ریاض میں جموں کشمیر اوور سیز فورم کا اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
۔سعودی دارالحکومت ریاض میں جموں کشمیر اوور سیز فورم کا اجلاس سرپرست اعلی سردار سلیم خان افتاب کی صدارت میں ھوا۔ اجلاس میں سردارسلیم افتاب، پروفیسر ساجد ، افتخار عباسی، محمد رشید خان۔ انجنئیرمحمد شفیق، توفیق افتاب، محمد فیضان، محمد رئیس نواز، عامرعباسی، محمد شہزاد، زعیم اسد خان نے شرکت کی۔ اجلاس میں تحریک ازادی کشمیر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور پانچ فروری کی ہمیت اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس دن کو منانے کا تجدید عہد کیا گیا۔ شرکاء اجلاس نے کشمیر کی مکمل ازادی تک جہدو جہد جاری رکھنے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ اخر میں شہداء تحریک ازادی کشمیر کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے کتابوں کی درجنوں دکانوں پر چھاپے مارتے ہوئے ایک اسلامی اسکالر کی کتابوں کی سینکڑوں کاپیاں قبضے میں لے لیں، جس پر مسلم رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ یہ تلاشیاں ''ایک کالعدم تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم کے حوالے سے معتبر انٹیلی جنس معلومات‘‘ پر مبنی تھیں۔
افسران نے مصنف کا نام نہیں بتایا لیکن اسٹور مالکان نے کہا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی کا لٹریچر ضبط کیا۔ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم ہے اور یہ دونوں ممالک اس ہمالیائی علاقے کی مکمل ملکیت کے دعویدار ہیں۔
(جاری ہے)
کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والے باغی گروپ کئی دہائیوں سے بھارتی افواج سے لڑ رہے ہیں جبکہ اس تنازع میں دسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے سن 2019 میں جماعت اسلامی کی کشمیر شاخ کو ''غیر قانونی انجمن‘‘کے طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ نئی دہلی نے گزشتہ سال اس پابندی کی تجدید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ''قوم کی سلامتی، سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے اٹھایا گیا تھا۔سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے ہفتہ کو مرکزی شہر سری نگر میں چھاپے مارنے شروع کیے، اس سے پہلے کہ مسلم اکثریتی علاقے کے دیگر قصبوں میں کتابیں ضبط کی جائیں۔
سری نگر میں ایک بک شاپ کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا،''پولیس والے آئے اور ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف کردہ کتابوں کی تمام کاپیاں یہ کہہ کر لے گئے کہ ان پر پابندی ہے۔‘‘ پولیس نے ایک بیان میں کہا،''یہ کتابیں قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی ہوئی پائی گئیں اور ایسے مواد کے قبضے میں پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘پولیس کا مزید کہنا تھا کہ یہ تلاشیاں ''جماعت اسلامی سے منسلک ممنوعہ لٹریچر کی گردش کو روکنے کے لیے کی گئیں۔‘‘ چھاپوں سے جماعت اسلامی کے حامیوں میں غصہ پھیل گیا۔ ایک کشمیری شمیم احمد ٹھاکر نے کہا کہ ضبط شدہ کتابیں اچھی اخلاقی اقدار اور ذمہ دار شہریت کو فروغ دیتی ہیں۔
کشمیر کے مرکزی عالم دین اور حق خودارادیت کی وکالت کرنے والے ممتاز رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔
فاروق نے ایک بیان میں کہا، ''اسلامی لٹریچر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا اور انہیں کتابوں کی دکانوں سے ضبط کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ یہ لٹریچر آن لائن دستیاب تھا۔انہوں نے مزید کہا، '' ورچوئل ہائی ویز پر تمام معلومات تک رسائی کے دور میں کتابوں کو ضبط کر کے پولیسنگ کا سوچنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ ناقدین اور کشمیر کے بہت سے باشندوں کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی جزوی خودمختاری کو ختم کر کے نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی نافذ کرنے کے بعد شہری آزادیوں کو بڑی حد تک محدود کر دیا۔
ش ر⁄ ا ا (اے ایف پی)