اِسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔سیون/ون میں واقع مکان نمبر 5 کی ملکیت کا 1993/94 سے شروع ہونے والا تنازع اِسلام آباد کی ماتحت عدلیہ سے ہوتا ہوا گزشتہ کئی برس سے اِسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء اور فیصلے کا منتظر ہے۔

نیوزی لینڈ میں مقیم درخواست گزار کے مطابق اگست 1991 میں مذکورہ گھر باقاعدہ وصیت اور ایگریمنٹ کے بعد اُن کے والد نے اُن کو گِفٹ کیا گیا لیکن چونکہ وہ اپنے والد کی حقیقی اولاد نہیں اور اُن کے والد نے اُن کو پیدائش کے چند روز کے بعد گود لیا تھا، اِس لیے اُن کے والد کے رشتے داروں نے وراثت کے قانون کے تحت مکان پر دعوٰی کر دیا اور 1993/94 سے شروع ہونے والا تنازع ابھی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کے پاس زیرِالتواء ہے جس کی اگلی تاریخ سماعت 4 مارچ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں خواتین اور ملکیت کا فقدان

مسماۃ طاہرہ طفیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب اِس مقدمے کی سماعت کر رہے تھے اور اب یہ مقدمہ جب اپنے اختتام کے قریب تھا کہ اُنہیں جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کی سپریم کورٹ تقرری کے بارے میں پتہ چلا۔

 ’میں 32 سال سے انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہوں، میں اِس مقدمے پر وکیلوں کو فیسیں دے دے کر تنگ آ چُکی ہوں اور اب جب یہ مقدمہ اپنے اختتام کے قریب تھا کہ جج صاحب سپریم کورٹ چلے گئے، اب پھر نئے سرے سے یہ کسی جج کے پاس جائے گا پھر سے تاریخیں اور لمبا انتظار، مجھے لگتا ہے یہ میرے زندگی میں فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔‘

مسماۃ طاہرہ طفیل کے مطابق سی ڈی اے ریکارڈ میں مکان آج بھی اُن کے والد کرنل طفیل کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ لیکن مکان ہمیشہ سے اُن کے قبضے ہی میں رہا ہے اور وہی اِس مکان کا پراپرٹی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

درخواست گزار نے وی نیوز کو بتایا کہ اُن کے والد کے قانونی وارثان میں اُن کی ایک پھپھو اور بھتیجا شامل تھے۔ لیکن باقی بیش قیمت جائیدادیں دیگر ورثاء کو چلی گئیں جبکہ مذکورہ مکان اُن کے والد نے اگست 1991 میں اُن کی شادی کے فوراً بعد اُن کو دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے: چیف جسٹس بھٹو کیس کے بجائے زیر التوا مقدمات سنتے تو زیادہ اچھا ہوتا، اعجازالحق

طاہرہ طفیل کے مطابق اُن کے والد نے مکان نام کئے جانے سے متعلق ایک تحریری معاہدہ بھی دیگر وارثان کے ساتھ کیا۔ لیکن جب 1993 میں سی ڈی اے میں مکان کی ملکیت تبدیلی کے لیے گئیں تو اُن کے والد کے بھتیجے نے مکان کی تقسیم کے لئے مقدمہ کر دیا۔

طاہرہ طفیل کے مطابق سول عدالت میں اُن کی پھوپھو اور اُن کے بیٹے نے اُن کے حق میں بیان دیا تاہم سول عدالت نے مذکورہ بیانات کا ذکر نہ کرتے ہوئے فیصلہ اُن کے خلاف کر دیا۔ اور اُس کے بعد سے یہ مقدمہ اِسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِالتواء ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس میاں گ ل حسن اورنگزیب ا ن کے والد نے ا سلام ا باد کے مطابق

پڑھیں:

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات

سپریم کورٹ : فوٹو فائل

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد نے ملاقات کی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد کی آئی ایم وفد سے ملاقات سوا گھنٹہ جاری رہی، سپریم کورٹ بار کے وفد میں میاں رؤف عطا اور ممبر پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا شامل تھے۔

ملاقات میں محمد اورنگزیب خان، میر عطاء اللّٰہ لانگو صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بلوچستان موجود تھے۔

بار ایسوسی ایشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف وفد سے کرپشن کے خاتمے، بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پر بات ہوئی۔

آئی ایم ایف وفد کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟ نور عالم کا سوال، خواجہ آصف کا جواب

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ بتایا جائے کہ آئی ایم ایف کا وفد کس حیثیت میں، کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟

وفد کو ججز کی کم تعداد اور ثالثی نظام کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا، قانونی اصلاحات اور گڈ گورننس پر بھی تبادلہ خیال ہوا، صدر سپریم کورٹ بار نے عدلیہ میں احتساب کے نظام کی تفصیلات سے وفد کو آگاہ کیا۔

اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف وفد کے ساتھ قانونی اصلاحات اور گڈ گورننس پر بھی تبادلہ خیال ہوا، آئی ایم ایف وفد سے ملاقات خوشگوارماحول میں ہوئی، حکومتی محکموں میں بدعنوانی کے خاتمے اور قانونی اصلاحات کے نفاذ کے امور زیر بحث آئے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے مالیاتی جرائم کے خاتمے کیلئے سخت اقدامات پر زور دیا، صدر بار ایسوسی ایشن نے نشاندہی کی کہ عدالتی نظام میں سزا و جزا کا نظام پہلے سے موجود ہے، سپریم جوڈیشل کونسل اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف شکایات کا ازالہ کرتی ہے، متعلقہ ہائیکورٹس ضلعی ججوں سے متعلق معاملات کو دیکھتی ہیں۔

آئی ایم ایف وفد ججوں سے نہیں، چیف جسٹس سے ملا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملاقات میں آئی ایم ایف والے کسی مقدمے کا پوچھنے نہیں گئے ، ان کی حدود نہیں کہ کیسز کے میرٹ پر بات کریں۔

اعلامیے کے مطابق صدر سپریم کورٹ بار نے قانون کی حکمرانی کو ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد قرار دیا،  آئین، اداروں کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے غیر متزلزل وابستگی پر زور دیا۔

ملاقات کے اختتام پر دونوں جانب سے اظہارِ تشکر اور مستقبل میں مزید ملاقاتوں کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

خیال رہے کہ چند روز پہلے آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • جب کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیسا، منصور علی شاہ
  • سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات
  • ڈر کیوں ہو؟ جب ریفرنس آئے گا تب دیکھا جائے گا: جسٹس منصور علی شاہ
  • جب کچھ غلط کیا ہی نہیں تو اپنے خلاف ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، جسٹس منصور
  • کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے، جسٹس منصور علی شاہ
  • سپریم کورٹ کے 6 مستقل اور 1 قائم مقام جج نے حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے نئے ججز نے حلف اٹھا لیا
  • سپریم کورٹ:نئے ججز کی تقریب حلف برداری منسوخ
  • سپریم کورٹ میں 6 نئےججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری