ٹرمپ کا غزہ منصوبہ: نسلی تطہیر کے لیے گرین لائٹ؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
واضح رہے کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کی ’’طویل مدتی ملکیت‘‘ لینے،’’گندگی‘‘ کو’’پاک کرنے‘‘ اور اسے’’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘‘ میں تبدیل کرنے کی تازہ ترین تجویز فلسطینیوں کو نسلی طور پر ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی کوششوں کا تازہ ترین اعادہ ہے۔جو چیز ٹرمپ کے تبصروں کو خطرناک بناتی ہے وہ غزہ میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد اس کے 2.
تاہم، بائیڈن انتظامیہ کے دوران نسلی صفائی کا خیال پہلے ہی پیش کیا جا رہا تھاجب کہ اس وقت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ “فلسطینی شہریوں پر غزہ چھوڑنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے،’’ بائیڈن نے اسرائیل کے لیے غیر مشروط فوجی مدد کے ذریعے نقل مکانی کے لیےحالات پیدا کیے تھے۔اس نے مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگوں میں سے ایک کو بھڑکانے میں اسرائیل کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ جنگ کے کچھ ہی دنوں بعد 13 اکتوبر 2023 کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے عمان میں بلنکن کو’’تمام فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنے یا ان کی اندرونی نقل مکانی کا سبب بننے‘‘ کی کسی بھی اسرائیلی کوشش کے خلاف خبردار کیا۔ مؤخر الذکر نقل مکانی ایک حقیقت بن گئی کیونکہ شمالی غزہ کی زیادہ تر آبادی وسطی اور جنوبی غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھری ہوئی تھی، جہاں کے حالات 16 ماہ سے زیادہ عرصے سے غیر انسانی ہیں۔اسی وقت مغربی کنارے اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں نقل مکانی کی ایک اور مہم جاری ہے، حالیہ ہفتوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔ جنین اور دیگر علاقوں میں ہزاروں فلسطینی خاندان پہلے ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو روکنے کے لئےدباؤ ڈالنےکی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔
فلسطینیوں کی بے دخلی پر عربوں کے خدشات جنگ کے آغاز سے ہی حقیقی تھے۔ تقریباً ہر عرب لیڈر نے بار بار خطرے کی گھنٹی بجائی۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے متعدد مرتبہ اس جانب توجہ دلائی اور’’آبادی کی منتقلی‘‘ کی اسکیم میں اسرائیلی کوششوں اور ممکنہ طور پر امریکہ کے ملوث ہونے کے بارے میں خبردار کیا۔السیسی نے کہا کہ غزہ میں اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ شہریوں کو پناہ لینے اور مصر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہے۔پندرہ ماہ بعد ٹرمپ کےدور میں مصر نے اعادہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ مصر اس ’’ناانصافی کے عمل‘‘ میں حصہ نہیں لے گا۔4 فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کے بیان کےفوراً بعد ہی ایک سعودی بیان جاری ہوا۔ سعودی وزارت خارجہ نے غزہ پر ٹرمپ کی’’ملکیت‘‘ کو مسترد کرتے ہوئےریاض کے فلسطین پر عرب لیگ کے موقف کو دہرایا۔بیان میں واضح کیا گیا کہ ’’وزارت خارجہ اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں سعودی عرب کا موقف مستحکم اور غیر متزلزل ہے‘‘ ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مملکت ’’فلسطینی عوام کےجائز حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کو واضح طور پر مسترد ہونے کی توثیق کرتی ہے، خواہ اسرائیلیوں کے ذریعے ہو، فلسطینیوں کی آبادکاری کے ذریعےہو، فلسطینیوں کوان کی زمین سے بےدخل کرنے کی کوشش ہو‘‘۔ تاہم نئی امریکی انتظامیہ فلسطینی تاریخ سے غافل نظر آتی ہے۔ 1948 میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پیش نظرکوئی بھی عرب حکومت( فلسطینی قیادت کو چھوڑ دیں) ہمسایہ ریاستوں میں لاکھوں لوگوں کو نسلی طور پر پاک کرنے کی ایک اور اسرائیلی امریکی کوشش کی حمایت نہیں کرے گی۔مقامی آبادی کو بے دخل کرنے کی غیر اخلاقی حرکتوں سے ہٹ کر، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات خطے کو نسلوں تک غیر مستحکم کرتے ہیں۔ 1948 کا نکبہ، جس نے فلسطین کی نسلی صفائی دیکھی، عرب اسرائیل تنازعہ کو بھڑکا دیا، جس کے اثرات آج بھی جاری ہیں۔تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ نکبہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ اسرائیل نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں غزہ میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر اپنے شدید حملوں سے شروع ہوکر، اور اس کے بعد سے، نسلی تطہیر کی بارہا کوشش کی ہے۔
1967 کی جنگ جسے’’سیٹ بیک‘‘ کہا جاتا ہے، اندرونی اور بیرونی طور پر لاکھوں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کا باعث بنی۔ اس کے بعد کے سالوں میں، 1970 کی دہائی میں مختلف امریکی اسرائیلی اقدامات نے فلسطینی آبادی کو صحرائے سینا میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم غزہ کے عوام کی استقامت اور اجتماعی مزاحمت کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ٹرمپ کی نام نہاد ‘انسان دوست نسلی صفائی کی تجویز تاریخ میں اسی طرح کی ایک اور ناکام کوشش کے طور پر لکھی جائے گی، خاص طور پر ثابت قدم فلسطینی عوام کے ساتھ عرب اور بین الاقوامی یکجہتی برسوں سے زیادہ مضبوط ہے۔اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا عرب اور دنیا بھر میں فلسطین کے دوسرے حامی اس طرح کی مذموم تجاویز کو مسترد کرنے سے آگے بڑھیں گے اور فلسطینی وطن کی بحالی کے لیے پہل کریں گے؟ اس کے لیے انصاف پر مبنی بین الاقوامی مہم کی ضرورت ہے، جس کی جڑیں بین الاقوامی قانون میں ہوں اور خود فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق ہوں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو فلسطینیوں کی کرنے کی کوشش نسلی صفائی نقل مکانی ٹرمپ کے ایک اور اور اس کے لیے
پڑھیں:
میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں
اسلام ٹائمز: فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
فلسطین، ایک ایسا نام جو سننے والے کے ذہن میں قدیم تہذیبوں کی خوشبو، روحانی ورثے کی گونج اور ایک مظلوم قوم کی جدوجہدِ آزادی کی طویل داستان کو تازہ کر دیتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین نہیں بلکہ ایک تہذیبی وراثت، ایک قومی شناخت اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کی علامت ہے۔ فلسطین کا شمار دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی تہذیب نے بہت ابتدا میں قدم جمائے۔ آثارِ قدیمہ اور تاریخی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے کنعانی قوم نے سکونت اختیار کی، جو سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔
کنعانیوں نے زراعت، تعمیرات، تجارت اور مذہبی نظام میں خاصی ترقی کی اور فلسطین کو ایک تہذیبی اور اقتصادی مرکز بنایا۔ ان کے بعد یبوسی، اموری اور دیگر اقوام نے اس خطے کو اپنا وطن بنایا۔ بعد ازاں یہ خطہ مصری، بابلی اور سمیری تہذیبوں کے زیرِ اثر رہا۔ بعد کے ادوار میں یہی سرزمین انبیائے کرامؑ جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پیغام کی آماجگاہ بنی، جس نے اس کی روحانی حیثیت کو مزید بلند کیا۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم فلسطین کی تاریخی ارتقا سے لے کر موجودہ سیاسی و انسانی بحران تک کا تحقیقی و تجزیاتی جائزہ پیش کریں گے۔
قدیم فلسطین: کنعان سے اسلامی فتوحات تک
فلسطین کی قدیم تاریخ کا آغاز کنعانیوں سے ہوتا ہے، جنہوں نے یہاں اولین شہر آباد کئے۔ ان میں یروشلم (جسے اس وقت یبوس کہا جاتا تھا) خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اس سرزمین میں قدم رکھا۔ یہودی روایات کے مطابق یہ خطہ انہیں الٰہی وعدے کے تحت عطا کیا گیا، تاہم تاریخی طور پر یہ علاقہ مختلف اقوام کے درمیان مسلسل تنازعات کا مرکز رہا۔ رومی دور میں یہودیوں کو بغاوت کے بعد جلاوطن کر دیا گیا اور یروشلم کو عیسائیت کا مرکز بنا دیا گیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے دوسرے خلیفہ کی خلافت کے دور میں اس خطے کو فتح کیا۔ مسجد اقصیٰ، جو پہلے سے ایک مقدس مقام تھی، اسلامی تاریخ کا تیسرا مقدس ترین مقام قرار پائی۔ صلیبی جنگوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو دوبارہ اسلامی ریاست میں شامل کیا۔ 1517ء سے 1917ء تک فلسطین عثمانی سلطنت کے زیرِ انتظام رہا، جس نے یہاں امن، رواداری، اور کثیرالمذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔
برطانوی استعمار اور صیہونی تحریک کا آغاز
پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی سلطنت کے انہدام کے ساتھ ہی فلسطین برطانوی انتداب کے تحت آ گیا۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اعلان صیہونی تحریک کی سیاسی کامیابی تھا، جس نے یورپ سے یہودی آبادکاری کے دروازے کھول دیے۔ اس آبادکاری نے مقامی عرب آبادی کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔
1948ء کا المیہ: اسرائیل کا قیام اور النکبہ
1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو ایک یہودی اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی مگر فلسطینیوں اور عرب ریاستوں نے اسے غاصبانہ سمجھ کر مسترد کر دیا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کے فوراً بعد عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیل نے 78 فیصد فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ جبری ہجرت تاریخ میں النکبہ (یعنی المیہ) کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
1967ء کی جنگ: قبضے کا نیا باب
جون 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی، گولان کی پہاڑیاں، اور سینائی کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نیا رخ دیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے یاسر عرفات کی قیادت میں مزاحمت کو منظم کیا، اور مسلح جدوجہد کو اپنایا۔ 1987ء میں حماس نے پہلی انتفاضہ کے دوران مزاحمت کی عوامی لہر کو جنم دیا، جس نے فلسطینی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ بتایا کہ بے سر و سامانی کے با وجود فلسطینی اپنے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں اور پھر 2000ء کے دوسرے انتفاضہ نے مزاحمت کو نئی جہت دی
اوسلو معاہدہ: دھوکہ یا امید؟
1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی، جسے بعض علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔ اگرچہ اس معاہدے سے امن کی امیدیں وابستہ کی گئیں مگر اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غیر قانونی یہودی آبادکاری اور فوجی نگرانی جیسے حساس امور پر اپنا قبضہ برقرار رکھا غزہ کو جیل بنا دیا گیا بلکہ 2006ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد غزہ پر اسرائیلی محاصرہ عائد کر دیا گیا، جس نے انسانی المیے کو جنم دیا۔
2023ء کے حالات: ظلم، محاصرہ اور مزاحمت تا حال جاری
2023ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید فضائی حملے، مسجد اقصیٰ پر چھاپے، اور مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاروں کے مظالم جاری رہے۔ اکتوبر 2023ء میں حماس نے آپریشن طوفان الاقصی لانچ کیا اور اس کے بعد سے اسرائیل و حماس کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی حالات بگڑتے چلے گئے اسرائیل نے وسیع پیمانے پر بے گناہ انسانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ بوڑھے، بچے، خواتین، صحافی، ڈاکٹرز ہر طبقے کے افراد کو اپنی بندوق اور میزائل سے شکار کیا، یہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ امریکہ کی مدد کے ساتھ تا حال جاری ہے۔
درجنوں اسپتال، اسکول اور پناہ گاہیں تباہ ہوئیں، اور سینکڑوں معصوم فلسطینی، بالخصوص بچے اور خواتین، شہید ہوئے۔ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی خاموشی نے فلسطینیوں کو مزید مایوس کیا ہے۔ دنیا کے منافقانہ رویہ یعنی امریکہ و یورپ کی غیر مشروط حمایت، عرب لیگ کی خاموشی و دوغلی پالیسی اور اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ بے عملی فلسطین میں انسانی المیہ کو جنم دینے میں ملوث ہیں.
فلسطینی شناخت: مزاحمت کا استعارہ
فلسطین آج بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک شناخت، ایک خواب اور ایک استعارہ ہے۔ فلسطینی قوم آج بھی "میرا نام ہے فلسطین" کے نعرے کے ساتھ اپنی زمین، ثقافت اور مقدس مقامات کے دفاع میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ نے 2012ء میں فلسطین کو "غیر رکن مبصر ریاست" کا درجہ دیا، مگر تاحال دو ریاستی حل کا عملی نفاذ ایک جھوٹ ہی ہے اور فلسطین تو دراصل پورے کا پورا ہی (نہر تا بحر) فلسطینیوں کا ہے۔
ایک زندہ، سلگتی تاریخ
فلسطین زندہ باد جیسا کہ محمود درویش نے کہا کہ ’’ہم اس سر زمین پر مریں گے، ہماری جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی ہمیں اکھاڑ نہیں سکتا‘‘۔ فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔