Jasarat News:
2025-02-20@20:46:03 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

وہ بنگالی نیشنلسٹ جو بنگلادیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانا گیا جس نے مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے لڑائی میں حصہ لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری سال پاکستان میں گزارے ہے نا حیرت کی بات!! اپریل 1971ء میں وہ پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر تھا۔ پھر وہ باغی ہو کر انڈیا کی مدد سے بننے والی مکتی باہنی سے جا ملا۔ وہ تھے میجر عبدالجلیل جو 1985ء کے نصف میں پاکستان آگئے اور پھر آخری دم تک پاکستان ہی میں رہے۔

اپریل 1971ء میں ایک اور باغی میجر ضیا الرحمن نے پہلی بار بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ عبدالجلیل نے بھی بریسال پر قبضے کے بعد بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے ایک قاصد سے پاکستانی پرچم اُتار کر بنگلادیش کا پرچم لہرانے کا حکم دیا۔ یہ بنگالی تھا اس نے چوبیس برس تک پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی ادا کی تھی اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میجر عبدالجلیل نے بے رحمی سے اس کو پھانسی دے دی۔

باریسال میں باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی بائیسویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس مشن میں کیپٹن آفتاب نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ وہی میجر آفتاب ہیں جن کی کتاب ’’آخری سلام‘‘ مشرقی پاکستان کے میدان سے ’’2018ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں اس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کے نام؛ جن کی کوکھ نظریے اور تاریخ شہدا اور غازی، ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے۔ تم اور ہم 1971ء کے المیے، اس جنگ و جدل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہوسکتے تھے، کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلام محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرار داد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی! میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو جز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اور جیسور کی بارکوں میں جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔

سچ ہے کہ خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ’’وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ جو انہوں نے خاک سے جا ملنے سے قبل ہی کئی حوالوں سے نامہ اعمال کو نئی منزلوں کے نئے راہی نئی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ سبق حاصل کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہی میجر آفتاب اپنی ایک اور کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’وہ چھے ماہ تک باریسال سے نکلنے کے بعد سندر بن کے جنگلات میں کیمپ بنا کر چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے اور مکتی باہنی کے رضا کاروں کو تربیت دیتے رہے‘‘۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ واحد کمانڈر تھے جو بنگلادیشی حکمرانوں اور مکتی باہنی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بنگلادیش کی آزادی کے بعد ان چند افسران میں شامل تھے جنہوں نے انڈین افواج کی بنگلادیش میں لوٹ مار پر احتجاج کیا اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا۔ بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ ’’بیراتم‘‘ سجایا لیکن انہوں نے کرنل شریف دالم کی طرح ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں ہو کر اسے واپس کردیا۔

انڈین مداخلت اور بنگلادیش کی خودمختاری پر حاوی ہوتے اشاروں کے ردعمل کے طور پر انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اپنی جماعت بنائی، الیکشن میں 1973ء میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہوئی۔ دو دفعہ کئی سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے، رہا ہوئے تو پھر 1981ء میں پھر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہوئے، دل برداشتہ ہوئے اور سابقہ وطن واپس لوٹ آئے، جہاں گم نامی کی زندگی گزار کر نومبر 1989ء میں انتقال کرگئے۔ ان سے قریبی لوگ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضا کار اور پاکستان کے حامی بہاری لوگ شامل تھے ان پر تشدد اور بے رحمی سے قتل پر انتہائی کرب میں مبتلا تھے۔

ہائے اس زود پشیمانی کا پشیماں ہونا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میجر عبدالجلیل مکتی باہنی کے انہوں نے حصہ لیا کے بعد

پڑھیں:

بنگلادیش واپس آکر بدلہ لوں گی‘ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو دھمکی

ڈھاکا (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بنگلا دیش واپس آنے اور مارے گئے پولیس اہلکاروں کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے ایک وڈیو کال میں ان پولیس افسران کی بیواؤں سے بات کرتے ہوئے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کو “مافیا سرغنہ” قرار دیا اور کہا کہ وہ جلد واپس آ کر انصاف دلائیں گی۔شیخ حسینہ نے الزام لگایا کہ عبوری حکومت نے”دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ” دے رکھی ہے، جو بنگلا دیش میں تباہی پھیلا رہے ہیں‘ ’’یہ سب کچھ مجھے اقتدار سے ہٹانے کی سازش کے تحت کیا گیا مگر میں زندہ بچ گئی اور خدا نے مجھے موقع دیا کہ میں انصاف دلا سکوں۔ میں ضرور واپس آؤں گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گی۔”یہ پولیس اہلکار 2024ء میں ہونے والے طلبہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ یہ احتجاج ابتدا میں متنازع کوٹا سسٹم کے خلاف شروع ہوا لیکن بعد میں شیخ حسینہ کی برطرفی کا مطالبہ زور پکڑ گیا، جس کے بعد انہیں 5 اگست 2024ء کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی ہماری اولین ترجیح ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیمپئنز ٹرافی:بنگلادیش کو بھارت کے ہاتھوں 6 وکٹوں سے شکست
  • چیمپئنز ٹرافی: شبمن گل کی سنچری، بھارت نے بنگلادیش کو 6 وکٹوں سے ہرا دیا
  • چیمپئنز ٹرافی: بھارت نے بنگلادیش کو 6 وکٹوں سے ہرادیا
  • بھارت اور بنگلادیش میچ میں چیمپئنز ٹرافی لوگو پر پاکستان کا نام نہ ہونے پر آئی سی سی نے غلطی تسلیم کرلی
  • چیمپئنز ٹرافی: بنگلادیش کا بھارت کو جیت کے لیے 229 رنز کا ہدف
  • چیمپئنز ٹرافی: بنگلادیش کا بھارت کیخلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • بنگلادیش واپس آکر بدلہ لوں گی‘ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو دھمکی
  • بنگلادیش واپس آکر بدلہ لوں گی، شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو دھمکی
  • خیبر پختونخوا حکومت نے ٹی ٹی پی کے چار کمانڈرز کے سروں کی قیمت مقرر کر دی
  • بنیادی ایوی ایشن سیکیورٹی کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ، کور کمانڈر کراچی مہمان خصوصی