Express News:
2025-02-20@19:44:08 GMT

صدر ٹرمپ اور عالمی تجارت

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

ابھی اقتدار میں آئے ہیں ٹرمپ اور انھوں نے ایسے فیصلے کردیے کہ بجائے دنیا گھومے، انھوں نے امریکا کو ہی گھما دیا۔ امریکی کالم نگاروں کی تحریروں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا کے جمہوریت پسند نئے سرے سے صف بندی کر رہے ہیں کہ یہ فاشزم ہے اور امریکا آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ٹرمپ کے پاس ہر بات کا جواب صدارتی فرمان ہے۔ ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ٹرمپ نے دنیا بھر میں USAID کی تمام امدادی کارروائیوں کو روک دیا۔ انھوں نے اس بات کا ذکر بھی کردیا ہے کہ وہ تیسری بار بھی صدارتی انتخابات لڑسکتے ہیں جس کی کوئی شق امریکا کے آئین میں موجود نہیں۔ ٹرمپ نے ایک بڑا حیران کن کام کیا جب اوول آفس میں ایلون مسک کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے وزارتِ خزانہ کا حساب کرایا۔

دنیا میں جو تجارتی جنگ چھڑگئی ہے، اس کے نتائج امریکا کے حق میں نہیں۔ غزہ کو ہتھیانے کا پلان امریکا نے بنایا تھا مگر اس پلان کی مخالفت مصر اور سعودی عرب جیسے اتحادی کر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ تاریخی اعتبار سے امریکا کا طے شدہ اتحادی تھا مگر اس وقت وہ امریکا سے کچھ فاصلے پر نظر آرہا ہے۔

ایلون مسک کے نیو یارک اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی ویلیو چار سو ارب ڈالرکم ہوگئی ہے۔ چین کے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر نے امریکا کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کو ہلا دیا ہے اور لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر ایسی امریکی کمپنیوں کے حصص گر گئے ہیں۔ ایسا گمان ہو رہا ہے کہ ٹرمپ جیسے امریکا کو دنیا میں تنہا کرنے جا رہا ہے اور مستقبل میں شاید امریکا کا واحد اتحادی اسرائیل رہ جائے گا۔

جب حکومت پر آمریت کے بادل منڈلانا شروع ہو جاتے ہیں تو عدالتیں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ امریکا میں ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کے کچھ صدارتی فرمان وہاں کی عدلیہ نے روک لیے ہیں۔ عدلیہ کے ان اقدامات پر ٹرمپ اور ان کے اتحادی ایلون مسک خاصے برہم ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے لاطینی امریکا کی ریاستوں کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ لاطینی امریکا کی ریاستوں کی حکمران بھی طیش میں ہیں۔ ایسا گمان کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک کہیں امریکا کی اشیاء کا بائیکاٹ ہی نہ کردیں۔

 اس پسِ منظر میں ایسا نظر آرہا ہے کہ دنیا کے اندر جمہوریت کو بڑے خطرات لاحق ہیں۔ چین اور روس میں تو جمہوریت نہیں ہے مگر امریکا جمہوریت پرست قوتوں کو لیڈ کر رہا تھا، مگر اس جمہوری لیڈر ملک میں خود جمہوریت ڈگمگا رہی ہے۔ دنیا میں کیپٹل ازم ایک گھناؤنی شکل اختیارکر رہا ہے اور اس کا نعم البدل اب Crony Capitalism دیکھا جا رہا ہے، جب صدر ٹرمپ الیکشن جیتے تو ایک ہی جھٹکے میں ان کے اتحادی امیر ترین شخصیات کی صف میں شامل ہوگئے۔

ایک ہی دن میں ان کی جائیداد میں ایک سو ارب ڈالرکا اضافہ ہوگیا۔لاطینی امریکا کی ایک ریاست کی خاتون حکمران نے امریکا کو یہ کھلے عام دھمکی دی ہے کہ امریکا یہ نہ سمجھے کہ ہم امریکا کے محتاج ہیں اور امریکا اس دن سے ڈرے کہ پوری دنیا امریکا کی برآمدات کا بائیکاٹ نہ کر دے۔ امریکا کی اجارہ داری اب کسی ٹیکنالوجی پر نہیں رہی، اس لیے دنیا کے سات ارب لوگ اگر امریکا کی برآمدات کا بائیکاٹ کر دیں تو امریکا کا مستقبل کیا ہوگا؟

دنیا اب تک گلوبلائزیشن کے دور سے گزر رہی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس عمل کو یقینی بنایا۔ اٹھارہویں صدی کے معاشیات کے عظیم نام Ricardo  Davis نے تھیوری دی کہ دنیا میں آزاد تجارت زیادہ ترقی کی وجہ بنے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا۔ جدید بینکنگ سسٹم ایجاد ہوا، کیش ٹرانزیکشن دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک منٹوں میں ہونے لگیں۔

ہزاروں ارب ڈالرز کی منتقلی روزانہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی جاتی ہیں ۔ اس سارے عمل سے چین نے خوب ترقی کی۔ چین نے اپنی برآمدات کی لاگت سستی رکھی، اسی وجہ سے امریکا کی انڈسٹری کو دھچکہ لگا، لٰہذا امریکا کا کنزیومر، چین سے بڑا مستفیض ہوا کیونکہ ان کو اشیاء بہت سستی ملنا شروع ہوئیں۔ امریکا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دنیا پر اجارہ داری رکھتا تھا۔ چین،گارمنٹ مینوفیکچرنگ سے خود ہی نکل گیا اور یہ کام بنگلا دیش اور ویتنام کے سپرد کیا۔ ماسوائے Chips کے ایسی کون سی چیز ہے جو چین نہیں بناتا۔

اب چین ، امریکا اور یورپ ٹکراؤ میں ہیں۔ چین جمہوری نہیں، امریکا، یورپ جمہوری ہیں، ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ٹرمپ نے چین کی اشیاء پر ٹیکس عائد کردیا ہے اور ساتھ ہی امریکی سرمایہ کار کو موقعہ بھی دیا ہے کہ وہ ان اشیاء کی مینوفیچرنگ امریکا میں کریں مگر شاید ایسا ہو نہیں پائے گا۔ دنیا میں تیسری سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ ایک تجارتی جنگ ہے۔ ماضی میں سرد جنگ امریکا اور ان کے اتحادی یعنی مغرب نے جیتی تھی کیونکہ امریکا معاشی طور پر سبقت رکھتا تھا، مگرکیا آج کی سرد جنگ امریکا جیت سکے گا؟

دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ ایک طاقت جمہوری ہے اور معاشی طور پر بڑی طاقت بھی ہے وہ ہے امریکا۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت یعنی چین جمہوری نظام تو نہیں رکھتی لیکن معاشی طور پر بڑی طاقت ہے۔ امریکا نے چین کو معاشی طور پر مضبوط کر کے، اس کی نظریاتی دوستی جو سوویت یونین کے ساتھ تھی، اس میں رخنہ ڈالا۔

سوویت یونین معاشی بحران کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے امریکا یہ سمجھا کہ چین اب نظریاتی طو ر پر روس سے الگ ہو جائے گا اور امریکا کے تعلقات چین سے بہتر رہیں گے۔ اس زمانے میں سوشلسٹ بلاک معاشی کمزوری کے باعث ٹوٹا اور پھر پتا چلا کہ کارل مارکس کی پرولتاریہ ڈکٹیٹر شپ، فردی آمریت میں تبدیل ہوئی تھی۔ کمیونزم کو مذہب بنا دیا گیا تھا اور ایسی ریاست فردِ واحد کی آمریت تھی اور ایک ہی پارٹی تھی جس کی حکومت تھی۔ سماج Plural اور Inclusiveنہ رہا۔ اس کے بر عکس ڈینگ زیاؤ پینگ، ماؤزے تنگ کے فلسفے میں ترمیم لے آئے اور کنٹرولڈ مارکیٹ اکانومی متعارف کروائی۔

امریکا اور چین دنیا کی مضبوط معیشت ہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکا کو سیاسی لحاظ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکی تاریخ میں ٹرمپ ایک ابھرتا ڈکٹیٹر ہے، وہ ایک مضبوط صدر نہیں بلکہ Crony Capitalism کی ایک شکل ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے تجارت۔ معاشرے کے لیے Plural اور Inclusive ہونا یعنی سیکیولر ہونا جو اس معاشرے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ افراد دنیاوی حقیقتوں کے پیشِ نظر مشغول رہیں، چیزیں بنائیں اور تجارت کریں۔

Ricardo  Davis نے Comparative Advantage کی تھیوری پیش کی۔ یعنی ریاست کو اندر وہ ہی چیزیں بنیں جن پر ریاست سبقت رکھتی ہے یعنی کم لاگت میں معیاری اشیاء بن سکیں اور ریاست اس بات کی حتی الامکان کوشش کرے گی ان اشیاء کو بین الاقوامی کامپٹیشن کے لیے معیاری بنایا جائے۔ ریاست صرف وہ چیزیں درآمد کرے جو وہ معیاری نہ بنا سکے۔ صدر ٹرمپ دنیا کے تجارتی نظام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟ میرے خیال میں بہت دیر ہوچکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے امریکا امریکا کی امریکا کو امریکا کے امریکا کا رہا ہے کہ امریکا ا دنیا میں بڑی طاقت ا رہا ہے دنیا کے دنیا کی ہے اور اور ان دیا ہے ا مریت

پڑھیں:

سعودی عرب میں امریکا اور روس کے درمیان اہم مذاکرات شروع

سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی ہدایات پر، مملکت سعودی عرب آج بروز منگل، 18 فروری 2025 کو دار الحکومت ریاض میں روس اور امریکا کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔

یہ مذاکرات بین الاقوامی امن و استحکام کو فروغ دینے کی مملکت کی کاوشوں کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے سعودی عرب عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مختلف علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال متوقع ہے، جن میں سیکیورٹی، اقتصادی تعاون اور جیوپولیٹیکل چیلنجز شامل ہو سکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق سعودی عرب کا یہ اقدام اس کے عالمی سفارتی اثر و رسوخ اور مصالحتی کردار کو مزید تقویت دے گا۔ اس سے قبل بھی مملکت مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مختلف فریقوں کے درمیان ثالثی کر چکا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ نے اس اہم پیش رفت کو مملکت کی مستقل پالیسی کا تسلسل قرار دیا، جس کے تحت عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تعمیری مکالمے اور سفارتی کوششوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا روس روس امریکا مذاکرات ریاض سعودی عرب

متعلقہ مضامین

  • غزہ کو نیلام کرنے کا صیہونی منصوبہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو مزاحیہ اداکار قرار دے دیا
  • 'ہماری مدد کریں' امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت 300 محصورتارکین وطن کی دنیا سے اپیل
  • یورپ کا گریہ
  • کئی معاملات میں بھارت سے اختلافات برقرار ہیں، صدر ٹرمپ
  • جاپان کی عالمی امن اور بین الاقوامی تعاون کی کوششوں سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے، وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان
  • چین اور امریکا کے درمیان پاکستان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ بلاول
  • سعودی عرب میں امریکا اور روس کے درمیان اہم مذاکرات شروع
  • چین کی اینیمشن فلم”نیزہ 2″ کا عالمی باکس آفس 12 ارب یوآن سے تجاوز کر گیا
  • ٹرمپ کا عالمی گریٹ گیم اور نیو ورلڈ آرڈر کی تیاری