٹی چوک کی جانب جا رہے ہیں لیکن کالز نے اصرار کیا کہ وہ کینٹ کی جانب ہی جا رہے ہیں۔ جب بات کنفرم ہو ئی تو میں نے اسے جو جواب دیا وہ فوری طور پر تو نہیں لیکن بعد ازاں بالکل درست ثابت ہوا اور یقینا اس کا اطلاق آنے والے دنوں میں بھی ہو گا۔ میں نے جواب میں کہا تھا اگر جاتے ہیں تو جانے دو آگے تگڑے لو گ بیٹھے ہیں وہ ان لوگوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ پھر ہم نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا بھی کہ جو لوگ گلا پکڑنے پر آمادہ نظر آتے تھے انہوں نے پاوں پکڑ لیے اور چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔
اس وقت یہ عالم ہے کہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی دوسے زائد دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ قیادت کا ایک بڑا حصہ تو پہلے ہی پارٹی سے علیحد گی اختیار کر چکا ہے۔ بچی کھچی قیادت کا ایک حصہ پر امن پارلیمانی سیاست کے حق میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ سسٹم کے اندر موجود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور اگلے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے، جبکہ دوسرے مشورہ دیتے ہیں کہ پر تشدد احتجاج کا اہتمام کرکے زیادہ محاذ آرائی کا طریقہ اختیار کیا جائے اور یا تو جمہوریت کو ہی ڈی ریل کر دیا جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو شائد یہ دونوں حکمت عملیاں ہی پی ٹی آئی کے لیے مناسب نہیں۔پر امن سیاست اور بر وقت انتخابات سے پی ٹی آئی کو فتح کی ضمانت نہیں مل سکتی ہے، خاص طور پر ایک بکھری ہوئی پارٹی اور زیادہ متحد مخالفت کے ساتھ۔ دریں اثنا، محاذ آرائی کا نقطہ نظر اسے عوام کو مزید دور کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔
کسی تجزیہ کار نے پی ٹی آئی کی سیاست کے بارے میںبہت خوب خلاصہ کیا ہے اور میں بھی اس تجزیے سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ سیاسی عمل اور جدوجہد میں جو کام نہیں کرنے چاہیں یا اگر کرنے کی نوبت آ ہی جائے تو اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے پی ٹی آئی نے انہیں پہلی آپشن کے طور پر استعمال کر لیا ہے اور ان کی ناکامی کے بعد اب اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ملک کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے، ریاست کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے یا وفاق پر چڑھائی کرنے جیسی حرکتوں سے کسی بھی طور سیاسی ٹارگٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے، یہ لوگ اگر پر امن جلسہ، جلوس اور جدوجہد سے بات شروع کرتے اور اپنی تحریک میں صرف ہلڑ باز گروپ کو ہی نہیںسنجیدہ عناصر کو بھی شامل رکھتے تو آج نہ صرف ان کی جدوجہد اور تحریک کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتابلکہ اس وقت ان کے پاس کئی سیاسی آپشنز موجود ہوتے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی پی ٹی ا ئی کی جانب کے لیے ہے اور
پڑھیں:
مہنگائی میں کمی کے دعوے لیکن عوام ریلیف سے محروم
پاکستان میں مہنگائی کا بحران گزشتہ کئی سال سے عوام کےلیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے حالیہ دعوؤں کے باوجود کہ مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، عوام کی اکثریت کو اب بھی مہنگائی سے نجات نہیں ملی ہے۔ بلکہ، روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور متوسط اور غریب طبقے کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (PBS) کے مطابق، جون 2023 میں افراط زر کی شرح 29.4 فیصد تھی، جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اشیائے خوردنوش، پٹرولیم مصنوعات، اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کےلیے زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، گندم کی قیمت 2022 کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے، جبکہ چینی کی قیمت میں بھی 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مہنگائی کے باعث عوام کو روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایک عام گھرانے کےلیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ بے روزگاری اور کم آمدنی کے ساتھ، بہت سے خاندانوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے یا علاج معالجے کا خرچہ برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
متوسط طبقہ، جو کہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، مہنگائی کے باعث اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ بچوں کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے انہیں قرض لینا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف، غریب طبقہ تو بنیادی ضروریات جیسے کہ خوراک، رہائش، اور لباس کے لیے بھی ترس رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔ سبسڈیز میں کمی، ٹیکسوں میں اضافہ، اور کرنسی کی قدر میں کمی نے مہنگائی کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی اور بدانتظامی نے عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔
مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف کے لیے حل
سبسڈیز کا بہتر انتظام: حکومت کو ضروری اشیا جیسے کہ گندم، چینی، اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈیز کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
ٹیکس پالیسی میں اصلاحات: متوسط اور غریب طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کےلیے ٹیکس پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی: بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔
اشتہاری پالیسیوں کا نفاذ: حکومت کو چاہیے کہ وہ اشتہاری پالیسیوں کو موثر طریقے سے نافذ کرے تاکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔
غریب طبقے کےلیے مالی امداد: غریب طبقے کو مالی امداد فراہم کر کے ان کی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مہنگائی کا بحران پاکستان کے عوام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی مشکلات کو سمجھے اور ان کے لیے فوری ریلیف کے اقدامات کرے۔ مہنگائی میں کمی کےلیے موثر پالیسیاں بنانے اور انہیں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو اس بحران سے نجات مل سکے۔ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے، تو معاشی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔