Express News:
2025-02-20@23:31:17 GMT

ٹرمپ اور گریٹر اسرائیل منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد جس قسم کے رعونت آمیز اعلانات اور آمرانہ فیصلے کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ پوری دنیا کو قبل از وقت کسی بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ واشنگٹن میں انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالنے اور اس پٹی کے مکینوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز دی ہے۔

اس تجویز کے مطابق اسرائیل جنگ ختم کرنے کے بعد غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کرے گا اور غزہ کی پٹی کے مکینوں کو خطے کے دوسرے ممالک میں آباد کیا جائے گا۔ پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ ’’اوور لہ راغلے نو د کور میرمن شوے‘‘ آگ مانگنے آئی تھی اور گھر کی مالکن بن گئی۔

(پرانے اور غربت کے زمانے میں دیہاتوں میں لوگ آگ جلانے کے لیے آگ بھی آسودہ حال ہمسایوں سے مانگتے تھے) یعنی ارض مقدس پر ناجائز قابضین اب ارض مقدس کے مکینوں کو دوسرے اسلامی ممالک میں آباد کر یںگے اور خود انڈرکور غزہ کی پٹی پر بھی قابض ہوجائیں گے۔ گزشتہ اتوار کو امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پر اپنے منصوبے کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے لیے پر عزم ہیں۔

اسرائیل کے وزیر دفاع نے امریکی صدر کے متنازع بیان کے بعد غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کے لیے صیہونی افواج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ 

امریکی صدر کے اس متنازع اعلان کے بعد جہاں صیہونی حکومت اسرائیل اور یہودی شادیانے بجا رہے ہیں وہاں فلسطین سمیت پورے عالم اسلام میں کہرام مچا ہوا ہے۔ بیشک اسلامی ممالک کے حکمران ہمیشہ امریکا کے اتحادی رہے ہیں لیکن اس بار انھوں نے بھی عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کھل کر اس متنازع تجویز کی ناصرف مخالفت کی بلکہ اسے ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کردیا ہے کیونکہ اب عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے اور کوئی مسلمان حکمران عوامی جذبات کے مخالف جانے اور عوامی رد عمل برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ستائیس فروری کو اسی مسئلے پر مصر میں عرب ممالک کا اجلاس ٹھوس اور متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے طلب کرلیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی میں مقیم بیس لاکھ سے زائد غزہ کے اصل مکینوں اور وارثوں کو وہاں سے نکالنے اور اسے امریکی ملکیت میں لینے کی تجویز پر اسلامی دنیا ہی نہیں، روئے زمین پر بسنے والے تمام انصاف پسند غم و غصے میں ہیں۔

ہر آزاد ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ غزہ کی پٹی کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ وہاں کے باشندوں کو ملک بدر کرنا ہے، مگر آخر کیوں؟

یہ سازش اس وقت نا صرف اہل فلسطین بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی اور امریکی جرائم کی فہرست بڑی طویل اور مسلمان حکمرانوں کی خاموشی مجرمانہ رہی ہے، مگر جس اسلامی ملک کی حکومت نے اس بار بھی مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی تو اسے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب کا سامنا ہوگا، اس لیے یہ بات بڑی واضح ہے کہ اگر ٹرمپ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو دنیا بھر سے امن کی فاختہ اڑ جائیں گی اور خوفناک عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات ابھر کر سامنے آئیں گے۔ 
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ’’ٹرمپ اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد ایک فاشسٹ حکمران کی طرح سامنے آئے ہیں، ان کا یہ فاشزم دنیا میں نئے بحرانوں کو بھڑکانے کا سبب بن رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے صیہونیت گریٹر اسرائیل کے قیام کا جو خواب و خیال اپنی سازشی ذہنوں میں ایک عرصے سے پال رہے ہیں اسے تعبیر دینے کے لیے ایسا ہی فاشزم درکار ہیں ۔

گریٹر اسرائیل کے قیام سے متعلق اسرائیل کی جانب سے ایک عرصے سے بات کی جارہی ہے، ہمارے بہت سے قارئین نے اس منصوبے کا نام تو سن رکھا ہے لیکن اس کے خدوخال سے آگاہ نہیں، گریٹر اسرائیل کا صیہونی تصور یہ ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتب میں جس سرزمین کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں اردن، مصر، فلسطین، عراق، شام اور لبنان کے علاقے گریٹر اسرائیل میں شامل ہوں گے۔


 گزشتہ سال جنوری میں ایک اسرائیلی مصنف ایوی لیکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہماری (گریٹر اسرائیل ) سرحدات موجودہ سعودی عرب سے نہر فرات یعنی عراق تک پھیلی ہوئی ہوں گی‘‘۔ تھیوڈور ہرتزل کو صیہونیت کا بانی سمجھا جاتا ہے، اسی نے بیسویں صدی کے دوران یہودی ریاست یا گریٹر اسرائیل کی بنیاد کا تصور دیا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ ’’یہودیوں کی ارض موعود (گریٹر اسرائیل ) میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب، مصر اور اردن کے علاوہ ایران اور ترکی کے علاقے بھی شامل ہوں گے‘‘۔ یہودیوں نے تھیوڈور ہرتزل کے اس تصور پر عمل کرتے ہوئے ہر دور میں گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے سازشیں کیں۔ یہودی تنظیمیں پوری دنیا میں گریٹر اسرائیل کے لیے رائے عامہ بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر اس بار اس جدوجہد میں تیزی محسوس ہو رہی ہے۔

امسال جنوری کے آخر میں اسرائیل کی صیہونی حکومت نے ایک بار پھر گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کیا، اس نقشے میں مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کے علاؤہ اردن، شام لبنان اور دیگر عرب ممالک کو صیہونی ریاست کا حصہ دکھایا گیا۔

پاکستان فلسطین، سعودی عرب، ترکی، قطر، ایران، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت تمام اسلامی دنیا نے اس نقشے کی مذمت کی، اس نقشے کو جاری کرنے کے کچھ ہی دن بعد امریکی صدر کا غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اسے خریدنے کی بات سامنے آگئی، اور اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا ایک اور متنازع بیان آیا جس میں انھوں نے سعودی عرب سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں لے جاکر آباد کرلیں۔ ان اعلانات اور اقدامات کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، یہ ایک ہی گھناؤنی سازش اور زنجیر کی کڑیاں ہیں۔

کئی دہائیوں سے جس گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے جو سازشیں ہورہی تھیں، لمحہ موجود میں وہ سازشیں اژدھا بن کر پوری امت مسلمہ کے سامنے کھڑی ہیں، اس بار امت مسلمہ کے حکمرانوں کو اپنا جائزہ خود لینا چاہیے کہ کیا وہ اس کا مقابلہ کرنے کی استطاعت اور ہمت رکھتے ہیں؟ یا غلامی کی زنجیریں آج بھی انھیں خاموش رہنے پر مجبور کررہی ہیں؟

بلا تفریق تقریباً تمام مسلمان حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ ہمیشہ بیوفائی کی اور اپنے عوام کے اعتماد کو ہمیشہ ٹھیس پہنچائی لیکن اس کے باوجود اگر وہ آج اس گریٹر اسرائیل منصوبے کے آگے کھڑے ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو انشاء اللہ مسلم امہ کا بچہ بچہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔

اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے استقامت و پائیداری کی اشد ضرورت ہے اور استقامت و پائیداری کے ستون، ایک طرف فلسطین کے اندر اور باہر مجاہد فلسطینی تنظیمیں اور فلسطین کے مومن و مجاہد عوام ہیں تو دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم قومیں اور حکومتیں بالخصوص علما و دانشور، سیاسی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد ہیں۔

اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنی جگہ پر قائم رہیں تو بلا شبہ بیدار ضمیر، ذہن اور فکریں جو سامراج و صیہونی میڈیا کے مسحورکن پراپیگنڈوں سے مسخ نہیں ہوئے ہیں تو دنیا کے ہر گوشے سے صاحبان حق اور مظلوموں کی مدد کے لیے آگے آئیں گے اور جنھیں سازش کے بھیانک کرداروں کو ان کے افکار و نظریات، جذبات و احساسات اور عمل و اقدامات کے ایک طوفان کا سامنا کرنا ہوگا۔ پھر امت مسلمہ کا بچہ بچہ دنیا کو اپنے عمل سے بتائے گا کہ فلسطین، صرف فلسطینیوں کا ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی صدر غزہ کی پٹی کے لیے ا رہے ہیں کرنے کے کرنے کی کے بعد اور اس ہیں تو

پڑھیں:

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اسلام ٹائمز: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: رسول قبادی
 
مغربی ایشیا خطہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے نظریات کی تلاطم خیز تجربہ گاہ ہے۔ یہ خطہ ایک بار پھر ایسی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے جنہوں نے دیرینہ نظریات اور مفروضات کو چیلنج کر ڈالا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے مصر اور اسرائیل کے تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے تقریباً نصف صدی پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ انجام دیا تھا۔ اب دونوں کے درمیان عدم اعتماد، تناو اور حتی جنگ کی دھمکیوں جیسی فضا چھا چکی ہے جس نے کیمپ ڈیوڈ کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم سے کوئی بھی امن معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقت پسندانہ مکتب فکر کی روشنی میں ایک اہم اصول مدمقابل کی نیتوں کا غیر یقینی ہونا ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے اور حکومتوں کو فوجی طاقت میں اضافے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ یہ اصول حتی مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر بھی صادق آتا ہے۔
 
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978ء میں انجام پایا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مصر، غاصب صیہونی رژیم کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ لیکن کمیپ ڈیوڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن ہمیشہ چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین، سرحدی تنازعات اور خطے میں طاقت کا بدلتا توازن وہ وجوہات ہیں جنہوں نے امن کو خطرے کا شکار کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی انجام پانے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ فوجی جارحیت نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ مصر کی نظر میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی نے اس ملک کو نئے سیکورٹی خطرات سے روبرو کر دیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کی جانب سے غزہ اور مصر کی مشترکہ سرحد پر فلاڈیلفیا راہداری تک پیشقدمی نے بھی قاہرہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
 
فلاڈیلفیا راہداری ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے جو ہمیشہ سے مصر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے پر صیہونی فوج کے قبضے کا مطلب غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے جس کے باعث اس علاقے میں مصر کی رسائی بھی محدود ہو گئی ہے۔ قاہرہ اس بات پر پریشان ہے کہ اسرائیل اس علاقے پر کنٹرول کو فلسطینیوں پر دباو ڈال کر انہیں جبری طور پر مصر جلاوطن کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ بات مصر کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ مصر حکومت اسے اپنے لیے سیکورٹی خطرہ سمجھتی ہے اور یوں اس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مصر نے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی سرحدوں پر فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ ٹینکوں، جنگی طیاروں اور جدید فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی صیہونی رژیم کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ مصر اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
 
دوسری طرف صیہونی رژیم مصر کے ان اقدامات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور انہیں مصر کی جانب سے جنگ کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی علامت قرار دیتی ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے مصر کی فوجی نقل و حرکت کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اس بارے میں مختلف رپورٹس اور تجزیات شائع کر کے خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ صیہونی ذرائع ابلاغ نے حتی اسرائیل کی جانب سے مصر پر حملہ کرنے میں پہل (preemptive attack) کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی جنگ نے تناو کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور غلط فہمی کے نتیجے میں نادرست اقدام کا احتمال بھی بڑھ گیا ہے۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ کئی عشروں بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات پر کالے بادل چھا گئے ہیں۔
 
مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
دوسری طرف امریکہ مصر پر غزہ سے فلسطینی مہاجرین قبول کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔ کچھ امریکی حکام نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر مصر اس منصوبے میں تعاون نہیں کرتا تو اس کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔ قاہرہ نے ان دھمکیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے مصر پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے اور یوں وہ مصر کے قومی مفادات کی بے احترامی کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجود بحران مصر کے لیے امریکی تسلط سے آزاد ہو کر خودمختار ہو جانے کا تاریخی موقع ہے۔ ان کی نظر میں مصر خودمختار اور زیادہ متنوع خارجہ پالیسی اختیار کر کے اپنے قومی مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والا موجودہ بحران خطے میں طاقت کے توازن اور سیاسی مساواتوں میں گہری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا،ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ پر عرب راہنماﺅں کامتبادل منصوبہ نہیں دیکھا‘مجوزہ منصوبہ دیکھنے کے بعد تبصرہ کروں گا .صدر ٹرمپ
  • غزہ کو نیلام کرنے کا صیہونی منصوبہ
  • یوکرین جنگ، امریکا کا 500 ارب ڈالر یوکرینی معدنیات سے وصول کرنیکا منصوبہ
  • کیمپ ڈیوڈ کی موت
  • ٹرمپ کیساتھ مل کر کام کرینگے: موخر ادائیگی پر تیل، سعودیہ نے مدت بڑھا دی: وزیراعظم
  • ٹرمپ کے مقابلے میں غزہ کے لیے ’عرب منصوبہ‘ پیش کرنے کی تیاریاں
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ کے قسط وار ناکام منصوبے
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ قسط وار ناکام منصوبے
  • ٹرمپ کا عالمی گریٹ گیم اور نیو ورلڈ آرڈر کی تیاری