سید قطب شہید ایک اسلامی مفکر ایک سیاستدان
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
مصر کے صوبہ’’اس بوط‘‘ کے ایک گائوں ’’موشا‘‘ میں 9اکتوبر1906ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے گائوں ہی میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم قاہرہ میں داخل کردیئے گئے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزارت تعلیم میں ملازمت کر لی، علاوہ ازیں ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کو بھی اپنے شغل میں شامل کرلیا۔ وہ جدت پسند ادیبوں اور شعرا کے شانہ بشانہ رہے۔ وہ ادبی تنقید نگار بنتے بنتے مصر کےنامورلکھاریوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ملک کے مختلف اخبار اور جرائد میں ان کی تحریریں چھپنا شروع ہوگئیں، یوں دھیرے دھیرے ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہونے لگا۔
تاہم بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ان کے مزاج کا تلون بھی بڑھتا چلا یا گیا اور ان کے خیالات میں بھی نمایاں تبدیلی ہونے لگی،اور وہ رفتہ رفتہ اسلام کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے۔
1948 ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے۔ جہاں کے مغربی تہذیب و تمدن اور سامراجی ماحول نے ان کے اندر کےباغی کو جگادیا اور اب ان کے اندرایک فکری تبدیلی رونما ہوئی اور وہ’’اخوان المسلمون‘‘ کی طرف راغب ہوتےچلےگئےجو اسلامی احیا، سماجی اصلاح کی اسلامی تنظیم تھی، جس کی بنیاد حسن البنا نے 1928 میں رکھی تھی۔ جو آغاز میں ایک تعلیمی رفاہی تنظیم تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی انقلابی تحریک میں بدل گئی۔ جس کا عمومی مقصد ملک کا اقتدار سنبھال کر نظام شریعت نافذ کرنا تھا۔ یہ تنظیم مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کے طور پر ابھری۔سید قطب اس کے انتہائی سرگرم رکن تھے’’معالم فی الطریق‘‘ اور’’ فی ظلال القرآن‘‘ جیسی تفسیر لکھ کر اسلامی تحریک کے کارکنوں کے انقلابی جذبات کومہمیز لگائی اور اسلامی انقلاب لانے والے زعما کی صف اول میں کھڑے ہوگئے۔
1954ء میں مصرکے صدرجمال عبدالناصر نے تنظیم اخوان المسلمون پر قدغن لگا دی۔ مگر تنظیم کے سرکردہ رہنما جن میں سید قطب بھی شامل تھے اپنی انقلابی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے پر مال ہوگئےجس کےنتیجے میں سید قطب اور کئی اور رہنمائوں کو پابند سلاسل کردیا گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعدانہیں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا، اور آخرکار 1966 ء میں سید قطب کو دار پر لٹکا دیا گیا۔
سید قطب کو اولین ان کے اس جرم کی سزا ملی کہ وہ قرآن کریم کو محض ایک آسمانی کتاب ہی نہیں مانتے تھے بلکہ ایک عملی انقلاب کا منشور تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اسی کی روشنی میں وہ ایک اسلامی حکومت کا نفاذ چاہتے تھے۔ان کی تحریک کا بنیادی مقصد و منتہااللہ کی حاکمیت اور قرآنی قوانین پر عمل پیرا ہونا اور مخلوق خدا کے دل میں اس احساس کو پختہ کرنا تھا کہ ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے‘‘۔ ان کی کتاب ’’اسلامی تحریک کے اصول‘‘ (معالم فی الطریق) جو سید نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر لکھی اور ان کی رہائی کے فوراً بعد 1964 میں شائع ہوئی اس کا خلاصہ یہی تھا کہ ’’موجودہ نظام جہالت پر مبنی ہے‘‘ انہوں نے اپنی اس تصنیف کو جاہلی معاشروں کے خلاف فردعمل کے طور اسلامی دنیا کے سامنے رکھااور اسے مغربی جمہوریت کے خلاف متبادل کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے کہا’’مغربی جمہوریت ہو، سوشلزم ہو یا دیگر نظریات کے پرچارک وہ دل سےیہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی ایک انقلابی نظریہ ہے‘‘۔ ان کا یہ عزم صمیم تھا کہ’’ مسلم معاشرے کو فکری اور روحانی طور پر آمادہ کیا جائے کہ اسلام ہی وہ نظریہ حیات ہے جو انسان کو ہر قسم کے ظلم سے نجات کا باعث بن سکتا ہے‘‘۔
سید قطب شہید کی مذکورہ تصنیف اسلام کے سیاسی نظام اور جہادی تحریکوں کابنیادی منشور بن گئی۔ سید قطب نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کو گہری تنقیدکا نشانہ بنایا۔ اپنی کتاب اسلام میں سماجی انصاف،، میں واشگاف الفاظ میں تحریر فرمایا کہ اسلام میں سماجی انصاف تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ اول مساوات، دوم فکری، معاشرتی اور مذہبی آزادی اورسوم بھائی چارہ۔ انہوں نے اسلام کو ایک متوازن، معتدل اورعادلانہ نظام حیات کے طور پر پیش کیااورنظام زکوٰۃ کو دولت کی تقسیم کا عملی ذریعہ قرار دیا اور طبقاتی کشمش کے نظریہ کو دفن کردینے پر زور دیا اور معاشرے میں پائی جانے والی مساوی دولت کی تقسیم کے نظام پر کاری ضرب لگائی۔سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن، قرآن کریم کی ہر آیت کو ایک فکری انقلاب کےنقطہ نظر سے واضح کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مفسر نے اس تفسیر میںاسلامی تہذیب وتمدن، اسلام کے فکری نظام کو ایسا منہج بناکر پیش کیا ہےجس پر چل کر انسان فقط فلاحی نہیں بلکہ ابدی سکون بھی حاصل کرسکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایسی پناہ گاہ ہے جو چھوٹے بڑے اور غریب امیر کا فرق رکھے بغیر اپنی چھولداری کے نیچے ہر ایک کو جگہ دیتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں 3 کشمیری نوجوان شہید
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور صرف ایک روز میں قابض بھارتی فوج نے 3 کشمیریوں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کردیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق قابض بھارتی فوج نے جنت نظیر وادی کے ضلع کشتواڑا میں داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرکے سرچ آپریشن کیا۔
اس دوران ایمبولینسوں کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ موبائل اور نیٹ سروسز بھی معطل رہیں۔
قابض بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کے دوران ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان شہید ہوگیا۔
بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے نوجوان کو عسکریت پسند ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی اور اس کھلے قتل کو مقابلہ ظاہر کیا۔
قابض بھارتی فورس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے لاش کو لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے پولیس کو دیدی۔
شہید نوجوان کے والدین اپنے پیارے کی لاش کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں مودی سرکار نے رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں نازیبا ملبوسات کا ایک فیشن شو کروایا تھا۔
جس پر مسلم برادری میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور مسلم رہنماؤں نے اس پر شدید احتجاج بھی کیا تھا۔