Jasarat News:
2025-02-20@20:47:24 GMT

پاکستان کے حکمران ریاست کے نظریے کا دفاع کب کریں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پاکستان کے حکمران ریاست کے نظریے کا دفاع کب کریں گے؟

ایک زمانہ تھا کہ انسان کا خاندانی پس منظر اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا تھا۔ چنانچہ لوگ اپنے خاندانی پس منظر سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورت ہوگئی کہ کسی کے سید صدیقی، فاروقی اور علوی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملک کے معروف کالم نگار عطا الحق قاسمی کے والد گرامی تحریک ختم نبوت کے بیباک سپاہی تھے۔ عطا الحق قاسمی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اپنے والد کا تعارف اس طرح کرایا ہے۔

’’والد ماجد قیام پاکستان کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن حکمرانوں کے خلافِ اسلام اقدامات پر جمعہ کے خطبے میں اتنی کڑی تنقید کرتے کہ ان کے بہی خواہ انہیں نرم روی کا مشورہ دیتے۔ ایوب خان کے مارشل لا میں جب بڑے بڑے طوطی منقار زیر پر ہوگئے تھے والد ماجد وہ سب کچھ کھلے لفظوں میں کہتے جو کہنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا تو والد ماجد کو مسجد وزیر خان میں تقریر کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی اور دوسرے زعما بھی مسجد وزیر خان میں ان کے ہمراہ تھے۔ والد ماجد کو گرفتار کرنے کے بعد شاہی قلعے لے جایا گیا ان پر بغاوت، آتش زنی اور اسی نوع کے خدا جانے کیا کیا الزاما ت تھے ہمیں تین ماہ تک والد ماجد کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا کہ وہ کہاں ہیں زندہ ہیں یا انہیں مار دیا گیا ہے۔ تین ماہ بعد جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور سزا سنائی گئی تو ہمیں ان کی زندگی کی اطلاع ہوئی۔

شاہی قلعے میں والد ماجد کو ایک کرسی پر بٹھا کر ان کے سر پر ایک تیز بلب روشن کردیا جاتا تاکہ وہ ساری رات سو نہ سکیں جب والد ماجد کو اونگھ آتی تو ان کے پیچھے کھڑا سنگین بردار سپاہی سنگین کی نوک انہیں چبھوتا اور کہتا مولانا جاگتے رہیں، یہ لوگ والد ماجد سے مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلاف بیان لینا چاہتے تھے چنانچہ والد ماجد سے یہ بیان دینے کے لیے کہا گیا کہ انہوں نے تحریک میں حصہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے اُکسانے پر لیا تھا۔ والد ماجد نے اس کے جواب میں کہا مجھے شاہ صاحب نے کیا اُکسانا تھا، انہوں نے تو ختم نبوت کا درس خود میرے خاندان سے لیا ہے۔ والد ماجد نے یہ بات یوں کہی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمد حسن کی طرح میرے دادا مفتی غلام مصطفی قاسمی کے شاگرد خاص تھے اس پر ڈیوٹی پر متعین فوجی افسر نے جھنجھلا کر والد ماجد کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور کہا مولانا آپ اپنے گھر کا ایڈریس لکھوا دیجیے تاکہ آپ کی میت آپ کے ورثا کے سپرد کی جا سکے۔ اس پر والد ماجدکے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری جو طلوع صبح سے کم خوب صورت نہ تھی اور انہوں نے کہا آپ مجھے موت سے ڈراتے ہیں حالانکہ آپ میری زندگی کا ایک لمحہ بھی کم یا زیادہ نہیں کر سکتے۔ (روزنامہ جنگ 9 فروری 2025ء)

اس تناظر میں دیکھا جائے تو عطا الحق قاسمی کو بھی دین متین کا سپاہی اور پاکستان کے نظریے کا ترجمان ہونا چاہیے تھا مگر عطا الحق قاسمی کے والد کے محبوب رسول اللہ تھے اور عطا الحق قاسمی کا محبوب شریف خاندان ہے جو سر سے پائوں تک بدعنوانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دبائو پر رہا ہو کر سعودی عرب گئے تو عطا الحق قاسمی نے رکاکت کی انتہا کردی۔ انہوں نے فرمایا کہ میاں نواز شریف کو مدینے والے نے مدینے بلا لیا ہے۔ یاسر پیرزادہ عطا الحق قاسمی کے فرزند ہیں مگر ان کی شخصیت پر بھی ان کے دادا کا کوئی اثر نہیں۔ اس کے برعکس وہ اکثر اپنے کالموں میں گمراہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کے خلاف پرچم بلند کرتے رہتے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے حد ہی کردی ہے۔ انہوں نے پنجاب کے تھیٹروں میں ہونے والے فحش ناچ اور مغرب میں عورتوں کے ننگے جسم کی نمائش کے کلبوں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تو آدمی کی پسند ہے وہ مسجد جانا چاہے تو مسجد جائے، مندر جانا چاہے تو مندر جائے، شراب خانے جانا چاہے تو شراب خانے جائے۔ انہوں نے اصل میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’پنجاب کے تھیٹروں میں فحش ناچ ہوتا ہے اِس بات میں کوئی شک نہیں، لیکن دنیا میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور آزاد معاشروں میں ان کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ لوگ سٹرِپ ٹیز کلب بھی جاتے ہیں اور تھیٹر میں شیکسپیئر کا ڈراما دیکھنے بھی، دُنیا میں ٹرانس جینڈرز کے رقص کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور اسٹینڈ اَپ کامیڈی کے شو بھی کیے جاتے ہیں، جس کا جو مَن ہوتا ہے وہ وہاں چلا جاتا ہے۔ ’’مسجِد مَندِر یا میخانے، کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے‘‘۔ لیکن یہ حل پیش کرنے کی ہمت کسی میں نہیں لہٰذا آسان حل وہی کہ پابندی لگا دو۔ اِس پابندی کا جواز ضرور بنتا ہے مگر اس صورت میں اگر اِسی نوعیت کی پابندی اس طبقے پر بھی لگائی جائے جو روزانہ مِنبر سے کفر و اِلحاد کے فتوے جاری کرتا ہے۔ اسٹیج پر ناچنے والی عورتیں معاشرے کے سب سے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، شوگر مِل اور ٹیکسٹائل مِل مالکان کی طرح اِن بیچاریوں کے پاس نہ لابنگ کرنے کے پیسے ہیں اور نہ وسائل، جس دن اِن پر پابندی عائد ہو گی اْس دن یہ گھر بیٹھ جائیں گی اور ان چار پیسوں کی آمدن سے بھی محروم ہو جائیں گی جو انہیں تھیٹر سے آتے ہیں۔ ماں جیسی ریاست نے اِن عورتوں کو نہ پڑھایا لکھایا اور نہ انہیں بااختیار بنایا مگر اِن پر پابندی لگانے میں شیر ہے۔ البتہ وہاں ریاست کی گھِگھی بند جاتی ہے جہاں کوئی شخص، گروہ یا جماعت مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ریاست کو بلیک میل کرے اور پورے معاشرے کو ننگا کر دے، وہاں کسی کی جرأت نہیں ہو گی کہ ان پر پابندی تو دور کی بات مذمتی بیان ہی جاری کر دے۔

ہمارا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو دنیا نے اِس سے پہلے حل نہ کیا ہو۔ دنیا نے موٹرویز ہم سے پہلے بنائیں، دنیا میں صدیوں پرانے تہوار بھی منائے جاتے ہیں اور دنیا کے تھیٹروں میں اِس سے بھی زیادہ فحش ناچ ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہوتا ہے، مگر دنیا پابندی نہیں لگاتی بلکہ life liberty and pursuit of happiness کے اصول پر چلتی ہے۔ ہمیں جہاں کچھ سمجھ میں نہیں آتا وہاں پابندی کا کلہاڑا چلا دیتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اِس ملک میں اگر کسی بات پر پابندی ہونی چاہیے تو وہ دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر ہونی چاہیے، مگر کسی مائی کے لعل میں جرأت نہیں کہ یہ پابندی لگائے۔ لہٰذا جب تک ہم وہ جرأت نہ حاصل کر لیں تب تک اسٹیج ڈانسرز پر پابندی ہی ٹھیک ہے! (روزنامہ جنگ، 9 فروری 2025ء)

ریاستوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کسی ریاست نے آج تک اپنے نظریے پر حملے برداشت نہیں کیا۔ روس میں آنے والے سوشلسٹ انقلاب کے دو فکری رہنما تھے۔ لینن اور ٹروٹسکی۔ ٹروٹسکی لینن سے زیادہ پڑھا لکھا تھا مگر بہرحال سیاسی قیادت چونکہ لینن کے پاس تھی اس لیے روس میں اسی کا سکہ چل رہا تھا۔ ٹروٹسکی کو انقلاب کے ایک مرحلے پر محسوس ہوا کہ لینن سوشلزم کی غلط تشریح کررہا ہے تو اس نے لینن کو چیلنج کردیا۔ لینن کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ ٹروٹسکی کا دشمن بن گیا۔ چنانچہ ٹروٹسکی کو روس چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لینی پڑی مگر لینن نے ٹروٹسکی کے نظریاتی اختلاف کو فراموش کیا نہ ٹروٹسکی کو۔ اس نے روس کی خفیہ ایجنسی کو ٹروٹسکی کے پیچھے لگا دیا جس نے کچھ عرصے کے بعد ٹروٹسکی کو تلاش کرکے قتل کردیا۔

اس طرح لینن نے اپنے خیال میں سوشلسٹ انقلاب کے باغی کو اس کے انجام تک پہنچادیا۔ چین میں انقلاب ماوژے تنگ لائے تھے۔ ڈینگ ژیائو پنگ بھی چینی انقلاب کے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ انہیں بعض معاملات پر مائو کے ساتھ اختلاف ہوگیا۔ وہ سر سے پائوں تک سوشلسٹ تھے مگر مائو نے ان کے اختلاف کو تسلیم نہیں کیا۔ مائو نے ڈینگ ژیائو پنگ کو جیل میں ڈال دیا۔ جہاں سے وہ کافی عرصے کے بعد رہا ہوئے اور انہوں نے بعدازاں موجودہ جدید چین کی بنیاد رکھی۔ ڈینگ ژیائو ینگ نہ ہوتے تو چین بھی روس کی طرح ٹوٹ جاتا اور کبھی دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بن کر نہ اُبھرتا۔

بعض لوگوں کو گمان ہوسکتا ہے کہ کمیونسٹ ریاستیں آزادیٔ اظہار کی قائل نہیں تھیں اسی لیے ان میں حریفوں کے ساتھ سختی برتی جاتی تھی مگر امریکا تو لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ لبرل ڈیمو کریسی میں آزادیٔ اظہار کو ایک بڑی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود 1950ء کی دہائی میں امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی نے اس بات پر امریکا میں ہنگامہ برپا کردیا کہ امریکی انتظامیہ پر کمیونسٹ عناصر نے قبضہ کرلیا ہے اور وہ امریکا میں بھی سوشلسٹ انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس نے امریکی اہلکاروں سے امریکی نظام کے ساتھ وفاداری کے حلف کی راہ ہموار کی۔ سیکڑوں امریکی اہلکاروں کو یہ حلف لیا۔ بہت سے اہلکاروں کو کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہونے کے شبہ میں ان کے عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ جوزف میکارتھی کی یہ مہم جوئی امریکی تاریخ میں میکارتھی ازم کہلاتی ہے اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ایزرا پائونڈ امریکا کا ’’شاعر ِ اعظم‘‘ اور ’’نقادِ اعظم‘‘ تھا۔ وہ نوبل انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ کا استاد تھا۔ وہ اٹلی گیا تو اٹلی کے ریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے اس نے اٹلی کے رہنما مسولینی کے نظریات کے لیے پسندیدگی کا اظہار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا کے خفیہ ادارے ایزرا پائونڈ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے استاد کی زندگی کو خطرے میں دیکھا تو کئی اور دانشوروں کے ساتھ مل کر اس نے ایزرا پائونڈ کو پاگل خانے یا نفسیاتی اسپتال میں داخل کراکے اس کی جان بچائی۔ یہ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ امریکا کی ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ نے ایک بیان میں کہہ دیا کہ امریکا کی بنیاد ریڈ انڈیزن کی نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ سوسن سونٹیگ نے امریکا کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا تھا۔ وہ روس یا چین کی ایجنٹ نہیں تھی مگر امریکا میں ہر طرف غدار، غدار کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ 1990ء کی دہائی میں اسرائیلی فضائیہ کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ پائلٹس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ فلسطینیوں کو مارتے مارتے تھک گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں جاتے ہیں اور بمباری کرکے آرام سے واپس آجاتے ہیں۔ فلسطینی اس کے جواب میں کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ آئندہ وہ اپنے طیاروں سے فلسطینیوں پر حملے نہیں کریں گے۔ اس بیان کے سامنے آتے ہی اسرائیل نے ضمیر کے ان تمام قیدیوں کو ان کی ملازمت سے برطرف کردیا۔ گاندھی کو پورا ہندوستان ’’باپو‘‘ یعنی باپ کہتا تھا۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے واحد رہنما تھے۔ ان کی پوری زندگی ہندوستان اور ہندوئوں کے لیے وقف تھی اس کے باوجود جب ہندوستان نے پاکستان کے حصے کے 70 کروڑ روپے روک لیے تو گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ اسے آر ایس ایس جیسی کٹر ہندو تنظیم نے غداری کے مترادف سمجھا اور آر ایس ایس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

پاکستان کا معاملہ اس عالمی تاریخ کے بالکل برعکس یہ ہے کہ خود پاکستان کے جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاست دان پاکستان کے نظریے پر کلہاڑا چلاتے رہتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن جنرل ایوب دس سال تک پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کرتے رہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر بھٹو صاحب پاکستان کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے تابع کرنے کے خواب دیکھتے رہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر جنرل پرویز مشرف 9 سال تک پاکستان کو لبرل بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات کا حال بھی مختلف نہیں۔ وہ 75 سال سے قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یاسر پیرزادہ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان مغرب کی آزادی کو ’’آئیڈیلائز‘‘ کیا ہے اور کہا ہے کہ اصولی طور پر انسان کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ مسجد جانا چاہے تو مسجد چلا جائے، پنجاب کے تھیٹروں میں فحش رقص دیکھنا چاہے تو وہ دیکھ لے اور اسٹرٹیسز کلب میں ننگی عورتوں کے جسم ملاحظہ کرنا چاہے تو وہ کرلے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں جنرل عاصم منیر پر درست تنقید کی ہوتی تو بھی وہ پیکا ایکٹ کے تحت اب تک جیل میں ہوتے مگر چونکہ انہوں نے اسلام کے اخلاقی تصورات پر حملہ کیا ہے اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی جنرل، کوئی خفیہ ادارہ اور کوئی حکومت ان سے نہیں پوچھے گی کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عطا الحق قاسمی والد ماجد کو جاتے ہیں اور ٹروٹسکی کو پاکستان کے پر پابندی انقلاب کے انہوں نے اسلام کے قاسمی کے کے ساتھ کرنے کے ہوتا ہے نے اپنے نے ایک سے بھی کے بعد اور ان ہے اور

پڑھیں:

حکومت میں آ کر 26ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں گے ،عمر ایوب

حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں
رولز آف لاء پاکستان میں نہیں ہے ، لوگ زمینیں بیچ کر ملک چھوڑ رہے ہیں، پشاور میںگفتگو

اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت میں آ کر 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں گے ۔پشاور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ورکرز اور رہنماؤں پر بے شمار جعلی کیسز درج کئے گئے ہیں، حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد نے بھی عدلیہ سے بات کی ہے ، رولز آف لاء پاکستان میں نہیں ہے ، لوگ زمین فروخت کر کے ملک چھوڑ رہے ہیں، نوجوان لاکھوں روپے دے کر بیرون ملک جا رہے ہیں، پاکستان میں قوت خرید کم ہو رہی ہے ۔رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ کل اسمبلی میں ووٹ کاسٹ کے عمل کو روکا گیا، پاکستان میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئی ہیں، رمضان کے بعد ایک بھرپور مہم چلائیں گے ، 26 ویں آئینی ترمیم کو جب حکومت آئے گی تو ختم کریں گے ۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست اور اداروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا، علی امین گنڈاپور
  • نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا: علی امین گنڈا پور کا ریاست اور اداروں کو پیغام
  • امریکی وزیر دفاع نے فوج کے اخراجات میں آٹھ ف صد تک کمی کے لیے تجاویزطلب کرلیں
  • ریاست کو عارف علوی کیخلاف کارروائی،مراعات واپس لینے کا حق ہے،رانا ثنا اللہ
  • حکمران عوام کو صحت وتعلیم کی سہولیات فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوگئے
  • حکومت میں آ کر 26ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں گے ،عمر ایوب
  • ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
  • حکومت میں آ کر 26ویں آئینی ترمیم ختم کریں گے،عمرایوب
  • پاکستان کا او آئی سی پر فلسطینی ریاست کیلئے سعودی اقدام کی حمایت پر زور
  • ہرصورت ایٹمی پروگرام کا دفاع کرینگے‘ایران کی امریکا اور اسرائیل کو سخت وارننگ