Jasarat News:
2025-02-20@20:34:24 GMT

پرویز مشرف کو کس نے للکارا تھا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پرویز مشرف کو کس نے للکارا تھا

اللہ مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین پر اپنی رحمتیں کرے۔ آمین۔ قاضی حسین احمد، محترم سید منور حسن اور قائد حریت سید علی گیلانی تین بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کا کسی کا خوف نہیں تھا۔ اپنی جہدو جہد کے بارے میں بالکل واضح تھے اور شفاف بیانیے کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی۔ استعمار کے خلاف اور دنیا کے بتوں اور طاغوتی قوتوں کے لیے یہ تینوں شیر کی دھاڑ تھے، چیتے سے زیادہ حوصلہ رکھتے تھے۔ اتفاق بھی ایسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بزرگوں سے سیکھنے کا موقع دیا ان میں دو بزرگوں کی محفلوں میں بیٹھنے کا بے شمار مرتبہ موقع ملا۔ سید منور حسن جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے ان سے ملاقات ہوتی تو کندھے پر شفقت کے ساتھ ہاتھ رکھتے اور کہتے کچھ زیادہ ہی ’’موٹے‘‘ نہیں ہوگئے۔ میں کچھ لمحے خاموش رہتا، وہ مسکراتے رہتے، ایک بار ہمت کی اور کہا کہ ایک اکیلا دو گیارہ، قبلہ سید محترم مسکرائے یہ لمحہ اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات آج بھی یاد ہیں۔ قبلہ سید کی کل پھر یاد آئی۔ پورے پاکستان میں واحد ایک شخصیت تھے جنہوں نے مشرف کو صاف صاف الفاظ میں للکارا کہ کیا کر رہے ہو؟ اور کیوں کر رہے ہو؟ ان کی یاد اس لیے آئی کہ جناب میاں اسلم کی رہائش گاہ پر قبائل امن جرگہ ہوا، محترم جناب حافظ نعیم الرحمن بھی شریک ہوئے۔ جرگہ میں سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ نے تجویز دی کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین باجوڑ آئیں یا مالاکنڈ تشریف لائیں اور وہاں عمائدین سے ملاقات کریں اور عام لوگوں کے حالات معلوم کریں کہ وہ کس طرح انجانے خوف میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ تجویز دی تو بہت سے لوگوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ ’’وہاں جائے گا کون اور واپس آنے کی ضمانت کون دے گا؟‘‘

حافظ نعیم الرحمن، جناب قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سید علی گیلانی کی جدوجہد کے بھی جانشین ہیں۔ حاضرین سے مخاطب ہوئے تو کہا کہ کوئی جائے نہ جائے میں وہاں جائوں گا اور براہ راست حالات معلوم کروں گا۔ زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ حافظ صاحب کی اس یقین دھانی نے سب کو حوصلہ دیا اور میں تو ماضی میں کھو گیا کہ جب سید منور حسن نے مشرف کو للکارا تھا۔ کشمیر میں سید علی گیلانی نے ان کے چار نکاتی فارمولے کے پرزے پرزے کر دیے تھے اصل میں ایسی ہی جرأت مند قیادت فیصلے لینے اور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک بچانے کے لیے ایسے ہی لوگ اور ایسی ہی قیادت چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کن الفاظ میں حوصلہ دیا زرا سنیے۔ خیبر پختون خوا میں آئی ڈی پیز کے مزید تجربات کر کے آگ سے نہ کھیلا جائے، فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہو گا، دہشت گردی کی وجوہات تلاش کر کے انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ہر صورت امن چاہیے، ہمیں نہیں دیا گیا تو کم از کم آنے والی نسلوں کو پرامن اور مستحکم پاکستان دینا ہو گا، یہ ملک ہمارا ہے ہمیں یہیں رہنا ہے، سب باہر نہیں جا سکتے، پاکستان افغانستان کو لڑانا امریکی ایجنڈا ہے، افغانستان سے بامعنی مذاکرات کیے جائیں، دونوں ملک ایک دوسرے کی خودمختاری، آزادی اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مذاکرات کریں، افغان سرزمین پاکستان میں بدامنی کے لیے کسی صورت استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغان حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردی کو روکے۔ علاقائی سلامتی اور امن کے لیے چین، ایران، روس سے بھی بات کی جائے، امریکی مفادات کے لیے پراکسی کا کردار قوم کو قبول نہیں، حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ قیام امن کے لیے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے، ملک اور عوام کی خاطر بدترین سیاسی مخالف کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار ہیں، ملک و قوم کا تحفظ ذاتی اور پارٹی مقاصد سے بالاتر ہے۔

پاکستان پوری امت اور دنیا بھر کے مظلوموں کی امیدوں کا مرکز تھا، بدقسمتی سے ملک پر مسلط حکمران طبقہ نے یہ امیدیں ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ آج ہم خود امن کی بھیک مانگ رہے ہیں، عوامی حمایت کے بغیر حکومتیں مسلط ہوں گی تو امن قائم ہو گا اور نہ قوم یکجا ہو سکتی ہے، پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی امریکی جنگ میں شمولیت کا نتیجہ ہے، پرویز مشرف کے دور میں سب کچھ امریکا کے حوالے کر دیا گیا، فیصلہ چند لوگوں نے کیا، نتائج 25 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔

قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں فوج کی ضرورت نہیں، قبائلیوں نے کشمیر کے حصے کو آزاد کرایا، قبائلی علاقوں میں مثالی امن قائم تھا، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں شمولیت کے اعلان سے لے کر آج تک وہاں امن قائم نہ ہو سکا، اسی جنگ میں جانے سے پاکستان اور افغانستان میں اعتماد کا بحران پیدا ہوا، خطے میں افراتفری پھیلی، فائدہ بھارتی ایجنسی را سمیت پاکستان اور اسلام مخالف قوتوں نے اٹھایا۔ جماعت اسلامی بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ فوجی آپریشنوں سے امن قائم ہو گا اور نہ ہی یہ مسائل کا مستقل حل ہے، عوام کو سہولتیں دی جائیں، نوجوانوں کو روزگار ملے، جماعت اسلامی کی ماضی کی قیادت نے بھی فوجی آپریشنوں کی مخالفت کی، ان کے پیچھے چند نادان سیاست دانوں کو لگا دیا گیا، کہا گیا کہ جماعت اسلامی خدانخواستہ پاکستان مخالف ہے، واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کو کسی سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، ہم نے ملک کی خاطر قربانیاں دیں، خون بہایا ہے، جماعت اسلامی امن کے لیے جتنا ممکن ہوا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، چاہتے ہیں حکومت اور ریاستی ادارے خیبر پختون خوا، بلوچستان سمیت پورے ملک میں امن کے قیام کے لیے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں، حکومت یہ قدم نہیں اٹھاتی تو جماعت اسلامی اپنے تئیں کوششیں جاری رکھے گی، ہم عوام کو بھی موبلائز کریں گے اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے‘‘ یہ الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ ایک جدوجہد کا نشان ہیں‘ اور عزم کی مکمل داستان ہیں قبائلی عوام امن کے لیے اب حافظ نعیم الرحمن کی راہ دیکھ رہے ہیں اور یہ ان کے لیے محمد بن قاسم بن کر وہاں جائیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی امن کے لیے کے ساتھ رہے ہیں

پڑھیں:

ٹرمپ، عمران خان کی رہائی کی کال کب دیں گے؟

اسلام ٹائمز: ہمیں جمہوریت کے لیے جنگ خود لڑنی ہے۔ تاہم یہ احساس کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، نے بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں کو انتہائی حدود تک جانے کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔ یقیناً بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن قصور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کا بھی ہے جس نے حالات ہی اس طرح کے پیدا کردیے کہ عوام کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی نے پاکستان کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ تحریر: زاہد حسین

ڈونلڈ ٹرمپ کی جس کال کا بےصبری سے انتظار کیا جارہا ہے وہ ابھی دی نہیں گئی ہے یا شاید وہ کال کبھی دی بھی نہیں جائے گی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ امریکی قانون سازوں کی جانب سے پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔ حالیہ ہفتوں میں کچھ پاکستانی-امریکی گروپس، سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے ساتھ روابط میں تیزی لے کر آئے ہیں اور انہوں نے زور ڈالا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کریں۔ دورہِ امریکا کے دوران سابق صدر مملکت عارف علوی بھی اس مہم کا حصہ بنے جہاں کپیٹل ہل میں انہوں نے ایک اجلاس منعقد کیا۔ خبریں سامنے آئیں کہ انہوں نے درجن سے زائد امریکی قانون سازوں کو پاکستان کی سیاسی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی۔

گمان ہوتا ہے کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں کیونکہ چند کانگریس اراکین نے بیانات جاری کرکے پاکستانی حکومت سے سابق وزیراعظم کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس رکن جو ولسن جوکہ متعدد مواقع پر پی ٹی آئی لیڈر کی رہائی کا مظالبہ کرچکے ہیں، نے اس سلسلے میں اسٹیٹ سیکریٹری سے ملاقات کی لیکن اب تک ایسی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس سے یہ اشارہ ملے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھائے گی۔ یقیناً انسانی حقوق اور جمہوریت کا تحفظ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خارجہ پالیسی میں ترجیح نہیں جوکہ امریکی حمایت کے بدلے امریکا کے لیے کچھ کرنے کی ٹرمپ سوچ کی تابع ہے یا پی ٹی آئی نے شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان کے لیے پسندیدگی کو غلط پیرایے میں لے لیا ہے۔ جو بھی ہو چند امریکی کانگریس اراکین کی جانب سے بیانات نے پاکستانی حکومت کو پریشان کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کی کوششوں پر جوابی اقدامات لیتے ہوئے وزیر داخلہ عجلت میں دورہِ واشنگٹن پر پہنچے۔ رپورٹس کے مطابق امریکی قانون سازوں سے اپنی ملاقات میں انہوں نے حکومت کا پالیسی ایجنڈا ان کے سامنے رکھا۔ دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے بھی کپیٹل ہل میں اجلاس منعقد کیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اندرونی سیاسی جنگ کا دائرہ امریکا تک پھیل چکا ہے جبکہ امریکا میں موجود پاکستانی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی جانب سے متحرک کردار ادا کرنے اور امریکی حمایت کے حصول کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ان کی کوششوں میں واضح طور پر تیزی آئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اس لیے کی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ عمران خان کی اقتدار سے برطرفی میں جو بائیڈن انتظامیہ کے مبینہ کردار کے پی ٹی آئی الزامات کو بہتر انداز میں سمجھیں گے۔

نام نہاد سائفر جس میں پاکستانی سفیر اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینیئر اہلکار ڈونلڈ لو کے درمیان تفصیلی گفتگو تھی، عمران خان عوامی حمایت سمیٹنے کے لیے اس سائفر کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی حکومت جانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا تھا، ’ہم کوئی غلام ہیں؟‘۔ ان پاپولسٹ نعروں نے عوام میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا دی اور اس سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس مؤقف کی وجہ وہ ایک ایسے قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے بیرونی دراندازی کے خلاف مزاحمت کی۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی برطرف حکومت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ تمام منصوبہ بندی بائیڈن انتظامیہ کی تھی جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں نے اس مؤقف پر یقین کیا۔

امریکا میں مقیم پاکستانی شہریوں میں عمران خان بہت طویل عرصے سے انتہائی مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنایا بلکہ لوگ ان کے فلاحی کاموں کے بھی معترف ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا مرکزی دھارے کی دو بڑی جماعتوں پر بڑھتا عدم اعتماد تھا جو دہائیوں سے اقتدار پر براجمان ہیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہوسکتی ہے جس کی بنا پر ماضی میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ایک نمایاں حصے نے آمرانہ حکومتوں کی حمایت کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی روایتی حمایت اس وقت ختم ہوگئی جب عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی حلقوں میں بڑے پیمانے پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں غیرسیاسی قوتیں ملوث تھیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اقتدار دیا۔

اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات بڑھتے گئے جن کی جھلک بیرونِ ملک مقیم پاکستان کے تعلیم یافتہ پیشہ ور اور تعلیم یافتہ طبقے میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ موسمِ گرما میں امریکا اور کینیڈا کے دورے کے دوران میں نے جب پاکستانیوں سے گفتگو کی تو مجھے یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس ہوئی۔ عوام میں جو عدم اعتماد آج پایا جاتا ہے، ہمیں ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے مہم میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کے لیے وہ واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے سے بھی دریخ نہیں کررہے جنہیں وہ ماضی میں عمران خان کے دشمن قرار دیتے تھے۔ بہت سے بااثر پاکستانی نژاد امریکی شہری عمران خان کی رہائی کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد پاکستانی امریکیوں کی سیاسی سرگرمیوں کی کمیٹی میں شامل ہیں جسے پاک پیک کہا جارہا ہے۔

اس کمیٹی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی بدتر ہوتی صورت حال اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن پر کانگریس اور سینیٹ اراکین سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں وہ گروپ جو اپنے آپ کو غیرجانبدار کہتا تھا، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے سب سے طاقتور اور بااثر گروہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں کپیٹل ہل میں کئی میٹنگز کا انعقاد کیا ہے اور چند کانگریس اراکین کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے نے انہیں کسی حد تک کامیابی بھی دلوائی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی متزلزل معاشی صورت حال اور ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کو بھی امریکی قانون سازوں کے سامنے اٹھایا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، ملک میں رائج آمرانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف جتنی مضبوط لابنگ کررہے ہیں، اتنی مضبوط لابنگ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی لیکن وہ اب تک ٹرمپ انتظامیہ سے کسی طرح کا ردعمل حاصل نہیں کرپائے ہیں۔

شاید کوئی ردعمل آئے بھی نہیں کیونکہ چند تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ واشنگٹن، پاکستان پالیسی میں امریکا اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ترجیح دے گا جبکہ اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے کوئی خدشات نہیں ہوں گے۔ ملکی اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو دعوت دینا پاکستان کے مفادات کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ امریکا پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے بالخصوص آمرانہ حکومتوں میں۔ ہمیں جمہوریت کے لیے جنگ خود لڑنی ہے۔ تاہم یہ احساس کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، نے بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں کو انتہائی حدود تک جانے کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔ یقیناً بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن قصور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کا بھی ہے جس نے حالات ہی اس طرح کے پیدا کردیے کہ عوام کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی نے پاکستان کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1892944/waiting-for-trumps-call

متعلقہ مضامین

  • پرویز خٹک نے نئی پارٹی چن لی
  • سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا جے یو آئی میں شمولیت کا فیصلہ
  • پرویز خٹک کا جے یو آئی میں شمولیت کا فیصلہ
  • پی ٹی آئی کو آرمی چیف کا دورہ برطانیہ ہضم نہیں ہو رہا، عطا تارڑ
  • پاکستانی خارجہ پالیسی کو ’’ست‘‘ سلام
  • ٹرمپ، عمران خان کی رہائی کی کال کب دیں گے؟
  • نیب متحرک ،، مفرور ملک ریاض ، علی ریاض اور پرویز الہی کے خلاف نیب رینفرنسز دائر ،، کون کونسے پراجیکٹس اور کتنے ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر ہوا، تفیلات سب نیوزپر
  • چھوٹے بھائی سے اختلافات ختم کرنے جارہا ہوں، مولانا کو اعتماد میں لے لیا، پرویز خٹک
  • پرویز الہٰی کیخلاف پنجاب اسمبلی میں بھرتیوں کا کیس، سماعت بغیر کارروائی ملتوی
  • کسی سے بیک ڈور ملاقاتیں نہیں ہو رہیں: عمر ایوب