Express News:
2025-02-19@07:08:41 GMT

شاطر دماغ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

گیارہ ستمبر 2001 کو نیویارک کے مشہور و معروف ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا یہ ایک تہلکہ خیز خبر تھی جس نے دنیا کو بتا دیا کہ امریکا بھی محفوظ نہیں ہے۔ وہ طیارے جن کو ان بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرایا گیا اغوا شدہ طیارے تھے پر ملبہ گرا ان پرکہ جن کے لیے طے تھا کہ یوں کرکے اس طرح سے ثابت کرنا ہے گویا عدالت بھی ان کی وکیل بھی ان کے اور جج تو پہلے ہی ان کے تھے، بس ملزم ان کے من چاہے تھے۔

 نائن الیون کے اس حادثے میں تین ہزار کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ امریکا کا یہ حادثہ عوام کے لیے دردناک تھا لیکن منصوبہ بندی کرنے والوں کے مقاصد کا شیڈول تیار تھا، پہلے افغانستان اور پھر عراق۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیطانی منصوبے تکمیل پانے لگے۔ افغانستان پر اسامہ بن لادن کی تلاش اور عراق پر ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان صدام حسین کو پھانسی کے تختے تک لے گیا جو بھی تھا پلاننگ کرنے والا شاطر دماغ چل گیا۔

غزہ کی جنگ تھمنے کے آثار ابھرے تو سکون کی فضا سی تن گئی لیکن ابھی حالات سنبھلے بھی نہ تھے کہ شاطر دماغ پھر سے چلنے لگے۔ جنگ سے تباہ برباد ہوئے غزہ کو ایک پرانے پراپرٹی ڈیلر نے استعمال کرنا شروع کردیا، اس کی آفرز جاری ہیں۔

یہ کوئی اور نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ موصوف کا خیال غزہ کو ریزورٹ بنانے کا ہے۔ ان کے اس واٹر فرنٹ پارک بنانے کے خیال نے ایک بار پھر دنیا میں ہلچل سی مچا دی، پندرہ مہینوں سے جنگ کی صعوبتیں برداشت کرتے فلسطینیوں کے لیے ٹرمپ جیسے عجیب و غریب خیالات رکھنے والے انسان کا ایک اور عجیب خیال کس قدر اذیت ناک ہے کوئی ان کے دل سے پوچھے۔

بجائے اس کے کہ وہ ان کے زخموں پر پھاہے رکھتے، درد کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے لیکن نہیں، خالص سامراجی طاقت کے انداز میں ظلم و رعونیت سے بھرا احمقانہ خیال ان کی ذہنی استطاعت کو ظاہرکرتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں امن و سکون چاہتا ہے، خیر خواہ ہے، جیسے خیالات کا پرچار آج کے دور میں مفقود نظر آتا ہے کیونکہ ٹرمپ اپنے یہودی داماد اور ایک بڑے انویسٹر کے لیے بالآخر ایک زبردست مقام ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اس جگہ کو خالی کرانا بھلا آسان تھا۔

وہ اسرائیل نے قبضہ مافیا کے غنڈوں کی مانند جنگی جرائم کی انتہا کرتے مظلوم فلسطینیوں کو گھر بدرکروا دیا اب ان کے لٹے پٹے، ٹوٹے، برباد گھروں کو صاف کرکے ایک ایسے منصوبے کی جانب بڑھنے کی باتیں کی جا رہی ہیں کہ جس کے ذریعے نوٹ کمائے جا سکیں اب روتے پیٹتے انسانوں کا وہ کر کیا سکتے ہیں۔

ترپ چال چلنے والے ٹرمپ نے پہلے ہی امریکا میں مسلمانوں کو الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے چکر میں لیا تھا کیونکہ انھیں ووٹوں کی ضرورت تھی پر حقیقت میں وہ مسلمانوں سے خاصا عناد اور بغض رکھتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے فیصلے اخبارات میں نہ چھپتے جس میں کھل کر وہ سرزمین فلسطین کو خرید کر اپنے منصوبوں کو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔

ان کے خیال میں بہت سے فلسطینی تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں اب ان کے مکمل چھوڑنے کی باتیں اس صورت تکمیل پا سکتی ہیں کہ مصر، سعودی عرب اور دیگر مشرق وسطیٰ کی ریاستیں انھیں اپنے پاس قیام کی اجازت دے دیں۔ خاص کر سعودی عرب سے اسے مالی طور پر بڑی امداد چاہیے گویا چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔

غزہ کے لوگ اس کی آزادی کے متمنی ہیں وہ اپنے ملک اپنی زمین کو چھوڑ کر جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن جس طرح نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ آپس میں سرزمین فلسطین کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں گویا اتنے ہزاروں فلسطینی مظلومین کا جو خون بہہ چکا ہے وہ یوں ہی بے سبب تھا۔ رائیگاں چلا جائے گا لیکن ان کے غلط منصوبوں اور خیالات کو دنیا بھر میں پسند نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے ایسے نامعقول منصوبوں کو کون ذی شعور انسان پسند کرسکتا ہے۔

کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ جب سے ٹرمپ کے یہودی داماد جو بہت بڑے سرمایہ کار بھی ہیں سربیا اور البانیہ کی جنگ میں تباہ حال ملبوں کو صاف کرکے وہاں لگژری ولاز بنا رہی ہے اپنے اس منصوبے کی کامیابی کے بعد غزہ کے خوبصورت ساحل پر نظریں گاڑھے آگے کی سوچ رہے ہیں۔ بظاہر وہ کنٹرول سنبھالنے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ آج کے دور کی ایسٹ انڈیا کمپنی بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی عوام اپنے صدرکی اس سوچ پر کیا رائے رکھتی ہے، کیا واقعی مظلوموں کے ٹوٹے گھروں پر اپنے محل تیار کرنا مناسب ہے۔

اپنی عمرکی آخری بہاروں کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ڈونلڈ ٹرمپ یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ جس قدر ہو سکے امریکا کے سر پرکامیابیوں کے تاج سجانے ہیں۔ یہ ان کا ہی خیال ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے انھوں نے غزہ میں جنگ بندی کا سگنل دیا اور ان کی بڑی واہ واہ ہوئی، تاج میں ہیرا جڑا اور پھر نیتن یاہو سے ملاقات میں اپنے اور نیتن یاہو کے من کی باتیں کیں۔ بغض اور عناد سے بھری وہ باتیں جو غزہ جوڑو اور حماس توڑو کے مقولے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔

کیا ٹرمپ نیتن یاہو کی سنگت میں اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکیں گے؟ غزہ خرید کر حماس کو خاک میں ملا دینے کا ان کا منصوبہ خود خاک ہو جائے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ٹرمپ ایک برا کاروباری شخص ہے جو نہ صرف کرپٹ ہے بلکہ بدکردار بھی ہے۔

اس میں وہ تمام خامیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو بزنس کو ہر حال میں اونچا رکھنے اور اخلاقیات کو کچل دینے میں جتی رہتی ہیں۔ پھر ٹرمپ میں مذہب کارڈ کا جنون بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گو ٹرمپ کے اس منصوبے کو ناپسند کیا جا رہا ہے لیکن تاریخ کے صفحات پر شہیدوں کے خون سے لکھی داستانوں کا اختتام کیا ہوگا، کس طرح ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ ایک بات واضح ہو گئی کہ اعلیٰ کرسی اعلیٰ نسل کی ہی حق دار ہوتی ہے ورنہ ٹرمپ جیسی کیفیت ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کی باتیں رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

چیمپئنز ٹرافی کیلئےٹیم کے چندکھلاڑیوں پر اعتراض ہے لیکن نام نہیں لوں گا: شاہد آفریدی

لاہور(نیوز ڈیسک)قومی کرکٹ ٹیم کےسابق کپتان شاہد آفریدی نے بھی چمپئنز ٹرافی کے لیے اعلان کردہ قومی ٹیم پر اعتراض کردیا۔

لاہور میں ایک تقریب کے دوران میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے شاہد آفریدی نےکہا کہ اُنہیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے قومی ٹیم میں چندکھلاڑیوں کی شمولیت پر اعتراض ہے لیکن وہ ان کے نام نہیں لیں گے، ہمیں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنا ہوگا۔

شاہد آفریدی نےکہا کہ چیمپئنز ٹرافی میں ٹیمیں پوری تیاری کے ساتھ آئی ہیں، پاکستان کو فیلڈنگ، بیٹنگ اور بولنگ میں بہتر کارکردگی دکھانا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ صائم ایوب کی عدم شمولیت پر مزید بات نہیں ہونی چاہیے، جو کھلاڑی اسکواڈ میں شامل ہیں، ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، پاکستانی جھنڈے تلے سب کو متحد ہوکر اپنی ٹیم کا ساتھ دینا ہوگا۔

سابق کپتان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان آئی ہیں ، بھارت کو بھی آنا چاہیے تھا، اب جہاں بھارت کھیل رہا ہے، پاکستان کو وہاں جیتنے پر توجہ دینی چاہیے۔

اس سے قبل قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف نے بھی چیمپئنز ٹرافی کے لیے منتخب ہونے والی پاکستانی ٹیم پر اعتراض اٹھایا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام ‘ہنسنا منع ہے’ میں ہی ایک سوال کے جواب میں راشد لطیف کا کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی اسکواڈ میں شامل چھ سات کھلاڑیوں کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔

خیال رہےکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے اعلان کردہ 15 رکنی اسکواڈ میں بابر اعظم، فخر زمان، کامران غلام، سعود شکیل، اور طیب طاہر شامل ہیں جبکہ آل راؤنڈرز میں فہیم اشرف، خوشدل شاہ اور سلمان علی آغا (نائب کپتان) اسکواڈ کا حصہ ہیں۔

15 رکنی اسکواڈ میں وکٹ کیپر بیٹرز محمد رضوان (کپتان) اور عثمان خان بھی شامل ہیں۔

بولرز میں اسپنر ابرار احمد اور فاسٹ بولرز حارث رؤف، محمد حسنین، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی کو شامل کیا گیا ہے۔
مزیدپڑھیں:خیبر پختونخوا اسمبلی میں جعلی اسناد پر ملازمین کی بھرتیوں کا انکشاف

متعلقہ مضامین

  • چیمپئنز ٹرافی کیلئےٹیم کے چندکھلاڑیوں پر اعتراض ہے لیکن نام نہیں لوں گا: شاہد آفریدی
  • آرمی چیف کی کاوشیں، پاکستان کھپے اور عمرا ن نیازی
  • عافیہ صدیقی کی عدم رہائی میں حکمرانوں کا مجرمانہ کردار
  • انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں تنزلی سے دوچار
  • میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟  
  • اسٹیڈیم تو بنا دیے اب ٹیم بھی بنا دیں
  • رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ،ذخیرہ اندوزوں نے کمر کس لی
  • EOBIمیں پنشن کے حصول کے لیے محنت کشوں کو دشواریاں
  • مسلم دنیا نے فلسطین پر باتیں تو بہت کیں لیکن عملی کچھ نہیں کیا، رضا ربانی
  • کینیڈا چائنا کارڈ کھیل کر رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، چینی میڈیا