میں سب سے پہلے اس اہم موضوع یاعنوان کی وضاحت کیلئے اپنا مقدمہ ان دانشوروں کی طرف سےدرج کرائی گئی ’’ایف آئی آر‘‘ انکے اعتراضات اور الزامات سے شروع کرناچاہتا ہوں جویہ فرمارہے ہیں کہ حماس نے 47 ہزار ذبح کروا دیئے، غزہ ملیامیٹ ہو گیا اور حاصل کیا ہوا؟ جنگ بندی!!! ایک اور گروہ کاکہنا ہے کہ پہلے مقابلے کی بھرپور تیاری کی جانی چاہئے تھی، قوت بنانی چاہیے تھی، تیسرا چوتھا اور پانچواں گروہ بھی ہے جو مختلف ایسے ہی اعتراض اٹھارہے ہیں۔۔۔ ہوتےرہیں ہماری بلاسے، لیکن میں ان دانشوروں سے پوچھنا چاہتاہوں کہ فقط یہ بتا دیجئے کہ غزہ کے یہ مجاہدین اور وہ تمام شہدا اتنی قوت کہاں سے اور کیسے لاتےجس کےبعد وہ اپنی حق کی جنگ کا آغاز کرتے؟ غاصبوں کے پاس 605 طیاروں کی فضائی فوج ہے، حماس کو ان کے مقابلے پر کتنے طیارے چاہیےتھے جبکہ غزہ میں تو کوئی ائیرپورٹ ہی نہیں؟ توپھریہ طیارے کہاں سے پروازکرتے؟ اسی طرح بحریہ کا بھی بتادیں کہ حماس کتنی ایٹمی آبدوزیں سمندر کی تہہ میں چھوڑتے اور پھر آپ جناب کی جانب سے للکارنے کی اجازت ملتی اوردرست ہوتا؟آپ تو انہیں خشکی کے کیڑے سمجھ کر مسلنے کاکام کررہے ہیں،سارایورپ۔ امریکا اوردیگرممالک اسرائیل کی پشت پراس کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں،اس مرتبہ مودی نے نہ صرف باقاعدہ طورپر اپنے تربیت یافتہ قاتلوں کے دستے روانہ کئے ہیں جوغزہ کے مجبورومقہور مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ان کویہ ٹاسک دیاگیا ہے کہ مسلمانوں کو مارنا ہندو دھرم کی خدمت کے مترادف ہے۔کیا یہ درست نہیں ،کیا آپ نہیں جانتے کہ اس جنگ میں ایک مسلمان ملک ’’ اردن‘‘ اسرائیل جانےوالے تمام میزائل راستے میں تباہ کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دےرہا تھا؟؟ ہم سب تفصیلات سے واقف ہیں، ایک ایک ظلم یاد ہے،میرارب تو ایک ایک لمحے کی فلم چلاکرآنکھوں کے سامنے دہرادے گا، سورہ فرقان میں فرمایا ۔
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا اے کاش میں بھی رسول کے ساتھ راہ چلتا۔ (فرقان:27)
پھریہی اعتراض کرنے والے بھی مارے ندامت کے اپنے ہاتھوں کو چبارہے ہوں گے اور بعض تو پورابازوکاٹ کھائیں گے لیکن ندامت کے پہاڑ اسی طرح سرپرقائم رہیں گے۔
بے شک 46500سے زائد شہادتیں ہوئی ہیں لیکن کیا مزاحمت کار محفوظ رہے؟ وہ قربان نہیں ہوئے؟ ہوئے ناں، انہوں نے اقصی کی پکار پر لبیک کہا اور بتا دیا کہ مشرق وسطی میں ایک قضیہ حل طلب ہے پون صدی ہونے کو ہے ہم اپنا وطن اپنا گھر نہیں بھولے یہی اصل کامیابی ہے کہ وہ اپنا حق بھولے نہیں اور اگلی نسلوں کو منتقل کر گئے، دوسری طرف خوف دہشت کو بھی کشید کر گئے وہ بھی نہیں بھولیں گے ان کی کمر بھی ٹوٹی ہے جنگ شروع ہونے سے پہلے ظالموں اور غاصبوں (اسرائیل) کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، سالانہ جی ڈی پی فی کس 2021 ء میں 6.
چشم فلک نے ایسا نظارہ تو پہلی بار ہی دیکھا ہے کہ ایک طرف ایٹمی قوتیں جمع ہوں، ان کے پاس پاتال کی گہرائیوں تک دیکھنے، آسمان کی رفعتیں اور پہنائیاں ناپنے اور زمین کا چپہ چپہ کھوجنے کے آلات ہوں، مگر پھر بھی وہ ناکام رہیں۔ دوسری طرف غلیلوں، پتھروں، چند بندوقوں اور دیسی ساختہ بموں کو اٹھائے خدا کے سرمست دیوانے ہوں اور جان ہتھیلی پر لیے توپوں، ٹینکوں، سنائپر گنوں اور ڈرون طیاروں کے سامنے ڈٹے مستانے ہوں اور پھر فتح یاب بھی ہوجائیں۔ مقدس سرزمین پر اکیسویں صدی کا یہ معجزہ طلوع ہوچکا ہے، تاریخ کے اوراق پر نقش کی جانے والی انمول داستان، سونے سے لکھنے کے قابل انمٹ کارنامہ اور جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیاہے۔کیایہ کسی فتح سے کم ہے؟
کوئی تصور کرسکتا ہے کہ صرف 41 کلومیٹر لمبا اور 12 کلومیٹر سے بھی کم چوڑائی رکھنے والا زمین کا ایسا ٹکڑا جسے چاروں طرف سے دشمن نے گھیرے میں لے رکھا ہو، جہاں زمین، آسمان اور سمندر سے آنے والی ہر ہر چیز پر دشمن نے کیمرے لگارکھے ہوں، پہرے بٹھارکھے ہوں اور ایک ایک چیز اس کی فوجیوں کی نظروں سے گزرکر آرہی ہو، جو یہ متکبرانہ دعوی کرتے ہوں کہ ہمارے علاقے پر اڑنے والی چڑیا کے بارے میں بھی ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے منہ میں کون سا دانہ ہے، اس نے یہ کہاں سے اٹھایا ہے اور یہ کہاں جا کر پھینکے گی، وہاں پندرہ مہینے اور بارہ دن جنگ جاری رہے اور زمین کا ایک ایک چپہ چھان مارا ہو، شمالی غزہ سے لے کر خان یونس اور رفح تک ایک ایک شہر کو کھنڈر بنادیا ہو، جہاں پر شبہ ہوا، اس جگہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، لیکن پھر بھی مزاحمت ختم نہ ہوسکی، سلام ان مائوں کو جنہوں نے ایسے جوانوں کی تربیت کی۔
یہ میں نہیں کہتا، یورپ بھر کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے میدان میں بھی حماس کا پلڑا بھاری رہا۔ سیز فائر ہوتے ہی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ حماس نے اپنے قیدیوں کو کیسے رہا کیا؟ اسرائیلی خواتین خوشیاں مناتی جارہی ہیں، ان کے ہاتھوں میں مجاہدین کی طرف سے دیے گئے گفٹ ہیمپرز ہیں، ان گفٹ ہیمپرز میں ان خواتین کی قید کےدوران بنائی گئی تصویریں بھی دی گئیں ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی بھی رہا کیے گئے ہیں، ان کی مشکیں کسی ہوئی ہیں، ان کے جسم کپڑوں سے عاری ہیں اور گھٹیا دشمن کے گھٹیاپن کی عکاسی کرتی یہ رہائی کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ مظلوم قیدیوں کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک پر نہ اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے، نہ موم بتی مافیا کی گہری نیند ٹوٹ رہی ہے اور نہ ہی یورپی یونین میں انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کی بے حسی ختم ہورہی ہے۔ اور تو اور، ہر دوسری اسلامی پوسٹ کو دہشت گردی قرار دینے والی فیس بک انتظامیہ جاگ رہی ہے، نہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا۔ میں آپ سے صرف تین اسرائیلی قیدیوں کے رہائی کے وقت بیانات شئیرکردیتاہوں ،اسے سن کر فیصلہ کریں کہ ہارکس کی ہوئی ہے اورجیت کس کی؟
ایک اسرائیلی خاتون جو کالج کی لیکچرر ہے،وہ اپنی رہائی کے وقت رو رہی تھی کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتی، وہ انہی مجاہدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہے کہ انہوں نے خود بھوکا رہ کر ہمیں کھانا کھلایا،خود پیاس کی سختی برداشت کی لیکن ہمیں پانی مہیا کیا، ہمارے آرام کا پورا خیال کیا اور کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف نہیں دیکھا۔
دوسری خاتون کا تعلق میڈیا سے تھا۔ اس نے رہا ہوتے وقت اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ برسوں سے حماس کے خلاف لکھتی رہی، حکومت کی طرف سے جو مواد مہیا کیا گیا، اس کو بڑھا چڑھا کرجو لکھا، وہ صریحا غلط تھا اور حماس کو اس بات کا علم تھا لیکن انہوں نے مجھے جواب میں ایک لفظ تک نہیں کہا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے اس قدر متاثر کیا کہ میری بیماری کے دوران ایک مسلمان ڈاکٹر میرے علاج کو جب آیا تو مجھے پتہ چلا کہ آج ہی اسرائیلی بمباری میں اس کا سارا خاندان شہید ہو گیا ہے لیکن وہ مجھے بہن کہہ کر مخاطب کرتا رہا اور پوری تندہی سے اس نے میرا علاج کیا۔ جبکہ میں اپنی تحریروں میں ان افراد کو جانور کہہ کر پکارتی رہی۔
تیسرا یرغمالی ہیبرون یونیورسٹی کا ایک استاد تھا اور وہ بھی رہائی کے وقت ایسا ہی جذباتی بیان دے رہا تھا کہ وہ ساری عمر حماس کے افراد کو غلیظ ترین جانور،کیڑے مکوڑے کہہ کر اپنے سٹوڈنٹس کو ان کے کلاف ورغلاتا رہا لیکن انہوں نے اپنے رویے سے اس قدر متاثر کیا کہ میں اب آئندہ زندگی اپنی غلطی کا اعتراف کرتےہوئے اپنے سٹوڈنٹس کو صحیح صورتحال سے آگاہ کروں گا۔ اب آپ فیصلہ کرین کہ کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے رہے ہیں کے ساتھ ایک ایک میں ایک ہیں کہ رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
آخری سانس تک اپنے شہر کا مقدمہ لڑتا رہوں گا،آفاق احمد
ہمیں چھاپوں اور گرفتاریوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا، یہ وقت سیاست کا نہیں
میرے اقدام کو لسانی رنگ دینے کے بجائے حقائق کو سمجھا جائے، جیل سے پیغام
چیئر مین آفاق احمد نے سینٹرل جیل سے جاری قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ آج نا صرف کراچی کی عوام بلکہ دیگرشہروں اور صوبوںسے میرے اقدام کی تائیدنے میر ے عزم و حوصلے کو مزید تقویت بخشی ہے جس پر میں اپنے لوگوں کا شکر گزار ہوں،جنہوں نے میرے اقدام پر میرے حق میں ویڈیوں پیغام جاری کر کے شہر کونئی سوچ دی ہے ،میرا اقدام کسی مخصوص قومیت ، فرقے یاطبقے کیلئے نہیں بلکہ شہر میں بسنے والے 3کروڑ عوام کے حق میںکیا گیا ہے ۔ آفاق احمد نے کہا کہ کچھ لوگ میرے اقدام کو لسانی رنگ دیکر اپنی سیاست کو چمکانا چاہتے ہیں میں ان سے بھی درخواست کرتا ہوکہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بننے کاہے، غیر مقامی ٹینکر مافیاکے خلاف 3کروڑ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ آفاق احمد نے کہا کہ آج بھی قاتل ٹینکر ڈرائیورز آ زاد ہیں جبکہ انکے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجھے اور میرے شہر کے لوگوں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں سلسلہ جاری ہے جو ہمارے عزم و حوصلے کو کمزور نہیں کر سکتا،آخری سانس تک اس شہر کا مقدمہ لڑتا رہوگا۔آفاق احمد نے کہا کہ سندھ حکومت اور انتظامیہ اپنی ڈھٹائی دکھانے کے بجائے قاتل ٹینکر ڈرائیوز کے خلاف FIRکاٹے اور حادثات میں جاں بحق افراد کے ورثہ کی کم از کم 25.25لاکھ کی مالی امداد کو فی الفور یقینی بنایا جائے ، جبکہ ممنوعہ اوقات میں پانی ٹینکر اور ہیوی ٹریفک کو رہائشی آبادیوں میںآنے کے خلاف بھی اتنی تیزی اور بھرتی دکھائی جائے جتنی معصوم شہریوں کے گھروں پر چھاپوں اور گرفتاریوں میں دکھائی ہے۔