پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے سولر انرجی کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی گئی تھی، لیکن اس مثبت اقدام کو بھی بدعنوان عناصر نے کرپشن کا ذریعہ بنا لیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں سولر پینلز کی درآمد میں منی لانڈرنگ، اوور انوائسنگ، اور جعلی کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ معاملہ محض مالی بدعنوانی کا نہیں، بلکہ اس سے پاکستان کے بینکاری نظام، تجارتی پالیسیوں، اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایف بی آر کی بریفنگ کے مطابق 80 میں سے 63 کمپنیاں اوور انوائسنگ میں ملوث نکلیں، اور صرف ایک ڈمی کمپنی نے ہی 2.
29 ارب روپے کی سولر مصنوعات درآمد کیں، جبکہ 2.58 ارب روپے کی فروخت ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، 117 ارب روپے کی رقم بیرون ملک بھیجی گئی، جس میں سے 54 ارب روپے کی اوور انوائسنگ پکڑی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں چین کے بجائے 10 دیگر ممالک کو کی گئیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کا معاملہ بھی ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیسے ایک کمزور مالی حیثیت رکھنے والی کمپنی اتنی بڑی ٹرانزیکشنز کرنے میں کامیاب ہوئی؟ بینکوں کا بنیادی کردار ایسی مشکوک
مالیاتی سرگرمیوں کو روکنا ہے، لیکن اس کیس میں کئی بینکوں نے اس عمل کو نظر انداز کیا۔ کئی نجی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے اس معاملے میں ملوث نظر آتے ہیں، جنہوں نے ان کمپنیوں کے ساتھ بڑی ٹرانزیکشنز کیں۔ اسٹیٹ بینک، جو ملک کے مالیاتی نظام کا نگران ہے، اس حوالے سے تاخیر کا شکار رہا۔ بینکوں پر محض 20 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنا ایک معمولی کارروائی ہے، جبکہ معاملہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ہے۔ اگر 2019 میں ہی ایس ٹی آر رپورٹس ایف بی آر اور ایف آئی اے کو فراہم کی جاچکی تھیں، تو پھر کارروائی میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد کو ڈیوٹی فری رکھا تاکہ عوام کو سستی توانائی فراہم کی جا سکے، لیکن بدعنوان افراد نے اس پالیسی کو غیر قانونی دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے کسی بھی قسم کی نگرانی کا مؤثر نظام نافذ کیا؟ اگر سولر کی قیمت 2018 سے 2023 کے دوران 0.08 سے 0.16 امریکی سینٹ فی واٹ رہی، تو پھر اس قدر زیادہ قیمت پر درآمدات کیوں ہوئیں؟ یہ کیس اس بات کی علامت ہے کہ مالیاتی نگرانی کے ادارے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، اور دیگر متعلقہ محکمے اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات جن کے جوابات ضروری ہیں: جعلی کمپنیوں کو رجسٹر کرنے میں ایس ای سی پی کا کردار کیا رہا؟ جب اتنی بڑی رقوم بینکوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئیں، تو کیا اسٹیٹ بینک نے اپنی نگرانی کی ذمے داری ادا کی؟ کیا ایف آئی اے نے اس معاملے پر کوئی سنجیدہ تحقیقات کیں؟ یہ ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے فوری طور پر جامع تحقیقات کریں، ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں، اور آئندہ کے لیے ایسی مالی بدعنوانی کو روکنے کے مؤثر اقدامات کریں۔ بصورت دیگر پاکستان کی معیشت مزید کمزور ہوگی اور عوام کا مالیاتی نظام پر اعتماد ختم ہوتا چلا جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ:
ارب روپے کی
پڑھیں:
سندھ میں 5 لاکھ سولر سسٹم دینے کی اسکیم رواں سال شروع ہوگی، ناصر حسین شاہ
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر توانائی نے کہا کہ جہاں بجلی نہیں پہنچی وہاں سولر فراہم کیے جائیں گے، سولر پارک کیلئے کوشش کریں گے کہ مقامی لوگوں کو یہاں روزگار دیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبہ سندھ میں پانچ لاکھ سولر سسٹم دینے کی اسکیم کے حوالے سے صوبائی وزیر توانائی نے اعلان کر دیا۔ کراچی کے عبداللہ رند گوٹھ منگھوپیر ٹاؤن میں بجلی فراہمی کی افتتاحی تقریب میں وزیر توانائی سندھ سید ناصر حسین شاہ نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا وژن ہے کہ ہر ایک کو بجلی دی جائے، 2 لاکھ سولر سسٹم کی تقسیم شروع ہو چکی ہے اور 5 لاکھ سولر سسٹم دینے کی اسکیم رواں سال شروع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بجلی نہیں پہنچی وہاں سولر فراہم کیے جائیں گے، سولر پارک کیلئے کوشش کریں گے کہ مقامی لوگوں کو یہاں روزگار دیں، یہاں کے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تربیت دی جائے گی، تاکہ روزگار کے مواقع ملیں، سستی بجلی سے کراچی کے شہریوں کو فائدہ ہوگا۔