Express News:
2025-04-16@22:51:07 GMT

کراچی کو بدلنا ہے تو سوچ کو بدلو

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کو آج کچھ ہی لوگ جانتے ہوں گے۔ یہ وہ کراچی کا سپوت تھا جوکراچی اورکراچی کے عوام کا سچا مسیحا تھا۔ اس نے اپنی ’’میئری‘‘ کے دور میں کراچی کو ایک چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں تبدیل کر دیا تھا۔ جمشید نسروانجی کو کراچی کا پہلا میئر بننے کا اعزاز تو حاصل تھا ہی انھیں اس شہر کی دل و جان سے خدمت کرنے کی وجہ سے ’’ بابائے کراچی‘‘ کا خطاب بھی حاصل تھا۔

آپ نے 1924 میں ایک اخبار کے ذریعے اہل کراچی کو یہ مشورہ دیا تھا ’’کراچی کے ہر شہری کو روزانہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ شہر میرا ہے اور اگر پچاس افراد بھی ایمانداری سے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ یعنی کہ کراچی کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

کیا ہم کراچی کے شہری ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس شہر کے وفادار شہری ہیں اور اس سے صرف محبت ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے امن، ترقی اور وقار کے لیے دل و جان سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہرکی ماضی کی عزت و وقار اور امن پسندی کی شناخت کو خاک میں ملا دیا ہے۔

ہم نے اس شہرکو جتنا بدنام کیا ہے، شاید ہی کسی اور شہر کے لوگوں نے ایسا کیا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جمشید نسروانجی کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں حالات و واقعات سے لگتا ہے صرف ایک یا دو فی صد لوگ ہی اس شہرکو دل و جان سے اپنا شہر سمجھتے ہوں گے۔ چونکہ ہم اس شہر کا حق ادا نہیں کر رہے، اسی لیے اس شہرکی حالت روز بہ روز خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

اس کی سڑکیں، گلیاں، نالیاں، نالے،کھیل کے میدانوں سے لے کر اسکول، مارکیٹوں تک سب ہی تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ عوام بھی محفوظ نہیں ہیں، وہ روز ہی مختلف حادثات و واقعات کا شکار بنتے جا رہے ہیں، کراچی میں چوریوں اور ڈاکوؤں کی خبریں کبھی کبھی آتی تھیں مگر اسٹریٹ کرائمز اور روڈ ایکسیڈنٹ کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔

یہ کراچی کا سنہری دور قیام پاکستان سے قبل سے لے کر 1980 تک محیط رہا۔ اس کے بعد کراچی کی بربادی جو شروع ہوئی تو ہوتی ہی چلی گئی۔ کچھ لوگوں نے عصبیت کا ایسا بیج بویا کہ وہ پھلتا پھولتا چلا گیا۔ کراچی کے شہری جو پہلے ایک دوسرے کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے عصبیت کے نشے میں ایسے رنگ گئے کہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اس زہر کو پھیلانے والوں نے خود تو خوب فائدہ اٹھایا۔

پورے شہر میں ان کی حکمرانی تھی، ان کے آگے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا، ان ہی لوگوں نے شہر میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مارکا ایسا بازار گرم کیا کہ نہ تو انتظامیہ کے پاس اس کا کوئی علاج تھا نہ وفاقی حکومت کے پاس۔ دراصل حکومت ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکی تھی وہ ان کے خلاف قدم اٹھاتی بھی توکیسے کہ ان کی حمایت سے ہی حکومت چل رہی تھی۔

 اس وقت شہر کو پانی کی قلت اور بجلی و گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ چوریاں، ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائمز روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اب ایک نئے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے اور وہ ریتی بجری کے ڈمپر اور پانی کے ٹینکروں کے ذریعے شہریوں کی اندوہناک موت ہے۔

چوریوں، ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز سے لے کر ٹریفک حادثات کو روکنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے، اگر ہماری ٹریفک پولیس سنجیدہ ہو جائے اور اپنے فرائض کو خیر خوبی اور ذمے داری ادا کرنے کا تہیہ کر لے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن بھی شہریوں پر رحم کھائے اور سڑکوں کی حالت زار کو درست کرنے میں اب اپنی کوتاہی کو ختم کر دے۔

اسے پولیس کی کوتاہی یا لاپرواہی ہی کہا جائے گا کہ کراچی میں غیر ملکی شہری بھی محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری چاہے ملکی لوگوں کی جانب سے ہو یا غیر ملکیوں کی جانب سے اس میں اصل رکاوٹ کی وجہ سیکیورٹی کی بدترین صورت حال ہے جس پر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خواہ کراچی ہو یا ملک کے دوسرے شہر بدقسمتی سے ہمارے عوام میں سماجی شعور کی کمی ہے وہ اپنی ذمے داریوں کو نہیں جانتے۔

سڑک پر چلنے یا گاڑی ڈرائیو کرنے سے لے کر اپنی حفاظت کرنے اور چور ڈاکوؤں سے محفوظ رہنے کے لیے خود حفاظتی تدابیر اور قانون کی ہدایات پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ اس سلسلے میں ہمارے شہر کراچی میں کئی سماجی اور اصلاحی تنظیمیں موجود ہیں انھیں اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں ۔کراچی کے نوجوانوں نے ایک نئی تنظیم ’’ تحریک سوچ کراچی‘‘ کے نام سے قائم کی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک کراچی کے عوام کی سوچ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کراچی کے سے لے کر

پڑھیں:

لاپتا شہری کی بازیابی کی درخواست؛ مقدمہ درخواستگزار کی مرضی سے درج کرنے کا حکم

سندھ ہائیکورٹ نے میر پور بٹھورو سے لاپتا شہری کی بازیابی کی درخواست پر درخواست گزار کی مرضی سے مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو میر پور بٹھورو سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق  درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ایس ایچ او میر پور بٹھورو سے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی؟عدالت نے لاپتا شہری کا مقدمہ درج نہ کرنے پر اظہار برہمی کیا۔

ایس ایچ او میر پور بٹھورو نے کہا کہ ہمارے پاس مقدمہ درج کروانے کوئی نہیں آیا۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے کہا کہ کیا درخواست گزار جھوٹ بول رہے ہیں؟درخواست گزار نے کہا کہ شہری زبیر شاہ تھانہ میر پور بٹھورو کی حدود سے لاپتا ہے۔ 2 دفعہ مقدمہ درج کروانے گئے لیکن مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: صحافی فرحان ملک کی مقدمہ ختم کرنے کی درخواست پر مدعا علیہان کو نوٹس جاری

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار کو فوری طور پر ساتھ لے جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ درخواست گزار کی مرضی کے مطابق شہری کی گمشدگی کا مقدمہ درج کریں اور عدالت میں کاپی جمع کروائیں۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ اس درخواست میں تھانہ میر پور بٹھورو کے ڈی ایس پی، ایس ایچ او و دیگر افسران پیش ہورہے ہیں۔ صرف ایک افسر کو پیش ہونے کا حکم دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کا حال دیکھ لیں۔ درخواست گزار 2 مرتبہ مقدمہ درج کروانے گئے لیکن مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ عدالت نے درخواست کی سماعت 30 اپریل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سے کوئی شکایت نہیں، افغان شہری وطن واپسی کی تیاری کریں، افغان قونصل جنرل
  • اسلام آباد پولیس نے شف شف سے بزرگ باباجی کا علاج کردیا، ویڈیو وائرل
  • کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے، سپریم کورٹ
  • پیٹرولیم مصنوعات میں کمی نہ ہونے پر شہری طیش میں آگئے
  • الصبح پاکستان و افغانستان میں زلزلے کی شدید جھٹکے، شہری خوفزدہ  
  • کچرے سے ملنے والی پاس بک نے شہری کو کروڑ پتی بنادیا
  • سندھ: عدالت کا گمشدگی کا مقدمہ درج نہ کرنے پر اظہارِ برہمی
  • لاپتا شہری کی بازیابی کی درخواست؛ مقدمہ درخواستگزار کی مرضی سے درج کرنے کا حکم
  • کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص، خاتون سمیت مزید 4 شہری جاں بحق
  • اسرائیلی شہری بھی غزہ میں جنگ بندی کے حامی، انوکھے طریقے سے احتجاج