مہاراشٹر میں بھی “لو جہاد” کے خلاف قانون لانے کی تیاری
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
بھارت کی ریاست مہاراشٹر نے بھی لو جہاد کے خلاف قانون لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ بھارت بھر میں ہندو لڑکیوں کو اسلام قبول کرکے مسلم لڑکوں سے شادی کرنے سے روکنے کے لیے انتہا پسند ہندوؤں نے من مانی مچا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو ورغلاکر اُنہیں اسلام کے دائرے میں لے آتے ہیں اور شادی کرکے انہیں ہندو سماج سے دور کردیتے ہیں۔
مہاراشٹر میں کئی سال سے انتہا پسند ہندو لو جہاد کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے خراب حالات کا فائدہ اٹھاکر مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو ورغلاکر مسلم کرلیتے ہیں اور پھر اُن کے ساتھ گھر بھی بسالیتے ہیں۔ یہ سلسلہ روکا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے انتہا پسند ہندو عدالتوں کا رخ بھی کرتے ہیں۔ بے بنیاد مقدمات کے ذریعے مسلمانوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔
عدلیہ بھی انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ کے سامنے قدرے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ بعض مقدمات میں ججوں نے ایسے ریمارکس دیے ہیں جن کا انصاف کے اصولوں سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں تھا۔ بھارت کی ہندو اکثریت مقننہ، عدلیہ اور منتظمہ تینوں پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور عام ہندوؤں کو بھی مسلمانوں کے خلاف ورغلایا اور اکسایا جارہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انتہا پسند ہندو
پڑھیں:
انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ، موہالی میں کشمیری طالبہ کو ہراساں کیا
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت میں جموں و کشمیر کے طلباء پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ بھارتی شہر موہالی میں ہندوؤں نےتعلیم کی غرض سے ہاسٹل میں رہائش پذیر کشمیری طالبہ کو ہراساں کیا۔
کشمیری طالبہ نے بتایا کہ ہندوؤں نے اسکے ہاسٹل کے دروازے پر لاتیں ماریں، گالیاں دیں اور اسے دھمکیاں دیں، مجھے اور میری دوست کو حملہ آوروں سے بچنے کیلئے بھاگنا پڑا، چندی گڑھ میں کشمیری طلباء کے گروپ پر یونیورسٹی کے یونیورسل گروپ میں حملہ کیا گیا۔
ذرائع نے کہا کہ دہرادون میں "ہندو رکھشک دل" کی جانب سے ویڈیو پیغام میں کشمیریوں کو وارننگ دی گئی۔
ماہرین نے کہا کہ بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے ثابت کر دیا کہ انھیں کشمیری نہیں کشمیر کی زمین پر قبضہ چاہیے۔