ایک بار پھر ازبکستان میں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں سے ہوا تھا‘ میری نسل کے لوگ بچپن میں جب بھی 1965 کی جنگ کا احوال پڑھتے تھے تو انھیں دو فقرے ضرور سہنا پڑتے تھے‘ رات کی سیاہی میں بزدل دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا اور دوم فیلڈ مارشل ایوب خان نے 10 جنوری 1966 کو جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں میز پر ہار دی۔
بڑے ہوئے تو یہ بھی معلوم ہوا ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کے معاہدے کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا‘ ایوب خان اس وقت تک جسمانی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو چکے تھے‘ ملک میں ان کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو غیرت کا پرچم بنایا اور بدنصیب جذباتی قوم کے سر پر لہرانا شروع کر دیا اور ہم لوگ کیوںکہ ہر جذباتی نعرے اور دعوے کو حقیقت مان لیتے ہیں۔
چناںچہ ہم نے بھٹو صاحب کا پرچم بھی تھام لیا‘ بھٹو پوری زندگی دعویٰ کرتے رہے ’’ میں آپ کو بتاؤں گا تاشقند میں کیا ہوا تھا؟‘‘ اور قوم پوری زندگی بھٹو کی پٹاری کھلنے کا انتظار کرتی رہی لیکن تاشقند میں کیا ہوا قوم کو آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ مزید بڑے ہوئے تو معلوم ہوا معاہدے کے لیے بھارت کی طرف سے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند آئے تھے‘ پاکستان کی طرح معاہدے کے بعد بھارت میں بھی شور ہو گیا‘ شاستری نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی‘ عوام نے وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا۔
شاستری نے خیریت معلوم کرنے کے لیے گھر فون کیا‘ بیٹی نے رو رو کر کہا ’’ باپو آپ نے قوم کی ناک کٹوا دی‘‘ شاستری نے اسے اطمینان دلانے کی کوشش کی‘ بیٹی نے باپ کے بجائے عوامی رائے پر یقین کیا‘ شاستری جی عوام کی غلط فہمی کو دل پر لے گئے‘ معاہدے کی رات انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہوٹل تاشقند میں آنجہانی ہو گئے۔ ہم لوگ مزید بڑے ہوئے تو امیر تیمور کی بائیو گرافی پڑھنا شروع کر دی اور امیر تیمور کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے رومان میں بھی گرفتار ہو گئے ‘یہ رومانس آج تک جاری و ساری ہے اور میں 13اور14فروری کی درمیانی شب ایک بار پھر تاشقند پہنچ گیا۔
تاشقند پاکستان سے بہت نزدیک ہے‘ فلائیٹ صرف اڑھائی گھنٹے میں لاہور سے تاشقند پہنچ جاتی ہے‘ پاکستان اور تاشقند کا ٹائم بھی یکساں ہے‘ پاکستان میں بارہ بجتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تاشقند میں بھی بارہ بج جاتے ہیں‘ وقت کی اس یکسانیت کے بارے میں معلوم ہوا‘ ازبکستان کی حکومت اور عوام پاکستان کو بہت پسند کرتے تھے‘ ازبکستان 29 اگست 1991میں آزاد ہوا‘ آزادی کے بعد معیاری وقت کے تعین کا مرحلہ آیا تو ازبکستان نے چپ چاپ پاکستان کے معیاری وقت کو اپنا معیاری وقت بنا لیا۔
ازبکستان نے 1995 میں اپنی کرنسی ’’ سم‘‘ لانچ کی‘ اس وقت ایک ڈالر 35 روپے میں آتا تھا‘ ازبکستان نے بھی ڈالر کا ایکس چینج ریٹ 35 سم طے کر دیا‘ 1995-96 میں ازبکستان میں 60 ہزار پاکستانی تھے اور یہ لوگ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے لیکن افغانستان میں طالبانائزیشن کے بعد ازبکستان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہو گئے۔
طالبان نے اس دور میں سمرقند اور بخارہ پر قبضے کا اعلان کر دیا تھا اور ازبکستان کی حکومت کا خیال تھا پاکستان اور آئی ایس آئی طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے‘ ازبکستان نے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب تاشقند میں صرف 14 پاکستانی رہ گئے اور ان میں سے بھی 9 سفارتکار تھے‘ یہ اختلافات جنرل پرویز مشرف کے دور تک جاری رہے‘ جنرل مشرف کے دور میں تعلقات دوبارہ بحال ہوئے اور برف آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہو گئی۔
تاشقند ایک دل چسپ شہر ہے‘ شہر انتہائی خوب صورت اور صاف ستھرا ہے‘ ازبک لوگ بھی فطرتاً صاف ستھرے لوگ ہیں‘ یہ گھروں‘ ماحول اور گلی کوچوں کی صفائی کا خصوصی خیال رکھتے ہیں‘ ازبک بچیاں شام کو جھاڑو لے کر گھر سے نکلتی ہیں اور گلی صاف کرتی ہیں‘ تمام دفاتر میں ہفتے کے دن صفائی کی جاتی ہے اور اس میں باس سے لے کر ملازمین تک حصہ لیتے ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر مثالی ہے۔
عوام پورے ملک میں بلا خوف پھرتے ہیں‘ نوجوان لڑکیاں آدھی آدھی رات کو اکیلی گھومتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ ٹریفک رولز پر سختی سے عمل ہوتا ہے‘ آپ وزیر ہوں یا جنرل ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر آپ کو ہر حال میں سزا ہو گی۔
آزادی کے بعد ازبکستان میں بھی طالبانائزیشن شروع ہو گئی تھی‘ ملک میں بم دھماکے اور قتل وغارت گری بھی ہوئی لیکن حکومت نے امن خراب کرنے والے لوگوں کو اڑا کر رکھ دیا‘ ملک میں منشیات‘ اسلحہ اور تبلیغ تینوں پر سخت پابندی ہے‘ یہ ان تینوں ’’جرائم‘‘ پر ملزموں کو سزائے موت تک دے دیتے ہیں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں پر نماز ادا نہیں کی جا سکتی‘ آپ مسجد یا گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔
داڑھی رکھنے پر پابندی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ اس قانون میں نرمی کی جا رہی ہے‘ داڑھی پر پابندی کی وجہ سے مسجدوں کے امام بھی داڑھی کے بغیر نماز پڑھاتے ہیں‘ ملک میں گاڑی چوری کی سزا بھی موت ہے لہٰذا ملک میں گاڑی چوری کا واقعہ نہیں ہوتا‘ حکومت کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسیع اختیارات ہیں اور عدالتیں اس معاملے میں حکومتی کام میں مداخلت نہیں کرتیں۔
ڈرائیونگ لائسنس کے لیے مکینک ہونا ضروری ہوتا ہے‘ حکومت کی کوشش ہوتی ہے صرف ان لوگوں کو لائسنس دیے جائیں جو ایمرجنسی میں گاڑی ٹھیک کر سکیں اور گاڑی کو ورکشاپ تک پہنچا سکیں‘ لوگ محنتی ہیں‘ بالخصوص عورتیں کام کرتی ہیں‘ آپ کو فٹ پاتھ پر خوانچہ فروشوں سے لے کر آفس تک ہر جگہ خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
چارسو تاشقند کا قدیم ترین بازار ہے‘ اس بازار میں مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کی دو ہزار سال پرانی مارکیٹ ہے‘ اس مارکیٹ پر خواتین کا قبضہ ہے‘ یہ سبز رنگ کی گول مارکیٹ ہے جس کے اندر سیکڑوں اوپن دکانیں ہیں اور کاؤنٹر نما دکانوں پر مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کے کنستر اور ٹوکریاں رکھی ہیں‘ چارسو میں فروٹس‘ سبزی اور گوشت کی بھی سیکڑوں دکانیں ہیں۔
ازبکستان کی کرنسی بہت سستی ہے‘ ڈالر کے گورنمنٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بہت فرق ہے‘ حکومت ایک ڈالر کے تیرہ ہزارسم دیتی ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے تیرہ ہزار8 سو سم مل جاتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کراوئیں تو آپ کو تیرہ لاکھ 80 ہزار سم مل جائیں گے‘ میں نے دنیا میں ازبکستان سے زیادہ کسی جگہ کرنسی کی اتنی بے قدری نہیں دیکھی۔
لوگ تھیلوں اور شاپنگ بیگز میں نوٹ ڈال کر پھرتے ہیں‘ افراط زر انتہائی زیادہ ہے‘ آپ کو پانی کی بوتل چار پانچ ہزار سم میں ملتی ہے‘ آپ ایک وقت کا کھانا پچاس ساٹھ ہزار سم میں کھاتے ہیں لیکن افراط زر کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء بہت سستی ہیں‘ ازبکستان میں فروٹ ارزاں اور وافر ہے‘ اناج اور گوشت بھی پاکستان سے سستا ہے‘ کھانے پینے کی اشیاء کی کوالٹی بہت اچھی ہے‘ ملاوٹ اور جعلی اشیاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
لوگ بے انتہا مہمان نواز ہیں‘ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ آپ کو چائے پلائے بغیر نہیں جانے دے گا‘ معاشرہ محفوظ ہے چناںچہ لوگ اجنبیوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ خست امام شہر کا قدیم علاقہ ہے‘ یہ امام کفل ششی کا علاقہ ہے‘ امام صاحب امیر تیمور سے قبل اس علاقے میں آئے تھے اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں داخل کیا تھا‘ امیر تیمور نے خست امام کا مزار بنوایا‘ موجودہ حکومت نے مزار کے سامنے شان دار مسجد بنوائی۔
یہ مسجد بھی عجوبہ ہے‘ خست امام میں حضرت عثمان غنی ؓ کا قرآن مجید بھی زیارت کے لیے موجود ہے‘ ازبک لوگوں کا دعویٰ ہے یہ وہ قرآن مجید ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تھے‘ اسی قسم کا ایک قرآن مجید استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے‘ ان دونوں میں اصل کون سا ہے اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
خست امام کے دائیں بائیں تاشقند کا قدیم شہر واقع ہے‘ یہ شہر کچی مٹی سے بنا ہوا ہے‘ گلیاں تنگ مگر صاف ستھری ہیں‘ ہر گھر میں صحن ہے اور صحن میں انگور کی بیلیں‘ خوبانی‘ آلو بخارہ اور سیب کے درخت ہیں‘ گھروں کے کمرے مستطیل ہوتے ہیں اور صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے ہیں‘ کمروں کے سامنے طویل برآمدہ ہوتا ہے اور برآمدے میں ایک بڑا تخت ہوتا ہے جس پر سارا خاندان کھانا کھاتا ہے۔
تاشقند کے ہر محلے میں ایک سرکاری گھر ہوتا ہے‘ یہ گھر دراصل اولڈ پیپل ہوم ہوتا ہے‘ محلے کے بوڑھے اس گھر میں جمع ہو جاتے ہیں‘ یہ سارا دن یہاں شطرنج اور تاش کھیلتے ہیں‘ گھر میں چھوٹا سا کچن بھی ہوتا ہے‘ یہ اس کچن میں چائے اور کھانے کا بندوبست کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ کھانے کے بعد دعا ان کا معمول ہے۔
یہ قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں‘ رحمت ان کا خدا حافظ ہے‘ یہ رخصت ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو رحمت کہتے ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سلام کرتے ہیں‘ معاشرہ لبرل ہے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں ناک نہیں گھسیڑتے‘ مسجد اور کلب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور کوئی دوسرے کے راستے میں نہیں آ رہا۔ امیر تیمور اپنے ازبکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک کہتا تھا اور اس ملک میں داخل ہونے کے بعد آپ کو تیمور کا دعویٰ غلط نہیں لگتا۔ لوگ اور ماحول دونوں انتہائی خوب صورت اور پرکشش ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ازبکستان میں ازبکستان نے تاشقند میں امیر تیمور جاتے ہیں ملک میں میں بھی ہیں اور ہوتا ہے گھر میں کے بعد ہے اور کر دیا کے لیے
پڑھیں:
قیدی 804 کے 800 اور عافیہ کے 8000 دن
ابھی قیدی نمبر 804 کے 800 دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک چیخ کی آواز آئی کہا گیا کہ بانی صاحب نے بڑے حافظ صاحب کو خط لکھ دیا ہے ان کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے اور تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تبدیلی کا تو انہیں شروع ہی سے شوق ہے، کیا کیا تبدیل نہیں کیا۔ اس پر زیادہ بات کی ضرورت نہیں، سیاست سے لے کر گھریلو معاملات تک بار بار تبدیلیاں کی ہیں، آخری گھریلو تبدیلی راس بھی آئی اور مشکل میں بھی اس کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ ابھی موصوف کے پہلے خط کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ نیا خط میڈیا میں آ گیا، اس خط میں پالیسی بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے حالات بدلنے کا شکوہ کیا گیا ہے۔ پہلا خط ملنے کی تو تصدیق نہیں ہوئی تھی لیکن دوسرے خط کی تصدیق عدالت عظمیٰ سے ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا کہ اس خط میں سنجیدہ نوعیت کے نکات ہیں اس لیے اس کی سماعت آئینی بنچ ہی کرے گا، اور نکات کیا ہیں انہیں دیکھ اور پڑھ کر سنجیدگی کی سطح کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
موصوف کے پہلے خط میں تو پالیسیاں بدلنے کی بات کی گئی تھی لیکن دوسرے خط نے اصل مدعا بیان کردیا، انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا ہے، بجلی تک بند ہے، عدالتی حکم کے باوجود میری اہلیہ سے ملاقات نہیں کرائی جاتی، اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، مجھے 20 دن تک مکمل تنہائی میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں آتی، میرا ورزش کرنے والا سامان اور ٹی وی بھی لے لیا گیا ہے، اخبارات تک نہیں دیے جارہے، کتابیں بھی روک لیتے ہیں، میرے بیٹوں سے بھی چھے ماہ میں صرف تین مرتبہ بات کروائی گئی ہے، چھے ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ملنے دیا گیا ہے۔ ان شکایات کے علاوہ انہوں نے عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی توہین اور پیکا ایکٹ اور میڈیا پر قدغن کی شکایات بھی کی ہیں لیکن زیادہ زور اپنی پریشانیوں پر ہے اور ان کے حامی ان ہی شکایات پر مر مٹے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کی یہ شکایات پڑھتے وقت بے ساختہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا، جرم بے گناہی پر جعلی عدالت میں جھوٹا مقدمہ، مسلسل ذہنی، جسمانی اذیت، قید تنہائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہاں ویسی ہی کال کوٹھری جس کا شکوہ کپتان نے کیا ہے، اور وہی شکایت کہ ماں سے فون پر بات نہیں کرنے دی گئی، بہن اور بھائی کو ملنے نہیں دیا گیا۔ بچوں سے بات نہیں کروائی جاتی، اور عافیہ نے عمران خان کے دور حکومت میں 800 سے زیادہ دن، اس سے کہیں زیادہ شدید ظلم کے عالم میں گزارے ہیں، خان صاحب اگر اس وقت قوم کی بیٹی کی طرف توجہ دے دیتے تو آج شاید ان کے شکوے میں وزن ہوتا۔ لیکن انہوں نے جن چیزوں کے چھن جانے کا ذکر کیا ہے ان میں سے بہت سی چیزوں کا تو عافیہ تصور بھی نہیں کرسکتی، بکرے کا گوشت اور یخنی، ڈرائی فروٹ، پھل، اور ہاں ایکسرسائز مشین، سیاسی بیانات، اخبارات اور کتابیں، فون پر اپنے پیاروں سے باتیں، یہ تو عافیہ کے خواب ہی ہوسکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے خط نے عافیہ کے مصائب کی طرف حساس دلوں کی توجہ مبذول کرادی ہے، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ خان صاحب کو بہت اچھا موقع ملا تھا وہ اس وقت ایک خط لکھ دیتے تو آج آرمی چیف کو خطوط نہ لکھنے پڑتے، اس صورتحال پر بہادر شاہ ظفر کا واقعہ یاد آگیا، انہیں جب کالے پانی لے جایا جارہا تھا تو صبح سویرے اٹھ کر بحری جہاز کے عرشے پر آکھڑے ہوئے، اور سورج نکلنے کا منظر دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ بڑے عرصے بعد یہ دن دیکھنے کو ملا، روایات کے مطابق ان کے ساتھ جانے والے مصاحب میں سے ایک نے کہا کہ حضور اپنے دور اقتدار میں اگر روز یہ دن دیکھ رہے ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ تو بانی پی ٹی آئی اپنے دور میں اگر قید تنہائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ذہنی وجسمانی اذیت اور قید ناحق کا شکار عافیہ کے لیے ایک خط لکھ دیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
وہ اپنی قید کے دوران بیٹوں سے ملاقات، دوستوں اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں نہ ہونے کا حساب کررہے ہیں لیکن اپنے دور میں عافیہ کی اس اذیت کا احساس نہ کرسکے۔ وہ شاید تصور نہیں کرسکتے کہ ایک ماں کو اس کے بچوں سے دور رکھنا کس قدر اذیت ناک عمل ہے اور اگر اس کے بچوں کو دور رکھا جائے تو بھی انسانی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے۔ عافیہ کو ماں اور بچوں دونوں سے دور رکھا گیا، خان صاحب کو اگر پھر موقع ملے تو وہ اپنے عوام کے حقوق اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے پر توجہ دیں تو شاید دوبارہ ایسی صورتحال درپیش نہ ہو، اگر خان صاحب اپنے مسائل میں الجھ کر عافیہ کے معاملات سے بے خبر رہے تو ان کی اور دیگر بے خبروں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تلک الایام نداولھا بین الناس۔
صرف بانی پی ٹی آئی نہیں میاں نواز شریف، وزیر اعظم شہباز، اسحق ڈار، مریم نواز، آصف زرداری، اور اس قبیل کے سارے لوگ اپنی تکلیف کے وقت ڈاکٹر عافیہ کو بھی یاد کرلیا کریں۔ اور ان لوگوں کو تو باریاں ملتی ہیں اپنی باری کے وقت ڈاکٹر عافیہ کو یاد کرلیا کریں۔ اور ان حکمرانوں کے مصائب کا تو براہ راست تعلق ان کی حرکتوں سے ہے، ڈاکٹر عافیہ تو بے قصور ہے اسے جرم بے گناہی پر 86 سال سزا سنائی گئی، اسی حال میں اس کے 8000 دن 23 فروری کو مکمل ہوجائیں گے۔ پاکستانی سیاستدان، اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور قوت کے تمام مراکز ان 8000 دنوں کو 86 سال میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ سب کو اپنے وقار، عزت، حکومت، اقتدار اور دولت کی فکر ہوتی ہے، لیکن قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اور یہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل اور بڑی چیز ہوتی ہے۔ اس کے سامنے اقتدار، مال ودولت کچھ نہیں، یہ سب ایک مرتبہ قومی غیرت کا مطلب سمجھ لیں بیٹی کیا ہوتی ہے اس کا مطلب سمجھ لیں ورنہ اگر سمجھ سکیں تو یہی کافی ہے۔
جان اپنی ہے اور آبرو نسلوں کی کمائی
سر کون بچاتا پھرے دستار کے آگے