لزبن میں صادق سنجرانی کی پرنس رحیم آغا خان سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
فوٹو بشکریہ سوشل میڈیا
سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پرتگال کے شہر لزبن میں اسماعیلی کمیونٹی کے موجودہ روحانی پیشوا پرنس رحیم آغا خان سے ملاقات کی ہے۔
پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔
ملاقات کے دوران صادق سنجرانی نے پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی انسانیت کے لیے زندگی بھر کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
اس موقع پر صادق سنجرانی نے کہا کہ پاکستان ایک سچے اور عظیم انسان دوست شخصیت سے محروم ہونے پر سوگوار ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسانیت کے لیے مرحوم پرنس کریم آغا خان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
گم کردہ قصے کی تلاش
شاعرنے کہا تھا:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی
پہلے گھڑی احتساب کے خیال اور اظہار کا بیانیہ تھی۔ اس احساس زیاں کو پوری سنجیدگی سے زیر غور لاتی ہوئی کہ عمر کی کتنی گھڑیاں عبادت الٰہی اور احکامات الٰہی کی اطاعت کے بغیر ضائع ہو گئیں۔ اب ہاتھوں میں گھڑیاں ہیں، دیواروں پر گھڑیاں ہیں، ٹی وی اسکرین سے لے کر کمپیوٹر کی اسکرین تک ہر سُو گھڑیاں ہی گھڑیاں ہیں لیکن ان کا استعمال ٹائم کیپر کی طرح ہے۔ اب کلینڈرز ہیں جن سے ولادت اور موت کی تاریخیںتو معلوم ہوتی ہیں، فنا اور بقا کو معانی فراہم نہیں ہوتے۔ بے معنی ڈھیروں اپائنٹ منٹس ہیں، ڈرامے کے کرداروں کی ملاقاتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے، کسی بڑی کہانی اور جامع تصور سے جن کا کوئی تعلق نہیں۔ اب معلومات اور خبر نامے ہیں جنہوں نے انسانوں کو خبروں تک رسائی کا عادی ہی نہیں قیدی بنادیا ہے جن میں ہر معلوم اور نا معلوم شے کو قیاسوں، جھوٹوں، مفروضوں، سیاست اور اغراض کے شورو غوغا کے بوجھ تلے اس طرح دبا دیا جاتا ہے کہ تصویر زندگی، زندگی کی سچائیوں کے برعکس نظر آتی ہے۔
سیدنا آدم ؑ اور اماں حواؑ کا قصہ انسان کے کرۂ ارض پر قیام کا محض قصہ ہی نہیں زندگی کے آغاز وانجام کی عملی اہمیت اور مقصدیت کا بیان بھی ہے کہ کس طرح انسان شیطان کی فریب دہی کا شکار ہوکر گناہ کا مرتکب ہوا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے معافی ملنے کے بعد اس کی رضا اور عطا سے زمین پر اُتارا گیا جہاں اس کے اعمال گناہ اور ثواب کی صورت میں ڈھل کر یوم حشرجزا اور سزا کی ترازو میں تل کر ابدی جنت اور جہنم کے نتیجے میں ایک نئی زندگی کو وجود بخشیں گے۔ اس سچائی اور ازلی اور ابدی حقیقت پر جب نٹشے نے یہ کہہ کر حملہ کیا کہ God is dead تو ملحدین نے اس واقعے کا ہی انکار نہیں کیا مذہب کی ضرورت کا بھی انکار کردیا لیکن وہ انسانوں کے سامنے کوئی ایسا حقیقی تو درکنار غیر حقیقی واقعہ بھی پیش کرنے سے قاصر رہے جو آدم وحوا کے قصے کی طرح ان کی زندگی کا رُخ متعین کرسکے۔ جس کی چھائوں میں انسانیت رہ سکے۔ اب ہمارے چاروں طرف کتابوں میں فلموں میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں، واقعات ہی واقعات ہیں، قصے ہی قصے ہیں لیکن وہ سب یہ بتانے سے قاصر ہیںکہ انسان کیوں زندہ رہے؟ ان کے پاس ایسا کوئی بڑا بیانیہ نہیں جو زندگی پر اعتماد دے سکے۔ پیدا ہونے کے بعد اگر انسان کو مرنا ہی ہے، وہ بیمار ہورہا ہے، حادثات کا شکار ہورہا ہے، زندگی کی مشکلات جھیل رہا ہے اور آخر آخر قبروں میں جارہا ہے تو پھر وہ زندہ کیوں رہے؟ زندگی کی مصیبتیں کیوں اٹھائے؟ آدم ؑ اور حواؑ کے قصے کی سچائیوں میں ان سب سوالات کے جواب موجود ہیں لیکن بندر سے بن مانس اور بن مانس سے انسان بننے سے جو زندگی وجود میں آرہی ہے اس کے پاس ایسا کوئی قصہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ملحدین اپنی پوری تاریخ میں ایسی کوئی کہانی اور قصہ بیان کرنے سے قاصر رہے۔ اب جب کہ ڈارون کی تھیوری اور الحاد اپنی طبعی موت مررہا ہے وہ آج بھی کہانی کی تلاش میں ہیں۔
آج لوگوں کے پاس گھڑیاں ہیں موسموں سے لطف اندوز ہونے کا وقت نہیں ہے، ان کے پاس اپائنٹ منٹس ہیں لیکن انہیں کسی سے ملنا نہیں ہے۔ زندگی بے مقصدیت کے سپرد کرکے شام کو ایک خبر نامہ دے دیا گیا ہے جن میں سرمایہ دارانہ فکر حال اور مستقبل کی ہر ضرورت کو بنیاد فراہم کرتی، سچائیوں کو چھپاتی غیر ضروری بے معنی معلومات ایسے دماغوں میں اتارتی ہے جو روزانہ وائٹ بورڈ کی طرح ہوتے ہیں جن کے اندر کچھ نہیں جاتا۔ بے مقصد زندگی ایونٹس، تہواروں، قومی دنوں اور کھیلوں کی تقریبات کے ہمراہ گزاری جارہی ہے جن میں ذہانت، بالغ نظری اور خیر کا فقدان ہوتا ہے۔ آج کرسمس ایک بین الاقوامی تہوار اور جشن منانے اور تعطیلات کے شب وروز ہیں جس سے عیسائیت اور سیدنا عیسی ؑ کی زندگی اور تعلیمات پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ یہ مغرب اور ملحد دنیا کی سب سے بڑی خوشی اور تہوار ہے اور وہ بھی مذہب سے مستعار لی گئی ہے۔ مسلمانوں کے پاس مذہب کے حوالے سے بہت کچھ ہے۔ عیدالفطر ہے، عیدالا ضحیٰ ہے، رمضان کے روزے ہیں، افطار اور سحری کی خوشی ہے، میلاد النبی ہے، محرم ہے، معراج، پندرہ شعبان کی رات اور لیلۃ القدر ہے، تاریخی واقعات ہیں، عرس کی تقریبات ہیں، غرض پورا سال زندگی، مذہب کے حوالے سے گزاری اور جانچی تولی جاتی رہتی ہے اور مسلمانوں کو سرگرم رکھتی اور ان کی زندگیوں کو معنی دیتی ہے۔
مغرب اور بقیہ غیر مسلم دنیا کے پاس چونکہ یہ سب کچھ نہیں ہے تو انہوں نے انسانوں کو خبروں اور معلومات کے سمندروں کے بہائو کے سپرد کردیا۔ صبح اٹھتے ہی یہ خبر دی جائے کہ آج درجہ حرارت کتنا ہے، سڑکوں پر کہاں کہاں رش اور ٹریفک جام ہے، آج چھٹی ہے یا نہیں ہے، آج ماں کا دن ہے، کل باپ کا دن ہے، پرسوں استادوں کا دن ہے، کون سا دن کس طبقے کے نام ہے، کہاں کہاں سیل لگی ہے اور اس میں کتنا ڈسکائونٹ دیا جارہا ہے۔ سرمایہ داریت نے اپنے معاشروں کو صارفین کے معاشرے بنا دیا اور پھر خود ہی اعلان کردیا کہ صارفین کوئی معاشرہ اور سوسائٹی ترتیب نہیں دے سکتے۔ آدم ؑ اور حواؑ کا وہ عظیم واقعہ اور عظیم بیانیہ جو زندگی کو معانی دیتا تھا جدید انسانوں نے اس واقعے کو فراموش کردیا ہے اس بیانیے کو کھودیا ہے۔ وہ بے بسی کے ساتھ روزمرہ کی معلومات اور روزمرہ کے خبر ناموں کو اپنی سماعتوں میں انڈیلتے ہیں، علی الصباح بے بسی سے بستروں سے اٹھتے ہیں، بے بس مصروفیات میں دن گزارتے ہیں اور رات کو بستروں پر چلے جاتے ہیں۔ روزمرہ کی مصروفیات اور معلومات کے جنگل میں آج کا انسان اس گم کردہ واقعہ کو تلاش کررہا ہے۔
خبروں کی پیش کش کو دیکھیے، ایک طرف نیوز ریڈر خبریں پڑھ رہا ہے، نیچے ٹکرز کی دو دو لائنیں چل رہی ہوں گی، ہر طرف سے خبروں کی یلغار آپ کی سمت ہے لیکن گھنٹوں خبریں دیکھنے اور پوری معلومات حاصل کر لینے کے بعد بھی آپ کورے ہی رہتے ہیں۔ آپ کسی حل تک نہیں پہنچ سکتے، آپ کوئی دانشور اور اسکالر نہیں بن سکتے۔ آپ کوئی بڑی اور اندر کی بات نہیں جان سکتے۔ جب تک انسان مذہب سے جڑا تھا وہ کائنات کا مرکز تھا آج محض ایک سی وی ہے۔ آج کا انسان ایک ڈیٹا سیٹ ہے، وہ اٹھتا کب ہے، سوتا کب ہے، اس کی آمدنی اور تنخواہ کتنی ہے، اس کا بینک بیلنس کتنا ہے، اس کے پاس گاڑی کون سی ہے، گاڑی کا ماڈل اور نمبر کیا ہے، شناختی کارڈ نمبر کیا ہے، اکائونٹ نمبر کیا ہے، ڈیبٹ کارڈ نمبر کیا ہے، اس کی برتھ ڈے کب ہے، ماہانہ اخراجات کتنے ہیں، غرض آج کا انسان جسم اور روح کے تعلق سے زیادہ اعداد کا مجموعہ اور ڈیٹا سیٹ ہے۔ وہ علم الاسماء جو عظیم قصے میں انسان کو سکھائے گئے تھے فراموش کیے جارہے ہیں پورا معاشرہ اور زندگی اعداد کے سپرد ہورہی ہے۔ اعداد کے آنے کے بعد اب حروف بھی اٹھتے جارہے ہیں اور ایموجی کی تصویری شکلوں کے ذریعے جذبات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بچوں کے کاٹون دیکھیں ان میں بھی کہانی عنقا ہے۔ مذہبی بیانیہ میں ہر آدمی اپنی جنت اور جہنم خود تخلیق کرتا ہے مگر آج جس غیر مذہبی بیانیہ میں ہم جی رہے ہیں سب کے خواب ایک جیسے ہیں۔ سب کو کسی بڑی سوسائٹی میں عالی شان گھر چاہیے، پرتعیش کار چاہیے، پہننے کے لیے برانڈڈ کپڑے چاہییں، مخصوص ملکوں اور مخصوص درس گاہوں میں اعلیٰ تعلیم چاہیے۔ سارے خواب دنیا کے حوالے سے ہیں۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا فرد بنو اور منفرد بنو وہ خیال بھی فراموش کردیا گیا ہے۔ آدم وحوا کے ایک قصے کو فراموش کرنے سے آج کے انسان کو کیا کیا فراموش کرنا پڑرہا ہے؟؟