ایف 35 طیاروں کی امریکی پیشکش ایک تجویز ہے، بھارتی عہدیدار
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ رواں سال بھارت کو فوجی سازوسامان کی فروخت میں اضافہ کرتے ہوئے اس کا حجم کئی ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح بھارت کو امریکی اسٹیلتھ لڑاکا طیارے F-35 فراہم کیے جانے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے کوئی مخصوص نظام الاوقات نہیں بتایا ہے لیکن غیر ملکی فوجی ساز و سامان کی فروخت بالخصوص مذکورہ جدید لڑاکا طیارے اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے عسکری معاہدوں کو حتمی شکل دینے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت بھارت زیادہ امریکی تیل اور گیس درآمد کرے گا تاکہ تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔
(جاری ہے)
دیگر شعبہ جات میں تعاون کے عزم کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن اور نئی دہلی حکومتیں مل کر'ریڈیکل اسلامک دہشت گردی‘ سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر تعاون کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی کے ساتھ جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور متعدد امور پر بات چیت بھی کی تھی۔ یہ ڈیل کب تک ممکن ہے؟بھارتی خارجہ سیکرٹری وکرم مسری نے بعدازاں صحافیوں کو بتایا کہ غیر ملکی فوجی خریداری کے لیے بھارتی حکومت کا ایک باقاعدہ ورک فلو ہے، جس کے تحت مینوفیکچررز سے تجاویز طلب کرنا اور ان کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لڑاکا طیاروں کے بارے میں امریکی صدر کا بیان صرف ایک تجویز ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''جہاں تک بھارت کے لیے کسی جدید ایوی ایشن پلیٹ فارم کے حصول کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ یہ عمل ابھی شروع ہوا ہے۔‘‘
F-35 لڑاکا طیارے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے کہا کہ بھارت کو جیٹ طیارے فراہم کیے جانے کے حوالے سے کوئی بھی بات چیت حکومتی سطح پر ہی ہو گی۔
امریکی محکمہ دفاع ایک اہم فریقواضح رہے کہ امریکہ کے دیگر ممالک کے ساتھ اس طرح کے بڑے عسکری معاہدوں بالخصوص جیٹ طیاروں کے سودوں میں امریکی محکمہ دفاع ثالث ہوتا ہے، جو متعلقہ حکومتوں کے ساتھ ڈیلز کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بھارت سن 2008 سے اب تک 20 ارب ڈالر سے زیادہ کے امریکی دفاعی سازوسامان خریدنے پر رضا مند ہو چکا ہے۔
گزشتہ سال بھارت نے امریکہ سے اکتیس ایم کیو۔ نائن بی سی گارڈین اور اسکائی گارڈین ڈرون خریدنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس ڈیل کے لیے مذاکرات کا سلسلہ چھ سال تک جاری رہا تھا۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق بھارت اگلی دہائی میں اپنی فوج کو جدید بنانے کے لیے 200 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے کی تخمینہ لگائے ہوئے ہے۔
جدید طیارے اتحادیوں کے لیےامریکی کمپنی لاک ہیڈ یہ نئے جدید جنگی طیارے تین مختلف ماڈلز میں بنا رہی ہے، جو امریکی فوج کے علاوہ اتحادی ممالک برطانیہ، آسٹریلیا، اٹلی، ترکی، ناروے، نیدرلینڈز، اسرائیل، جاپان، جنوبی کوریا اور بیلجیم کے لیے ہوں گے۔
روس کئی دہائیوں سے بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے اور اس کے لڑاکا طیارے اب بھی بھارتی فوج کا حصہ ہیں۔ تاہم یوکرین جنگ کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ماسکو کی برآمدات میں رکاوٹ آئی ہے، جس کی وجہ سے بھارت اپنی عسکری ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر مغربی ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔
روس نے بھارتی فضائیہ کے لیے اپنا ففتھ جنریشن اسٹیلتھ لڑاکا سیخوئی ایس یو ستاون بھارت میں ہی بنانے کی پیش کش کی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماسکو حکومت بھارت کے ساتھ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
روئٹرز، اے ایف پی (ع ب / ش ر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لڑاکا طیارے امریکی صدر بھارت کو کے ساتھ کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
امریکی جنگی طیاروں کا یمن پر فضائی حملہ، 5 افراد جاں بحق، متعدد زخمی
SANAA:امریکا کے جنگی طیاروں نے یمن کے صوبے صنعا میں فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
حوثی اکثریتی تنظیم انصار اللہ کے مطابق امریکی طیاروں نے صنعا کے علاقے بنی مطر میں ایک فیکٹری کو نشانہ بنایا۔
یمن کی حوثی اکثریتی تنظیم انصار اللہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے گزشتہ رات صنعا کے علاقے بنی مطر میں ایک فیکٹری کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 5 افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
انصاراللہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی طیاروں نے یمن کے صوبے صعدہ اور حدیدہ کے بھی چند علاقوں کو اپنی بمباری کا نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ یمن کے حوثی گروہ کے زیر قبضہ علاقوں پر امریکی طیاروں کے فضائی حملے جاری ہیں۔
امریکہ نے 15 مارچ سے حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا تاکہ ان کو بین الاقوامی بحری راستوں میں جہازوں کو نشانہ بنانے سے روکا جا سکے۔
حوثی باغی گروہ نے بھی غزہ پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں اسرائیل پر متعدد حملے کیے ہیں جنہیں گروہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی قرار دیتا ہے۔