Jasarat News:
2025-04-15@06:46:17 GMT

دانتوں میں خلال کرنا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

دانتوں میں خلال کرنا

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دانتوں میں خلال کرنے سے فالج اور امراض قلب جیسی سنگین بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔جن افراد نے باقاعدگی سے ہفتے میں کم سے کم ایک بار دانتوں میں خلال کیا تھا، ان میں فالج اور امراض قلب کی پیچیدگیاں نہیں ہوئیں۔تقریبا تین دہائیوں بعد ان افراد میں پیچیدگیاں پائی گئیں، جنہوں نے دانتوں میں خلال نہیں کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یومیہ یا ہفتے میں کم سے کم ایک بار دانتوں میں خلال کرنے سے فالج کے امکانات کو 22 فیصد جب کہ امراض قلب کے خطرات کو 44 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ماہرین نے کہا کہ دانتوں میں برش کرنا اور دانتوں کے ماہرین سے رجوع کرنا اور دانتوں کا علاج کروانا مزید مددگار ثابت ہوتا ہے، دانتوں کی بیماریاں یا پیچیدگیاں براہ راست دل اور دماغ کی بیماریوں سے منسلک ہیں۔
خیال رہے کہ دانتوں میں پھنس جانے والے غذائی ٹکڑوں کو ہاتھ یا کسی تیلی کی مدد سے نکالنے اور دانتوں کو کریدنے کو خلال کہا جاتا ہے جو کہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے۔ماہرین نے تسلیم کیا کہ خلال دانتوں کی صفائی کا سب سے آسان اور عام علاج ہے جو کہ ہر کسی دسترس میں بھی ہے جب کہ برش کرنے کے لیے مختلف لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟

اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی

سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟

ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں  ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے،  کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف  بھی ہوسکتے ہیں۔

دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔

تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں  جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔

چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔

پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے  ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: کورنگی کریک میں لگی آگ اچانک 18 روز بعد بجھ گئی۔
  • پی ٹی آئی کو توقع چھوڑ کر کورٹ میں فائٹس کرنا چاہیے
  • ترکیہ: کردستان ورکرز پارٹی کے یکطرفہ اعلان جنگ بندی کا خیرمقدم
  • جناح ہاؤس حملہ کیس: طبی بنیاد پر ضمانت دی تو تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا، چیف جسٹس
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پنک مون جلوہ گر ہو گا
  • پاکستان میں آج پنک مون کا نظارہ کیا جا سکے گا
  • ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پنک مون کا شاندار نظارہ کیاجا سکےگا
  • سادہ خون کا ٹیسٹ ہزاروں دل کے دورے کو روکنے میں مددگار
  • پاکستان میں پہلی بار بائنیل کانگریس ،18 ایشیاء پیسیفک ریجن سے اور 12 دیگر ممالک سے مقررین کی شرکت