Express News:
2025-04-15@09:16:00 GMT

زندہ سول سوسائٹی کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

قومیں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں ؟چند سال قبل ڈیرک ایجے مولو اور پروفیسر رابنسن کی لکھی اس کتاب نے دنیا بھر میں خوب شہرت پائی۔مصنفین نے کئی صدیوں پر محیط سیاسی ، معاشی اور معاشرتی لٹریچر کی عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اجتماعی شرکت پر استوار سیاسی اور معاشی ادارے قوموں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔

جب کہ استحصال پر استوار قومی ادارے ناکامی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔گزشتہ 50/60 سالوں کے دوران دنیا میں حیرت انگیز، انہونی اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جن معاشروں نے ان تبدیلیوں کو بروقت بھانپ لیا اور اپنے اپ کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کر لیا، وہ ترقی کی شاہراہ پر صدیوں کا سفر عشروں میں طے کر گئے۔چین ،ویتنام ،جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان قوموں کے حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں!

پاکستان کو آزاد ہوئے 76 برس ہو چکے۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بار بار زیر بحث آتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر مستقل مزاجی کے ساتھ کیوں طے نہیں کر پایا؟ معاشرے میں عدم استحکام ،عدم توازن اور انتشار کی کیفیت کیوں ہے؟ سول سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہیں، سیاست کا عمل اجتماعیت کے بجائے سیاسی خانوادوں اور ریاست کے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ سمجھوتوں پر استوار ہو گیا ہے۔

سیاسی عمل میں روپے پیسے اور سمجھوتوں کا راستہ محفوظ جب کہ اصول اور بے لچک عوامی موقف کا راستہ خارزار ہے۔اکثر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دانشور ایسی صورت حال میں قابل عمل موثر حل تجویز کیوں نہیں کرتے؟ اپنے تئیں کئی دانشور سول سوسائٹی کی رہنمائی کا کردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ کامیاب اور کچھ تاریک راہوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

اسلم گورداسپوری اسی قافلے کے ایک قابل ذکر اور روشن خیال کردار رہیں۔اوائل جوانی سے انھوں نے شاعری، عملی سیاست اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دانشور ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ’’شاعر عوام‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اسلم گورداس پوری سیاست، فلسفے ،شاعری اور عوامی حقوق کی جہد مسلسل کا منفرد اور ممتاز نام ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سیاست و سماج کے علاوہ فلسفے میں بھی ان کی گہری دلچسپی ہے۔

ان کی تازہ ترین کتاب سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کردار ان کی فکری زندگی کا نچوڑ ہے۔گزشتہ ہفتے ان کی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔( اس کتاب کو جمہوری پبلکیشنز لاہور میں شایع کیا ہے)انھوں نے یونانی اور بعد کے زمانوں کے نامی فلسفیوں ، سیاسی نظریات ، سیاسی تحریکوں اور تاریخی واقعات کے مطالعے اور غور و فکر کے بعد یہ فکر انگیز کتاب تحریر کی ہے۔

کتاب کا بیشتر حصہ سول سوسائٹی کی تشکیل اور مختلف ادوار کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس پس منظر اور جائزے کی بنیاد پر انھوں نے ایک کامیاب سول سوسائٹی کے خدو خال واضح کیے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں موجود عدم استحکام ، عدم توازن اور انتشار کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔

چند اقتباسات نمونے کے طور پر۔۔انسانی تہذیبوں کا سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال پرانا ہے۔ سول سوسائٹی کی بات کا تصور دنیا میں اس وقت پیدا ہوا جب دنیا کے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ملکوں جمہوری اقتدار کی حکمرانی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع ہوا۔ ہر چند کے وہ جمہوری نظام آج کے جمہوری نظام حکومت سے قطعی مختلف اور محدود پیمانے پر تھا۔ قدیم ایتھنز کی محدود جمہوریت کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری ریاست یا جمہوری نظام حکومت ریاست میں فکری ازادی کے بغیر ممکن نہیں۔

جمہوری معاشرے یعنی سول سوسائٹی کے لیے فلسفیوں کی طرح دانشوروں، شاعروں، مصوروں، تاریخ دانوں اور فلسفی سیاست دانوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں ہر سول سوسائٹی یا جمہوری معاشرے کے لیے سائنس دانوں اور پروفیشنل علم و تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ ان ماہرین کے زیر اثر کسی بھی معاشرے میں بادشاہی یا شخصی یا فوجی اقتدار کی ہرگز کوئی ضرورت یا گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔

دنیا میں سول سوسائٹی کے معلم اور معمار فلسفی سیاست دان ہی ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام اور اپنے معاشرے میں سیاسی معاشی ،ثقافتی اور جمہوری آزادیوں میں برابری کے اصولوں کے اقتدار اور حکومت کے اصول رکھتے ہوں عوام کی رائے کے تابع فرمان ہوں۔

فلسفی دانش وروں کے مطابق ریاست ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے متحرک ادارے ہوتے ہیں۔ سب سے افضل ریاست کا قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔دوسرے نمبر پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اس کے بعددیگر پیداواری شعبے آتے ہیں۔

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا کے مسلمانوں کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا عزت و احترام ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن میں اضافہ کرتی ہیں۔اسلم گورداسپوری کے مطالعے اور سیاسی شعور کا حاصل یہ کتاب پاکستانی سول سوسائٹی کے بنیادی مسائل کا انتہائی علمی اور تاریخی محاکمہ اور آگے بڑھنے کی دانشمندانہ تجاویز پر مبنی یے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایسی مزید کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں تاکہ سر شام ٹی وی اسکرینوں ہر سجنے والی انفوٹینمنٹ اور سوشل میڈیا پر مچی بے معنی ہاہاکار سے ہٹ کر سول سوسائٹی کی بہتر تشکیل پر غور وفکر کی نوبت آ سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سول سوسائٹی کے سول سوسائٹی کی دنیا میں ہے کہ ا

پڑھیں:

سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت

سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے: وزیراعلیٰ مریم نواز
  • کتاب ہدایت
  • دہشت گردی، بڑا چیلنج
  • سول سوسائٹی، وکلاء اور دیگر شعبوں کے افراد کا فرحت اللّٰہ بابر کیخلاف کارروائی پر کھلا خط
  • کراچی میں ایک اور خواب سڑک پر بکھر گیا، نوجوان کی المناک موت پر ہر آنکھ اشکبار
  • سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
  • سندھ بلڈنگ کے موجودہ و سابق ڈائریکٹر جنرلز اسحق کھوڑو اور عبدالرشید سولنگی نیب کے ریڈار پر
  • نہروں پر جمہوری طریقہ سے بات نہ مانی تو حکومت چھوڑ دینگے: وزیراعلیٰ سندھ
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی