Daily Ausaf:
2025-02-15@17:38:31 GMT

سید قطب شہید ایک اسلامی مفکر ایک سیاستدان

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

مصر کے صوبہ’’اس بوط‘‘ کے ایک گائوں ’’موشا‘‘ میں 9اکتوبر1906ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے گائوں ہی میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم قاہرہ میں داخل کردیئے گئے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزارت تعلیم میں ملازمت کر لی، علاوہ ازیں ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کو بھی اپنے شغل میں شامل کرلیا۔ وہ جدت پسند ادیبوں اور شعرا کے شانہ بشانہ رہے۔ وہ ادبی تنقید نگار بنتے بنتے مصر کےنامورلکھاریوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ملک کے مختلف اخبار اور جرائد میں ان کی تحریریں چھپنا شروع ہوگئیں، یوں دھیرے دھیرے ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہونے لگا۔
تاہم بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ان کے مزاج کا تلون بھی بڑھتا چلا یا گیا اور ان کے خیالات میں بھی نمایاں تبدیلی ہونے لگی،اور وہ رفتہ رفتہ اسلام کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے۔
1948 ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے۔ جہاں کے مغربی تہذیب و تمدن اور سامراجی ماحول نے ان کے اندر کےباغی کو جگادیا اور اب ان کے اندرایک فکری تبدیلی رونما ہوئی اور وہ’’اخوان المسلمون‘‘ کی طرف راغب ہوتےچلےگئےجو اسلامی احیا، سماجی اصلاح کی اسلامی تنظیم تھی، جس کی بنیاد حسن البنا نے 1928 میں رکھی تھی۔ جو آغاز میں ایک تعلیمی رفاہی تنظیم تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی انقلابی تحریک میں بدل گئی۔ جس کا عمومی مقصد ملک کا اقتدار سنبھال کر نظام شریعت نافذ کرنا تھا۔ یہ تنظیم مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کے طور پر ابھری۔سید قطب اس کے انتہائی سرگرم رکن تھے’’معالم فی الطریق‘‘ اور’’ فی ظلال القرآن‘‘ جیسی تفسیر لکھ کر اسلامی تحریک کے کارکنوں کے انقلابی جذبات کومہمیز لگائی اور اسلامی انقلاب لانے والے زعما کی صف اول میں کھڑے ہوگئے۔
1954ء میں مصرکے صدرجمال عبدالناصر نے تنظیم اخوان المسلمون پر قدغن لگا دی۔ مگر تنظیم کے سرکردہ رہنما جن میں سید قطب بھی شامل تھے اپنی انقلابی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے پر مال ہوگئےجس کےنتیجے میں سید قطب اور کئی اور رہنمائوں کو پابند سلاسل کردیا گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعدانہیں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا، اور آخرکار 1966 ء میں سید قطب کو دار پر لٹکا دیا گیا۔
سید قطب کو اولین ان کے اس جرم کی سزا ملی کہ وہ قرآن کریم کو محض ایک آسمانی کتاب ہی نہیں مانتے تھے بلکہ ایک عملی انقلاب کا منشور تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اسی کی روشنی میں وہ ایک اسلامی حکومت کا نفاذ چاہتے تھے۔ان کی تحریک کا بنیادی مقصد و منتہااللہ کی حاکمیت اور قرآنی قوانین پر عمل پیرا ہونا اور مخلوق خدا کے دل میں اس احساس کو پختہ کرنا تھا کہ ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے‘‘۔ ان کی کتاب ’’اسلامی تحریک کے اصول‘‘ (معالم فی الطریق) جو سید نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر لکھی اور ان کی رہائی کے فوراً بعد 1964 میں شائع ہوئی اس کا خلاصہ یہی تھا کہ ’’موجودہ نظام جہالت پر مبنی ہے‘‘ انہوں نے اپنی اس تصنیف کو جاہلی معاشروں کے خلاف فردعمل کے طور اسلامی دنیا کے سامنے رکھااور اسے مغربی جمہوریت کے خلاف متبادل کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے کہا’’مغربی جمہوریت ہو، سوشلزم ہو یا دیگر نظریات کے پرچارک وہ دل سےیہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی ایک انقلابی نظریہ ہے‘‘۔ ان کا یہ عزم صمیم تھا کہ’’ مسلم معاشرے کو فکری اور روحانی طور پر آمادہ کیا جائے کہ اسلام ہی وہ نظریہ حیات ہے جو انسان کو ہر قسم کے ظلم سے نجات کا باعث بن سکتا ہے‘‘۔
سید قطب شہید کی مذکورہ تصنیف اسلام کے سیاسی نظام اور جہادی تحریکوں کابنیادی منشور بن گئی۔ سید قطب نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کو گہری تنقیدکا نشانہ بنایا۔ اپنی کتاب اسلام میں سماجی انصاف،، میں واشگاف الفاظ میں تحریر فرمایا کہ اسلام میں سماجی انصاف تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ اول مساوات، دوم فکری، معاشرتی اور مذہبی آزادی اورسوم بھائی چارہ۔ انہوں نے اسلام کو ایک متوازن، معتدل اورعادلانہ نظام حیات کے طور پر پیش کیااورنظام زکوٰۃ کو دولت کی تقسیم کا عملی ذریعہ قرار دیا اور طبقاتی کشمش کے نظریہ کو دفن کردینے پر زور دیا اور معاشرے میں پائی جانے والی مساوی دولت کی تقسیم کے نظام پر کاری ضرب لگائی۔سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن، قرآن کریم کی ہر آیت کو ایک فکری انقلاب کےنقطہ نظر سے واضح کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مفسر نے اس تفسیر میںاسلامی تہذیب وتمدن، اسلام کے فکری نظام کو ایسا منہج بناکر پیش کیا ہےجس پر چل کر انسان فقط فلاحی نہیں بلکہ ابدی سکون بھی حاصل کرسکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایسی پناہ گاہ ہے جو چھوٹے بڑے اور غریب امیر کا فرق رکھے بغیر اپنی چھولداری کے نیچے ہر ایک کو جگہ دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ اسلام کے طور

پڑھیں:

کیا ایک مضبوط نظام جمہوریت کے بغیر ممکن ہے ؟

کیا پاکستان کا گورننس سسٹم ایک مضبوط جمہوریت کے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے ؟یاآئین، قانون کے تابع انتظامی ڈھانچے کے بغیر ہم جمہوری ساکھ کو قائم کر سکتے ہیں۔تواس کا جواب نفی میں ملے گا۔کیونکہ آج کے جدید جمہوری تصورات میں جو دنیا بھر میں موجود ہیںاس میں ایک مضبوط ملک مضبوط اداروں کی بنا پر ہوتا ہے۔اگر ادارے مضبوط اور فعال نہیں تو جمہوریت کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کا ایک نتیجہ ہمیں اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کے ماحول کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔جو بداعتمادی کی فضا کو پیدا کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کے مقابلے پہ کھڑا کر دیتا ہے۔

آج جب دنیا بھر میں ریاستوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے یا ان کی کارکردگی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے تو اس میں وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق یا آزادی اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جب عالمی ادارے پسماندہ ممالک کے اداروں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو وہ سماجی،انتظامی قانونی،معاشی اور انسانی وسائل کے معاملات میں بہت پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ماضی میں بھی غیرممالک کی تنظیمیںکافی تنقید کرتی رہی ہیں اور یہ صورتحال اب بھی ہورہی ہے۔حکومت نے پیکا ایکٹ پاس کیا ہے، اس پر بھی صحافتی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں اور معاملہ عدالت میں جاچکا ہے۔ یہ کام ماضی میں بھی حکمران طبقات کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ماضی کے حکمران کرتے رہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہم اپنے ریاستی اور حکمرانی کے نظام میں اپنے سیاسی مخالفین یا متبادل آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ایک جمہوری نظام میں ہر ادارے کا کردار واضح اور شفاف ہوتا ہے۔سب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔آزاد عدلیہ کا تصور انتظامیہ کو قانون کے تابع بناتا ہے۔ریاستی اور حکمرانی کے نظام کے ٹکراؤ نے ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اس سیاسی تقسیم نے بلا وجہ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے ہی مقابلے پر بھی کھڑا کر دیا ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جس بنیاد پر ہم ریاستی نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ دنیا کے لیے قابل قبول نہیں۔دنیا میں اس ریاستی عمل یا نظام پر نہ صرف تنقید ہوگی بلکہ کئی سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔یہ سوالات صرف باہر کی دنیا سے نہیں اٹھیں گے بلکہ خود داخلی محاذ پر بھی لوگ سوال کریں گے کیونکہ لوگوں کواب یہ طبقاتی نظام قبول نہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ ہم سیاسی اداروں کی مضبوطی کو پس پشت نہ ڈالیں اور سیاسی اداروں کو مضبوط کریں ۔

یہ جو ہمیں ملکی سطح پر سیاست،جمہوریت،آئین اور قانون کی حکمرانی یا گورننس یا سیکیورٹی یا دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے تو اس کی وجہ بھی ریاست کے نظام میں موجود بہت سی خامیاں اور فکری سطح پر موجود بہت سے مغالطہ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عدلیہ، سیاست، جمہوریت، آئین،سول سوسائٹی اور میڈیا ایک جمہوری و قانونی راستہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ،لیکن ان کو کئی محاذوں پر مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اس میں ان کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن پسماندہ سوچ نے راستے محدودکیے ہوئے ہیں۔

اس کا علاج اداروں کی سطح پر باہمی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے جڑا ہونا چاہیے۔ سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی اور حال میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیںاور اب ان غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ اور سیاسی اداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر ہم نے پارلیمنٹ کو محض ایک رسمی یا کاغذی کارروائی کی بنیاد پہ چلانا ہے تو پھر سیاسی نظام کسی بھی صورت میں ہم آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی یا عوامی مفادات کی جنگ کسی ایک مخصوص طبقہ نے نہیں لڑنی بلکہ یہ معاشرے میں موجود تمام انفرادی اوراجتماعی طبقہ کی جنگ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی جلد صوبہ بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی، عبدالواسع
  • جماعت اسلامی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس کا انعقاد
  • اسلامی نظامِ معیشت کی نمایاں خصوصیات
  • حکومت نے ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی سازی کا اختیار واپس لے لیا
  • ڈاکٹر محمد حمیداللہ ایک مفکر و سیرت نگار
  • لاہور، پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے زیراہتمام ’’حیا واک‘‘ کا انعقاد
  • طلبہ یونین کے الیکشن کے بغیر جمہوری نظام ادھورا ہے،عمیر شامل
  • جماعت اسلامی ضلع شہید بینظیر آباد کے نائب امیرسروراحمد قریشی خطاب کررہے ہیں
  • کیا ایک مضبوط نظام جمہوریت کے بغیر ممکن ہے ؟