Express News:
2025-02-20@20:34:17 GMT

فلسطین برائے فروخت نہیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

 نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کردیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لیے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

امریکی صدرکے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالرکا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی تاکہ غزہ کو خالی کروا سکیں۔ 

غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہو چکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔

غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی در اصل پوری دنیا کے لیے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لیے انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی ہم دیں گے۔ اور یہ قربانی انھوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کردی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بناکر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا، امریکی بھرم باقی رہ جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکا کی بالا دستی کے خاتمے کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکزکو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔

غزہ پر قبضے کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لیے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لیے غاصب اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی؟ کیا یہ سب کچھ بغیرکسی منصوبے کے تھا ؟

آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے لٰہذا امریکی حکومت اس غزہ کے علاقے کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی لیکن آخر یہ شہرکس کے لیے بنایا جائے گا؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لیے ہیں؟ لہٰذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑکر چلے جائیں گے؟ کیا امریکی تسلط اس قدرآسان ہو گا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لیے ایک تر نوالہ نہیں ہے۔

دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکا کو انکار میں جواب دیا ہے جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنا کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لیے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔

کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں ازسر نو جنگ شروع ہوجائے جس کے لیے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کردے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکا کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات اور بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔

بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جوکئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔ فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدرکو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔

فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔اب امریکا اس میدان میں آکر غز ہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔

یہاں پر ایک نقطہ جوکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا، اگر غزہ نہیں رہا تو پھرکوئی بھی نہیں بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود ا س خطرناک کینسرکو جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

او آئی سی امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا حقیقی ترجمان ہے، اسحاق ڈار

او آئی سی ممالک کے سفیروں سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور او آئی سی کا مشترکہ ہدف عالمی امن، سلامتی اور ترقی ہے، فلسطین، کشمیر کے عوام کو ان کا حق ملنے تک پاکستان آواز بلند کرتا رہے گا۔ اسلام ٹائمز۔ نیویارک، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ او آئی سی امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا حقیقی ترجمان ہے، پاکستان مسلم دنیا کے اہم مسائل کے حل کے لیے سفارتی محاذ پرسرگرم ہے۔ او آئی سی ممالک کے سفیروں سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور او آئی سی کا مشترکہ ہدف عالمی امن، سلامتی اور ترقی ہے، فلسطین، کشمیر کے عوام کو ان کا حق ملنے تک پاکستان آواز بلند کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے مسائل کے منصفانہ حل کے بغیر عالمی استحکام ممکن نہیں، 2 ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن ممکن نہیں، بھارت اور اسرائیل جارحیت سے باز رہیں، عالمی برادری فوری اقدامات کرے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق عالمی امن کے فروغ کے لیے پرعزم ہے، عالمی برادری تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے عملی کردار ادا کرے، او آئی سی رکن ممالک کے ساتھ قریبی تعاون، ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کا دفاع پوری مسلم دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے، پاکستان فلسطینی ریاست کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کرے گا، اسرائیل کو جنگ بندی کا پابند کرنا ہوگا، عالمی برادری کردار ادا کرے۔

متعلقہ مضامین

  • بدین: پارلیمانی سیکرٹری برائے ویمن ڈیولپمنٹ ایم پی اے یاسمین شاہ منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
  • خطے میں شرانگیزی کے نتائج صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہینگے، لبنانی صدر
  • یوکرین برائے فروخت نہیں،امریکہ کومعدنیات دینے سے انکار، : صدر زیلینسکی کا ٹرمپ کو جواب
  • سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ سے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 منظور
  • اسلامی جہاد کے وفد کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟
  • غزہ فلسطینیوں کا ہے، سیاسی سودے بازی کیلئے بارگیننگ چپ نہیں، چین
  • ایلون مسک کی سرپرستی میں قائم ادارے پر ٹیکس دہندگان کی ذاتی معلومات تک رسائی کی کوششوں کا الزام ، 14 امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
  • پاکستان اور چینی وزرائے خارجہ کی نیویارک میں آج اہم ملاقات
  • او آئی سی امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا حقیقی ترجمان ہے، اسحاق ڈار