اسحاق ڈار سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح اجلاس میں شرکت کے لیے 18 فروری کو نیویارک روانہ ہوں گے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار دورہ امریکا میں چین کے زیر صدارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اسحاق ڈار 18 فروری کو نیویارک روانہ ہوں گے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس، کثیر الجہتی قابل عمل اصلاحات اور عالمی طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے حوالے سے منعقد ہو رہا ہے۔ اجلاس چین نے فروری 2025 کے لیے سلامتی کونسل کی اپنی گردشی صدارت میں طلب کیا ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطح اجلاس میں شرکت کریں گے
اجلاس کی صدارت چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کریں گے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس کے موقع پر، اسحاق ڈار دیگر شریک ہم منصبوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ان کی اقوام متحدہ کے سینئر حکام کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکا چین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکا چین سلامتی کونسل اقوام متحدہ اسحاق ڈار کریں گے
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟