علیمہ اور عظمیٰ خان کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
لاہور(مانیٹر نگ ڈ یسک ) دہشت گردی کے مقدمات میں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کر لی گئی۔انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی 5 اکتوبر جلاؤ گھیراؤ کے 2 مقدمات میں عبوری ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔حاضری معافی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ علیمہ خان اور عظمیٰ خان میانوالی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فتنہ الخوارج، دہشت گردی اور نوجوان
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ جب تک قوم اور بالخصوص نوجوان پاک فوج کے پیچھے کھڑے ہیں اور جب تک ہمارے اندر قربانی کا یہ جذبہ موجود ہے تو پاک فوج کو کوئی کبھی شکست نہیں دے سکے گا۔ یونیورسٹی طلبہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے مزید کہا کہ خارجی، اسلام کی غلط تشریح کر رہے ہیں جو اسلام میں جائز نہیں، پاک فوج فتنہ الخوارج کے خلاف لڑ رہی ہے۔
یونیورسٹی طلبہ سے خطاب میں پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے صائب خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ آج کا فتنہ الخوارج بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے پا ک فوج پر عزم ہے۔ خوارج تاریخی طور پر وہ گروہ ہیں جو مذہبی شدت پسندی کے باعث اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوئے اور خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ آج بھی مختلف شدت پسند گروہ ان کے نظریات کو اپنائے ہوئے پاکستان میں انتشار اور فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ گروہ خود کو اسلام کا علمبردار قرار دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں جس سے مسلم معاشرے میں افراتفری اور انتشار پھیلنے کے مواقعے بڑھ جاتے ہیں۔
خوارج کی دہشت گرد کارروائیاں خصوصاً خیبر پختونخوا خصوصاً سابقہ قبائلی اضلاع میں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ خوارج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عوام اور پاک فوج کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان پائے جانے والے اتحاد و یکجہتی کے مقدس رشتے کو زک پہنچائیں۔ انھیں یہ خوف ہے کہ اگر عوام اور فوج ایک ساتھ کھڑے رہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے یہ عناصر دہشت گرد حملے کرکے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں اور پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریاست اور عسکری ادارے ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے بعض گروہ خوارج کے ناپاک ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ لوگ چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور فوجی آپریشنز کو روکنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکے۔ درحقیقت، یہ عناصر خوارج کے سہولت کاروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
پاکستان کے بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، فوجی مقامات و تنصیبات اور اسکولوں پر حملے میں ملوث جملہ تحریکوں اور تنظیموں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں مذہب کی آڑ لے کر کرتی ہیں۔ اِس گمراہ کن اور ہلاکت انگیز ذہنیت نے پوری اِنسانیت کوبالعموم اور اُمتِ مسلمہ کو بالخصوص ایک عجیب اذیت ناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ جوانمردی، استقامت، حوصلہ مندی، جرات اور بہادری کا مظاہر ہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ پاک فوج ہر دہشت گرد کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔
ہمارے نوجوان جو قوم کی امید ہوتے ہیں، دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم کے لیے ان کی معصومیت کو استعمال کرتے ہیں۔ انھیں جنت میں جانے کے جھانسے دیتے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ دہشت گرد جماعتیں بے روزگار نوجوانوں کا برین واش کر کے ان کو ملک دشمنی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ بے روزگار، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مظاہروں میں انتخاب کیا جاتا ہے اوران کی مجبوریوں اور دیگر مسائل کا پتہ لگا کر اسی طریقے سے ان کو کو اپنا حصہ بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے انتخاب اور انھیں مائل کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کار سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔ دہشت گردوں نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان تک رسائی کر کے انھیں گمراہ کرتے، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے اور راستے سے بھٹکاتے ہیں۔
بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گمراہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، غریب طبقے کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے، اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی ۔
دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آجاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔ اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔حکومت اور مقتدر اداروں کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کریں جن سے عوام الناس تشکیک کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سرغنے کئی مضطرب اور جذباتی نوجوانوں کو آسانی سے اکسانے، ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ انھیں دہشت گردی کے لیے تیار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔
نوجوان نسل جتنی باشعور، ڈسپلنڈ اور باکردار ہو ملک بھی اُسی قدر مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان جو کل آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد ہیں واحد طبقہ ہیں جن کی گرومنگ اور تربیت اُس انداز میں نہیں ہو پارہی جس کی انھیں ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان کے ہاتھ سے اسمارٹ فون چھیننے کا رواج تو موجود ہے لیکن اُس کو اسمارٹ فون کے مثبت استعمال سے متعلق رہنمائی یا پھر اُس کے ہاتھ میں کوئی اچھی کتاب تھمانے کا کوئی رواج موجود نہیں۔ بہت کم والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کرپاتے ہیں وہ معاشرے کے لیے ایک مفید شہری بن کر سامنے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا پڑی تو اُس میں وہ نسل جو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں زیادہ استعمال ہوئی وہ نوجوان نسل ہی تھی۔
حتیٰ کہ کم عمر اور نابالغ لڑکوں کو خود کش دھماکوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسے بچے شاید اس لیے بھی استعمال ہوئے کہ اُن کے گھر والوں اور علاقوں میں نوجوانوں کی تربیت کا وہ نظام موجود نہیں تھا جو ترقی یافتہ معاشروں میں موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نوجوان اس لیے خود کش دھماکے کرتے ہیں کہ اُن کو مزدوری نہیں مل رہی تھی اور بے روزگاری تھی تو یہ درست نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تعلیم کا فقدان تھا، اس لیے نوجوان استعمال ہوئے تو یہ بھی غلط ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم شاید مختلف علوم کے پانچ پانچ سوال رٹ لینے کا نام ہے۔ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنھیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ مختلف جامعات سے تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
لہٰذا ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ ان نوجوانوں کی ڈِکشن کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہی ایسی ہوجائے کہ وہ اپنے ملک، قوم اور نظریے کے ساتھ اس قدر مخلص اور جُڑے ہوئے ہوں کہ ملک کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔ دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کے لیے بطورِ ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جاسکے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رُخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اُس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔
معاشرے سے اِنتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردوںکے فکری و نظریاتی سرچشموں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔ مزید برآں اِنتہا پسندانہ اَفکار و نظریات کے خلاف مدلل مواد ہر طبقہ زندگی کو اُس کی ضروریات کے مطابق فراہم کردیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و اِنتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوسکے جہاں سے اِس دہشت گردی کو فکری و نظریاتی غذا حاصل ہوتی ہے۔یہ وقت پوری قوم، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان کے لیے امتحان کا وقت ہے۔
تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ فیصلہ کریں کہ وہ اس ملک کو امن اور عدم تشدد کا معاشرہ دینا چاہتے ہیں۔ جب تک یکسو ہو کر تمام سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد، ان کے معاونین اور فکری گماشتوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، امن ہمارا خواب ہی رہے گا اور اس کی عملی تعبیر کبھی ممکن نہ ہو سکے گی۔