ہندو میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط کب طے ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) پچیس سالہ رادھیکا (فرضی نام) کا تعلق پشاورکے ایک ہندو خاندان سے ہے۔ ان کی شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پشاورکے ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔رادھیکا اپنی شادی شدہ زندگی سے مطمئن ہیں لیکن شادی کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکرمند رہتی ہیں۔
رادھیکا کہتی ہیں، ''یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ایک لاکھ دس ہزار شادی شدہ خواتین کا مسئلہ ہے کہ ان کی شادیوں کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس وجہ سے بہت سارے گھروں میں اختلافات جنم لے رہے ہیں۔ اگر میاں بیوی کے مابین کوئی اختلاف ہو جائے، تو تو یہاں ایسا کوئی فورم نہیں، جہاں ہم اپنا مسئلہ لے کر جائیں اور وہاں سے ہمیں انصاف ملے۔(جاری ہے)
‘‘اقلیتوں نے قیام پاکستان میں کردار ادا کیا، لیکن انہیں کیا ملا؟
بھارتی ریاست آسام میں مسلم میرج لاء منسوخ، مسلمانوں کی طرف سے تنقید
پاکستان میں نچلی ذات کے ہندو مناسب نمائندگی سے محروم کیوں؟
رادھیکا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل گورنر ہاوس پشاور میں خدمات سرانجام دے رہی ہے لیکن پرداد جو کام کرتے تھے آج ان کے پڑپوتے اور نواسے بھی وہ کام کر رہے ہیں۔
انہیں کسی قسم کی ترقی نہیں ملی۔ انہوں نے بتایا، ''شادی کے اندراج سے متعلق قوانین نہ ہونے کی وجہ سے شوہر اگر فوت ہو جائے تو سسرال والے سونا، چاندی، نقدی اور جہیز کا سارا سامان اپنے پاس رکھ کر عورت کو اس کے والدین کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ قانون بن جائے تو ہمیں بھی سسرال میں تحفظ مل جائے گا، جو 75 سال سے نہیں ہو سکا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ پختون روایات کی وجہ سے بھی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ گھر سے باہر نہ جانے کا کہا جاتا ہے، ہندو لڑکیاں پڑھنے کے باوجود گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔رادھیکا کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔ ان کی شادی کچھ عرصہ قبل انیل موہن سے ہوئی۔ رادھیکا اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن اور ہندو کمیونٹی کے لیے دیگر قوانین کی وجہ سے انہیں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
''یہ بات نہیں کہ مجھے کسی چیز کی کمی ہے لیکن میں ایک طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن، وراثت، بچوں کی تعلیم، ملازمت میں مخصوص نشستوں کی کمی اور ترقی کے محدود مواقع جیسے مسائل میری اور میرے جیسی دیگر ہندو خواتین کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ میرے پاس تو کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں اور یہاں خیبر پختونخوا میں ہندو لڑکیوں کو شادی نبھانے کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘رادھیکا کا کہنا کہ ان کے شوہر انیل گورنر ہاؤس پشاور میں ملازم ہیں اور گھر کے واحد کفیل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ ملازمت ان کے پردادا کی وجہ سے ہے، جو اس وقت وہاں دھوبی تھے۔ پھر ان کا بیٹا، یعنی انیل کے دادا اور پھر ان کے والد اور اب انیل وہی کام کر رہے ہیں۔ چار پیڑیوں سے جاری ملازمت میں کسی کو بھی آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا۔
رادھیکا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم چھ بہنیں ہیں، خود اندازہ کر لیں کہ ان سب کی شادی بیاہ، صحت اور تعلیمی اخراجات کس طرح پورا ہوتے ہیں۔ اگر ایسے میں میری کسی بہن کی ازادواجی زندگی میں کوئی مسئلہ آ جائے تو ہم کہاں جائیں؟ اگر ہندو میرج ایکٹ کے قوانین پر عملدرآمد ہوتا تو کم از کم ہندو لڑکیوں کی ازدواجی زندگی پرسکون ہو جاتی۔
انہیں گھر کی نوکرانی سمجھنے اور معمولی باتوں پر طلاق دینے کے واقعات میں کمی آتی۔ لیکن 75 سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہندو برادری بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔‘‘اپنی ایک قریبی رشتہ دار کی روداد سناتے رادھیکا نے بتایا کہ نو سال ازدواجی زندگی کے بعد ایک دن انہیں ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔
وہ اب کہاں جائے؟ قانون نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس اپنی شادی کو ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ وہ کسی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتی۔اسے ایک فوٹو اسٹیٹ اسٹامپ پیپر پر طلاق لکھ کر ہاتھ میں تھما کر گھر سے نکال دیا گیا۔اسے والدین کی طرف سے جہیز میں جو کچھ دیا گیا، وہ سسرال والوں نے رکھ لیا۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ میں تاخیر کی وجوہاتقیام پاکستان کے 70 برس بعد 2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہندو میرج ایکٹ پاس کیا گیا، جس پر صوبے میں آباد ہندو برادری نے اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن ان کی یہ خوشی وقتی ثابت ہوئی، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایکٹ پاس ہونے کے بعد قواعد و ضوابط بنانے میں مزید دس سال لگ سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔
معاملات محکمہ قانون اور لوکل گورنمنٹ کے مابین چلتے رہے۔ تاخیر کی وجہ سے ہندو برادری میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندو میرج ایکٹ کے مقاصد میں برادری کی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے، طلاق، میاں بیوی کے حقوق کا تعین، وراثت کو یقینی بنانے اور تحفظ فراہم کرنا شامل ہیں۔ ہندوبرادری کی جانب سے آگاہی مہمہندو میرج کے لیے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو نے ہندو اسکالر اور نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن کے رکن ہارون سرب دیال سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں دو سے پانچ ملین ہندو آباد ہیں جب کہ خیبر پختونخوا کے ہر ضلعے میں ہندو رہائش پذیر ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 55 ہزار شادی شدہ جوڑوں کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ریاست کے پاس ان شادیوں کو تسلیم کرنے کا کوئی سسٹم نہیں۔ حال ہی میں نیشنل لابنگ ڈی لیگشن کے وفد نے پشاور کا دورہ کرکے یہاں قانون ساز اداروں کے حکام اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ یہ ایکٹ تو پاس کیا گیا لیکن جب تک قواعد و ضوابط نہیں بنائے جاتے، اس وقت تک ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
ڈی ڈبلیو نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ایک خاتون سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ریاست کی جانب سے تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے شادی شدہ لڑکیوں کو سسرال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے شوہر بھی ملازمت کرتے تھے فوت ہو گئے تھے، مگر ہمیں کچھ نہیں ملا۔ یہاں تک کہ ان کی پینشن بھی روک دی گئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے 200 ممالک میں ہندو آباد ہیں۔
دیگر اقلیتی برادری کے لوگوں کو بعض ممالک سے امداد ملتی ہے لیکن ہندو برادری کے لیے کسی بھی مد میں کوئی مدد نہیں کرتا۔پاکستان کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن فار مینارٹی کے وفد نے پشاور کا دورہ کیا۔ اس وفد نے محکمہ قانون اور بلدیات کے اعلیٰ حکام سمیت صوبائی اسمبلی کے ارکان سے ہندو میرج ایکٹ کے لیے قواعدوضوابط بنانے پر کام تیز کرنے کامطالبہ کیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہندو میرج ایکٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا خیبر پختونخوا کا سامنا ہے رہائش پذیر کی جانب سے کہنا تھا ہیں اور کی شادی کے لیے
پڑھیں:
دو صوبوں میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی مگر ہم سیاسی دھندوں میں الجھے ہیں، فضل الرحمان
دو صوبوں میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی مگر ہم سیاسی دھندوں میں الجھے ہیں، فضل الرحمان WhatsAppFacebookTwitter 0 13 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہمارے دو صوبے انتظامی لحاظ سے پاکستان سے کٹ چکے ہیں جہاں حکومتی رٹ نہیں، مگر اسلام آباد کے سیاسی دھندوں سے ہم فارغ ہوں گے تو ملک کیلئے سوچیں گے۔پی ایف یو جے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آمروں نے ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ سب سے سے پہلے میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ حکومت صحافیوں کیلئے ضابطہ اخلاق نہ بنائے صحافی خود بنائیں، یقین ہے صحافی خود اپنے لئے ضابطہ اخلاق بنائیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہر ڈکٹیٹر نے آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ پر شب خون مارا، چھبیسویں ترمیم کے نام پر آئین پر جو شب خون مارا گیا ہم نے اس کا مقابلہ کیا، عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی، ملٹری کورٹس بناکر عدلیہ کو لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی، 26 ویں ترمیم کی 56 شقیں تھیں، ہم نے حکومت کو باقی شقوں سے دست بردار کرایا اور انہیں صرف 22 شقوں پر لے آئے مگر دوتین مہینے کی منصوبہ بندی کے بعد پھر کچھ لوگ انسٹال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر نئے قانون کے نفاذ میں مشکلات آتی ہیں لیکن ان کی اصلاح کی جاتی ہے، ججز یا چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کردار پوری دنیا میں ہے، 18ویں ترمیم میں آئین میں چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار ڈالا گیا، ایک چیف جسٹس کی دھمکی سے یہ اختیار 19ویں ترمیم کے ذریعے نکالا گیا ملٹری کورٹس کے حوالے سے جب وہ آئین میں اپنی بات نا منوا سکے تو ایکٹ میں لے آئے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو دوبارہ لڑانے کی کوشش بھی کی گئی، ہمارے دو صوبے انتظامی لحاظ سے پاکستان سے کٹ چکے ہیں ان دو صوبوں میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں شام ہوتے ہی وہاں مسلح گروہ معاشرے کو کنٹرول کررہے ہیں مگر اسلام آباد کے سیاسی دھندوں سے ہم فارغ ہوں گے تو ملک کیلئے سوچیں گے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری کچھ قوتوں کو صرف اپنی اتھارٹی کی پروا ہے، ملٹری ہو یا ملیٹنٹ اسے عوامی رائے سے کوئی دلچسپی نہیں، ملک میں پارلیمنٹ کے کردار کو ختم کیا جارہا ہے، جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، ڈمی نمائندے عوام کا کیس نہیں لڑسکتے،جہاں جہاں سے جے یو آئی کا نمائندہ منتخب ہوا وہاں امن تھا۔ سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ کے حوالے سے علی اعلان صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں پیکا ایکٹ پھیکا ایکٹ ہے، یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی بقا ہمارے لئے ضروری ہے، طاقت مردہ باد، عدالت زندہ باد ہم قدم بہ قدم صحافیوں کے ساتھ چلیں گے۔