UrduPoint:
2025-04-15@08:58:15 GMT

ہندو میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط کب طے ہوں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

ہندو میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط کب طے ہوں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) پچیس سالہ رادھیکا (فرضی نام) کا تعلق پشاورکے ایک ہندو خاندان سے ہے۔ ان کی شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پشاورکے ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔رادھیکا اپنی شادی شدہ زندگی سے مطمئن ہیں لیکن شادی کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکرمند رہتی ہیں۔

رادھیکا کہتی ہیں، ''یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ایک لاکھ دس ہزار شادی شدہ خواتین کا مسئلہ ہے کہ ان کی شادیوں کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس وجہ سے بہت سارے گھروں میں اختلافات جنم لے رہے ہیں۔ اگر میاں بیوی کے مابین کوئی اختلاف ہو جائے، تو تو یہاں ایسا کوئی فورم نہیں، جہاں ہم اپنا مسئلہ لے کر جائیں اور وہاں سے ہمیں انصاف ملے۔

(جاری ہے)

‘‘

اقلیتوں نے قیام پاکستان میں کردار ادا کیا، لیکن انہیں کیا ملا؟

بھارتی ریاست آسام میں مسلم میرج لاء منسوخ، مسلمانوں کی طرف سے تنقید

پاکستان میں نچلی ذات کے ہندو مناسب نمائندگی سے محروم کیوں؟

رادھیکا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل گورنر ہاوس پشاور میں خدمات سرانجام دے رہی ہے لیکن پرداد جو کام کرتے تھے آج ان کے پڑپوتے اور نواسے بھی وہ کام کر رہے ہیں۔

انہیں کسی قسم کی ترقی نہیں ملی۔ انہوں نے بتایا، ''شادی کے اندراج سے متعلق قوانین نہ ہونے کی وجہ سے شوہر اگر فوت ہو جائے تو سسرال والے سونا، چاندی، نقدی اور جہیز کا سارا سامان اپنے پاس رکھ کر عورت کو اس کے والدین کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ قانون بن جائے تو ہمیں بھی سسرال میں تحفظ مل جائے گا، جو 75 سال سے نہیں ہو سکا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ پختون روایات کی وجہ سے بھی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

گھر سے باہر نہ جانے کا کہا جاتا ہے، ہندو لڑکیاں پڑھنے کے باوجود گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔

رادھیکا کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔ ان کی شادی کچھ عرصہ قبل انیل موہن سے ہوئی۔ رادھیکا اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن اور ہندو کمیونٹی کے لیے دیگر قوانین کی وجہ سے انہیں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

''یہ بات نہیں کہ مجھے کسی چیز کی کمی ہے لیکن میں ایک طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن، وراثت، بچوں کی تعلیم، ملازمت میں مخصوص نشستوں کی کمی اور ترقی کے محدود مواقع جیسے مسائل میری اور میرے جیسی دیگر ہندو خواتین کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ میرے پاس تو کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں اور یہاں خیبر پختونخوا میں ہندو لڑکیوں کو شادی نبھانے کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔

‘‘

رادھیکا کا کہنا کہ ان کے شوہر انیل گورنر ہاؤس پشاور میں ملازم ہیں اور گھر کے واحد کفیل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ ملازمت ان کے پردادا کی وجہ سے ہے، جو اس وقت وہاں دھوبی تھے۔ پھر ان کا بیٹا، یعنی انیل کے دادا اور پھر ان کے والد اور اب انیل وہی کام کر رہے ہیں۔ چار پیڑیوں سے جاری ملازمت میں کسی کو بھی آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا۔

رادھیکا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم چھ بہنیں ہیں، خود اندازہ کر لیں کہ ان سب کی شادی بیاہ، صحت اور تعلیمی اخراجات کس طرح پورا ہوتے ہیں۔ اگر ایسے میں میری کسی بہن کی ازادواجی زندگی میں کوئی مسئلہ آ جائے تو ہم کہاں جائیں؟ اگر ہندو میرج ایکٹ کے قوانین پر عملدرآمد ہوتا تو کم از کم ہندو لڑکیوں کی ازدواجی زندگی پرسکون ہو جاتی۔

انہیں گھر کی نوکرانی سمجھنے اور معمولی باتوں پر طلاق دینے کے واقعات میں کمی آتی۔ لیکن 75 سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہندو برادری بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔‘‘

اپنی ایک قریبی رشتہ دار کی روداد سناتے رادھیکا نے بتایا کہ نو سال ازدواجی زندگی کے بعد ایک دن انہیں ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔

وہ اب کہاں جائے؟ قانون نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس اپنی شادی کو ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ وہ کسی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتی۔اسے ایک فوٹو اسٹیٹ اسٹامپ پیپر پر طلاق لکھ کر ہاتھ میں تھما کر گھر سے نکال دیا گیا۔اسے والدین کی طرف سے جہیز میں جو کچھ دیا گیا، وہ سسرال والوں نے رکھ لیا۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

ہندو میرج ایکٹ میں تاخیر کی وجوہات

قیام پاکستان کے 70 برس بعد 2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہندو میرج ایکٹ پاس کیا گیا، جس پر صوبے میں آباد ہندو برادری نے اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن ان کی یہ خوشی وقتی ثابت ہوئی، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایکٹ پاس ہونے کے بعد قواعد و ضوابط بنانے میں مزید دس سال لگ سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔

معاملات محکمہ قانون اور لوکل گورنمنٹ کے مابین چلتے رہے۔ تاخیر کی وجہ سے ہندو برادری میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندو میرج ایکٹ کے مقاصد میں برادری کی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے، طلاق، میاں بیوی کے حقوق کا تعین، وراثت کو یقینی بنانے اور تحفظ فراہم کرنا شامل ہیں۔ ہندوبرادری کی جانب سے آگاہی مہم

ہندو میرج کے لیے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو نے ہندو اسکالر اور نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن کے رکن ہارون سرب دیال سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں دو سے پانچ ملین ہندو آباد ہیں جب کہ خیبر پختونخوا کے ہر ضلعے میں ہندو رہائش پذیر ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 55 ہزار شادی شدہ جوڑوں کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ریاست کے پاس ان شادیوں کو تسلیم کرنے کا کوئی سسٹم نہیں۔

حال ہی میں نیشنل لابنگ ڈی لیگشن کے وفد نے پشاور کا دورہ کرکے یہاں قانون ساز اداروں کے حکام اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ یہ ایکٹ تو پاس کیا گیا لیکن جب تک قواعد و ضوابط نہیں بنائے جاتے، اس وقت تک ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں دیگر صوبوں سے آگے ہے۔

ڈی ڈبلیو نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ایک خاتون سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ریاست کی جانب سے تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے شادی شدہ لڑکیوں کو سسرال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے شوہر بھی ملازمت کرتے تھے فوت ہو گئے تھے، مگر ہمیں کچھ نہیں ملا۔ یہاں تک کہ ان کی پینشن بھی روک دی گئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے 200 ممالک میں ہندو آباد ہیں۔

دیگر اقلیتی برادری کے لوگوں کو بعض ممالک سے امداد ملتی ہے لیکن ہندو برادری کے لیے کسی بھی مد میں کوئی مدد نہیں کرتا۔

پاکستان کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن فار مینارٹی کے وفد نے پشاور کا دورہ کیا۔ اس وفد نے محکمہ قانون اور بلدیات کے اعلیٰ حکام سمیت صوبائی اسمبلی کے ارکان سے ہندو میرج ایکٹ کے لیے قواعدوضوابط بنانے پر کام تیز کرنے کامطالبہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہندو میرج ایکٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا خیبر پختونخوا کا سامنا ہے رہائش پذیر کی جانب سے کہنا تھا ہیں اور کی شادی کے لیے

پڑھیں:

نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟

مسلم لیگ ن کے نائب صدر حمزہ شہباز تقریباً 82 دن تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ وہ پنجاب کی عوام کے لیے کچھ زیادہ تو نہ کر سکے لیکن وزرات عالیہ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی امور میں زیادہ سرگرم نہیں رہے ہیں یہاں تک کہ اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی ان کی کارکردگی کچھ قابل ذکر نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز گمنامی میں چلے گئے ہیں؟

جب وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت اور وزیراعظم ان کے والد شہباز شریف تھے تو حمزہ شہباز تھوڑا بہت میڈیا سے رابطہ کرتے رہتے تھے لیکن پارٹی معاملات میں ویسے دکھائی نہیں دیے جیسے پہلے پارٹی اجلاسوں میں شرکت کے موقعے پر نظر آتا تھا۔

لیگی ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز شریف کی خاموشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حالات واضح نہیں ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے  جس کی وجہ سے وہ خاموش ہوگئے ہیں۔ وزرات اعلیٰ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی معاملات میں اب مداخلت بہت کم کرتے ہیں۔ پارٹی سیکریٹریٹ آتے ضرور ہیں لیکن  دلچسپی نہیں لیتے۔

مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہاز شریف پارٹی کے نائب صدر ہیں اور ان کی پارٹی میں عدم دلچپسی   سمجھ سے بالاتر ہے وہ پارٹی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن کوئی تجویز نہیں دیتے ہیں ملتے سب سے ہیں لیکن ان کی دلچسپی نہ لینے سے پارٹی کو نقصان  ہورہا ہے۔

مزید پڑھیے: رمضان شوگر ملز ریفرنس: عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بری کردیا

سینیئر رہنما نے بتایا کہ 8 فروری کے الیکشن میں حمزہ شہباز زیادہ ایکٹو دیکھائی نہیں دیے جس کی وجہ سے الیکشن میں پارٹی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے حمزہ شہباز کی ناراضگی ہے؟

مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ حمزہ شہباز شریف نے اس بات کا اظہار تو نہیں کیا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہ سامنے آنے دیا ہے کہ وہ وزیر اعلی نہ بنے کی وجہ سے ناراض ہیں لیکن ہو سکتا ہے انہوں نے اپنے والد شہباز شریف سے کچھ اظہار کیا ہو مگر پارٹی کے لوگوں کے سامنے ایسا کچھ نہیں کہا اور کبھی اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔

سینیئر رہنما نے بتایا کہ اب ان کے دل میں کیا بات ہے یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں لیکن انہوں نے پارٹی معاملات میں دلچسپی لینی بند کر دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے بھی حمزہ شہباز شریف کو ایک 2 مرتبہ دریافت کیا ہے کہ کہیں وہ ناراض تو نہیں ہیں جس پر حمزہ شہباز شریف نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہے۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز زندگی سے ناامید کب ہوئے تھے؟ وی نیوز سے گفتگو میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے تفصیل بتادی

لیگی رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہباز اس وقت ایکٹیو تھے جب پاکستان میں شریف خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہیں تھا۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے جیل کاٹی لیکن پارٹی کے لیے کام کرتے رہے لیکن اب وہ سیکرٹریٹ تک محدود ہوگئے ہیں اور کوئی ملنے آجائے تو مل لیتے ہیں ویسے کہیں نہیں جاتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

حمزہ شریف ناراض حمزہ شہباز شریف میاں نواز شریف ن لیگ

متعلقہ مضامین

  • حادثہ سے بڑا سانحہ
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
  • زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ
  • پاکستان نے PIBTL کیلئے عوامی خریداری کے قواعد معاف کر دیئے
  • پی ایس ایل کی فریاد
  • انمول بلوچ کا فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا عندیہ شادی کی افواہوں کی بھی وضاحت کر دی
  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • ایک رنگ جو ہمیں دکھتا تو ہے، لیکن حقیقت میں موجود نہیں