Express News:
2025-02-20@20:46:45 GMT

زندہ سول سوسائٹی کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

قومیں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں ؟چند سال قبل ڈیرک ایجے مولو اور پروفیسر رابنسن کی لکھی اس کتاب نے دنیا بھر میں خوب شہرت پائی۔مصنفین نے کئی صدیوں پر محیط سیاسی ، معاشی اور معاشرتی لٹریچر کی عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اجتماعی شرکت پر استوار سیاسی اور معاشی ادارے قوموں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔

جب کہ استحصال پر استوار قومی ادارے ناکامی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔گزشتہ 50/60 سالوں کے دوران دنیا میں حیرت انگیز، انہونی اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جن معاشروں نے ان تبدیلیوں کو بروقت بھانپ لیا اور اپنے اپ کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کر لیا، وہ ترقی کی شاہراہ پر صدیوں کا سفر عشروں میں طے کر گئے۔چین ،ویتنام ،جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان قوموں کے حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں!

پاکستان کو آزاد ہوئے 76 برس ہو چکے۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بار بار زیر بحث آتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر مستقل مزاجی کے ساتھ کیوں طے نہیں کر پایا؟ معاشرے میں عدم استحکام ،عدم توازن اور انتشار کی کیفیت کیوں ہے؟ سول سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہیں، سیاست کا عمل اجتماعیت کے بجائے سیاسی خانوادوں اور ریاست کے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ سمجھوتوں پر استوار ہو گیا ہے۔

سیاسی عمل میں روپے پیسے اور سمجھوتوں کا راستہ محفوظ جب کہ اصول اور بے لچک عوامی موقف کا راستہ خارزار ہے۔اکثر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دانشور ایسی صورت حال میں قابل عمل موثر حل تجویز کیوں نہیں کرتے؟ اپنے تئیں کئی دانشور سول سوسائٹی کی رہنمائی کا کردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ کامیاب اور کچھ تاریک راہوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

اسلم گورداسپوری اسی قافلے کے ایک قابل ذکر اور روشن خیال کردار رہیں۔اوائل جوانی سے انھوں نے شاعری، عملی سیاست اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دانشور ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ’’شاعر عوام‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اسلم گورداس پوری سیاست، فلسفے ،شاعری اور عوامی حقوق کی جہد مسلسل کا منفرد اور ممتاز نام ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سیاست و سماج کے علاوہ فلسفے میں بھی ان کی گہری دلچسپی ہے۔

ان کی تازہ ترین کتاب سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کردار ان کی فکری زندگی کا نچوڑ ہے۔گزشتہ ہفتے ان کی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔( اس کتاب کو جمہوری پبلکیشنز لاہور میں شایع کیا ہے)انھوں نے یونانی اور بعد کے زمانوں کے نامی فلسفیوں ، سیاسی نظریات ، سیاسی تحریکوں اور تاریخی واقعات کے مطالعے اور غور و فکر کے بعد یہ فکر انگیز کتاب تحریر کی ہے۔

کتاب کا بیشتر حصہ سول سوسائٹی کی تشکیل اور مختلف ادوار کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس پس منظر اور جائزے کی بنیاد پر انھوں نے ایک کامیاب سول سوسائٹی کے خدو خال واضح کیے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں موجود عدم استحکام ، عدم توازن اور انتشار کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔

چند اقتباسات نمونے کے طور پر۔۔انسانی تہذیبوں کا سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال پرانا ہے۔ سول سوسائٹی کی بات کا تصور دنیا میں اس وقت پیدا ہوا جب دنیا کے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ملکوں جمہوری اقتدار کی حکمرانی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع ہوا۔ ہر چند کے وہ جمہوری نظام آج کے جمہوری نظام حکومت سے قطعی مختلف اور محدود پیمانے پر تھا۔ قدیم ایتھنز کی محدود جمہوریت کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری ریاست یا جمہوری نظام حکومت ریاست میں فکری ازادی کے بغیر ممکن نہیں۔

جمہوری معاشرے یعنی سول سوسائٹی کے لیے فلسفیوں کی طرح دانشوروں، شاعروں، مصوروں، تاریخ دانوں اور فلسفی سیاست دانوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں ہر سول سوسائٹی یا جمہوری معاشرے کے لیے سائنس دانوں اور پروفیشنل علم و تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ ان ماہرین کے زیر اثر کسی بھی معاشرے میں بادشاہی یا شخصی یا فوجی اقتدار کی ہرگز کوئی ضرورت یا گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔

دنیا میں سول سوسائٹی کے معلم اور معمار فلسفی سیاست دان ہی ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام اور اپنے معاشرے میں سیاسی معاشی ،ثقافتی اور جمہوری آزادیوں میں برابری کے اصولوں کے اقتدار اور حکومت کے اصول رکھتے ہوں عوام کی رائے کے تابع فرمان ہوں۔

فلسفی دانش وروں کے مطابق ریاست ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے متحرک ادارے ہوتے ہیں۔ سب سے افضل ریاست کا قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔دوسرے نمبر پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اس کے بعددیگر پیداواری شعبے آتے ہیں۔

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا کے مسلمانوں کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا عزت و احترام ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن میں اضافہ کرتی ہیں۔اسلم گورداسپوری کے مطالعے اور سیاسی شعور کا حاصل یہ کتاب پاکستانی سول سوسائٹی کے بنیادی مسائل کا انتہائی علمی اور تاریخی محاکمہ اور آگے بڑھنے کی دانشمندانہ تجاویز پر مبنی یے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایسی مزید کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں تاکہ سر شام ٹی وی اسکرینوں ہر سجنے والی انفوٹینمنٹ اور سوشل میڈیا پر مچی بے معنی ہاہاکار سے ہٹ کر سول سوسائٹی کی بہتر تشکیل پر غور وفکر کی نوبت آ سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سول سوسائٹی کے سول سوسائٹی کی دنیا میں ہے کہ ا

پڑھیں:

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ٹوٹ گئے خواب

(2)
باتھ رومز میں سونے کی قلعی کیے ہوئے نل، جیکوزی وغیرہ لگائے گئے۔ ان اقدامات نے سادگی کے متعلق ان کے مؤقف کی نفی کی، جس سے پارٹی کے اندر اور باہر کئی لوگ حیران رہ گئے۔بس میں دھکے کھانے والا اور نائلون کی ہوائی چپل پہننے والا کیجری وال پوری طرح روایتی سیاستدانوں کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ دہلی شہر کو کور کرنے والے صحافیوں کے لیے ایک بڑا شاک یہ تھا کہ اس سے قبل کانگریسی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشت تک ان کی رسائی نہایت ہی آسان ہوتی تھی۔ وہ اکثر خود ہی فون پر آتی تھیں، تقریباً روز ہی انہیںسیکرٹریٹ میں ملتی تھی۔ مگر کیجریوال تک رسائی نہایت ہی مشکل ہو گئی تھی۔ فون پر آناتو دور کی بات، سیکرٹریٹ میں صحافیوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ مڈل کلاس کے لیے عآپ کی کامیابی دراصل سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیداری کی ایک علامت تھی۔ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امراء کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا وہ ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا آرہا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی طرز پر اپنے اخراجات کے لیے عوام سے عطیات جمع کیے۔مگر سیاست کے ہوشربااخراجات کی وجہ سے یہ طریقہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکا۔ بھارتی سیاست کی تاریخ میں چند ہی تحریکیں ایسی ہیں جنہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیا ہو، اور عآپ ان میں نمایاں رہی ہے۔ اس کا عروج برق رفتاری سے ہوا۔مگر تکبر، اندرونی اختلافات اوربنیادی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے اس کا زوال بھی اتنا ہی ڈرامائی ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی کی جڑیں اْس زبردست اینٹی کرپشن تحریک میں پیوست تھیں جسے انڈیا اگینسٹ کرپشن (IAC) نے منظم کیا تھا۔ 2008 سے 2014 کے درمیان کانگریس کی قیادت میں چلنے والے متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے 2) حکومت کے دور میں کئی بڑے کرپشن کیسز منظر عام پر آئے، جس سے عوامی غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر سرگرم کارکنوں نے تحریک میں شمولیت اختیار کی، سماجی کارکن انا ہزارے اس تحریک کے مرکزی چہرے کے طور پر ابھرے۔ جنتر منتر پر ہزارے کی بھوک ہڑتال نے ملک گیر حمایت حاصل کی، جس میں اروند کیجریوال، پرشانت بھوشن اور کرن بیدی جیسے نمایاں کارکن بھی شامل تھے۔ اس دور میںلال کشن ایڈوانی کی قیادت میں اپوزیشن بی جے پی پے درپے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو رہی تھی۔ اسلیے راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے اس تحریک کی اعانت کی۔ ان کا خیا ل تھا کہ اس تحریک سے کسی طرح سے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے کمزور کیا جائے۔باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ چونکہ اس تحریک میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤںکا غلبہ تھا، اس لیے بھی آر ایس ایس کے لیے یہی ایک قابل قبول متبادل تھا۔ جب انا ہزارے نے 2011 میں بھوک ہڑتال کی، تو پس منظر میںبھارت ماتا کی وہی تصویر لگی تھی، جو آر ایس ایس کے دفاتر میں لٹکی ہوتی ہے۔ میانک گاندھی کے مطابق ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر نے غیر رسمی طور پر اس تحریک کی حمایت کی منظوری دی تھی۔چنانچہ نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔مگر ستمبر 2013 کو جب بی جے پی نے

گوا میں منعقد مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ایڈوانی کے بدلے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے کا اعلان کردیا، تو آر ایس ایس نے یکسوئی سے مودی کو جتانے کے لیے کمر کس لی اور انڈیا اگینسٹ کرپشن کی کوکھ سے جنمی عآپ سے قومی سطح پر کنارہ کشی اختیار کردی۔ دہلی میں شاندار جیت کے بعد عآپ نے 2014 میں قومی سطح پر پھیلنے کا فیصلہ کیا، حتیٰ کہ کیجریوال نے خود نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے الیکشن لڑا۔ مگر نتیجہ تباہ کن ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی صرف پنجاب میں چار سیٹیں جیت سکی۔ قومی سطح پر مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے بغیر اتنے بڑے انتخابی دائرے میں کود پڑنے سے اس کی کمزوریاں عیاں ہوگئی۔ ہندو قوم پرستوں نے جب ان سے کنارہ کشی اختیار کی تو مسلم طبقہ نے ان کا ہاتھ تھاما۔ مگر ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی مایوس کن رہا۔ فی الوقت بھی جن 22 سیٹوں پر عآپ نے کامیابی حاصل کی ان میں سے 8 سیٹیں مسلمانوں کے ہی دم سے جیت گئے۔ انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کی زمام معروف مصنف اور صحافی ظفر الاسلام خان کے سپرد تو کی، مگر ان کی رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں زندہ بچ جانے والوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، شمال مشرقی دہلی میں مسلم خواتین کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، اور مسلم قبرستانوں اور عیسائی قبرستانوں کے مسائل اور حیثیت کے بارے میں ان رپورٹوں کو اسمبلی میں رکھا گیا نہ کسی سفارش پر عمل کیا گیا۔ اردو اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے بار بار کی گئی درخواستوں پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ فروری 2020 میں شاہین باغ شہریت

قانون کے خلاف ایجی ٹیشن اور اس کے بعد برپا ہوئے دہلی فسادات کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ پر خاموشی نے اس دلیل کو تقویت بخشی کہ عآپ بی جے پی سے دو ہاتھ کرنے کے بجائے اس کی راہ پرنکل چکی ہے۔ دہلی فسادات کے دوران جب پولیس نے ان کے ایک کونسلر طاہر حسین کو ملزم بنا کر گرفتار کیا تو اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔ کوویڈ کے دوران ہندو قوم پرستوں نے تبلیغی جماعت اور بستی نظام الدین میں اس کے ہیڈ کوارٹر اور مسجد کو نشانہ بنایا تو کیجری وال نے اس کی جانچ کرنے کے بجائے مفسدوں کا ساتھ دیا۔ جموں و کشمیر کے سلسلے میں تو اس پارٹی کا رویہ ہی ہتک آمیز رہا۔ اگست 2019 کو اس پارٹی نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے، ریاست کو دو لخت کرکے مرکزی انتظام والا علاقہ بنانے اور ضم کرنے پر وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی حمایت کی۔ ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ عآپ اور چند دیگرعلاقائی پارٹیاں اگر اس کی مخالفت کرتیں تو اس کا پاس ہونا ناممکن تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود اروند کیجری وال دہلی اسمبلی اور اپنی حکومت کی بے اختیاری کا رونا رو کر مزید اختیارات کا مطالبہ کرتے تھے، مگر جموں و کشمیر کو بے اختیار کرنا اور اس کو دو لخت کرنا ا ن کو منظور تھا۔ اس دوہرے معیار نے ان کی قلعی مزید کھول دی۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کا ماڈل جموں کشمیر کے اس وقت کے رکن اسمبلی، فی الوقت محبوس رکن پارلیمنٹ، انجینئر رشید کی اپنے حلقہ لنگیٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔ 2010 اور پھر 2016 میں کشمیر میں انتفاضہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کے لیے جلسے جلوس تو نکالے، مگر یہ علاقہ پر امن رہا۔ (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • وژن 2030ء خواب نہیں عملی شکل اختیار کر چکا ہے: عطاء تارڑ
  • کیا امریکی “ڈیپ اسٹیٹ” بھارتی جمہوری عمل پر اثر انداز ہو رہی ہے؟
  • ڈانٹ سے تنگ 14 سالہ لڑکے نے باپ کو زندہ جلا دیا
  • ستارے اور ادھورے خواب
  • عام آدمی پارٹی کا زوال۔ٹوٹ گئے خواب
  • قرآن ہمارا عقیدہ پر ایک تبصرہ
  • غیر جمہوری اقدامات کیخلاف پر فارم پر آواز اٹھائینگے، ساجد ترین
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • کتاب ہدایت
  • تاجرکے گھر پونے 3کروڑ مالیت کی ڈکیتی