اپنی عظمت کا یقینی ادراک
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
سائنس دان متفق ہیں کہ ذہانت کے جینز اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ البتہ ان جینز کی منتقلی اگلی کونسی نسل یا کس فرد میں ہوتی ہے اس کے بارے میں سائنس دانوں کی اکثریت ابھی خاموش ہے۔ ممکن ہے اگلی چند دہائیوں میں سائنس دانوں کا احسن بچے (Perfect Babies) پیدا کرنے کا خواب پورا ہو جائے یعنی ایک جوڑا اپنی مرضی سے بیٹا یا بیٹی پیدا کر سکیں گے، ان کے بالوں اور جلد کے کالے یا گورے رنگ کا انتخاب کر سکیں گے، قد کا تعین کر سکیں گے اور یہاں تک کی ان جسامت کی دیگر ساختوں جیسا کہ آنکھوں کے رنگ کو بھی اپنی مرضی کے مطابق حاصل کر سکیں گے۔ لیکن بیالوجی کی شاخ جینیٹکس (Genetics) کے سائنس دانوں نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ یہ بھی بتا سکیں کہ ایسے بچے کتنے اور کس حد تک ذہین ہوں گے یا ان کا آئی کیو (IQ) لیول کتنا ہو گا؟
دنیا میں یہودیوں کو ایک ذہین قوم متصور کیا جاتا ہے۔ عظیم ترین سائنس دان آئین سٹائن بھی یہودی النسل تھا جس کی کچھ سائنسی پیش گوئیاں سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سچ ثابت ہو رہی ہیں جن میں 3لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی کا خلا میں خم کھانا شامل ہے۔ یہودی مائوں کے بارے مشہور ہے کہ جب وہ حاملہ ہوں تو ذہین بچے پیدا کرنےکے لیئے وہ خصوصی غذائیں کھاتی ہیں، کورسز کرتی ہیں اور خود اپنی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن ان کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان سے پیدا ہونے والا بچہ کتنا ذہین ہو گا یا وہ ایک ناقص العقل اور سرے سے غبی و کندن ذہن ثابت کو گا۔ البتہ یہ ایک مصدقہ سائنسی حقیقت ہے کہ ذہین و فطین اور جینیس (Genius) بچوں کو اپنی ذہانت کا بدرجہ اتم ادراک ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اس مقولے کے مصداق کہ، “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” (Coming Events Cast Their Shadows Before) اپنے بچپن اور جوانی ہی میں کرنے لگتے ہیں۔ کہاجاتا ہےکہ ایک دفعہ البرٹ آئن سٹائن سنہ 1922 میں جاپان کے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک ویٹر اس کے کمرے میں اس کی خدمت کے لئے آیا، آئن سٹائن اسے ٹپ دینا چاہتے تھے، جب انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے پاس ویٹر کو دینے کے لئے کوئی رقم نہیں تھی، چناںچہ آئن سٹائن نے کاغذ اور قلم نکالا اور اس کو جرمن زبان میں ایک جملہ لکھنے کے بعد دستخط کر کے دے دیا، اور اسے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس آپ کو دینے کے لئے اس وقت پیسے تو نہیں ہیں، مگر آپ یہ کاغذ کا ٹکڑا رکھ لو، ایک دن آئے گا جب اس کی فروخت بہت مہنگے داموں میں ہو گی۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ویٹر مر گیا اور کاغذ کا وہ ٹکڑا ویٹر کے بھتیجے کے پاس چلا گیا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد آئن سٹائن کی سائنسی اہمیت و عظمت کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے اور جب اس کاغذ کے ٹکڑے کی نیلامی ہوئی تو اس کی قیمت تیرہ لاکھ ڈالرز لگی۔
دنیا کے عظیم ترین سائنس دان آئن سٹائن کے ہاتھ سے لکھے اس کاغذ پر لکھا تھا کہ، “ایک پرسکون اور معمولی زندگی مسلسل بے چینی سے جڑی کامیابی کے حصول سے زیادہ خوشی لاتی ہے:” “A quiet and modest life brings more joy than a pursuit of success bound with constant unrest۔” آئن سٹائن کے اس مقولے کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ وقتی طور پر مشکلات میں گھرا مگر ذہنی طور پر پرسکون رہنے والا شخص ایک دن عظیم انسان بن کر دنیا کے چہرے پر ابھرتا ہے۔ بے شک مشکلات، تکلیفوں، پریشانیوں اور مصائب کے ستائے ہوئے شخص کے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو خوشحال لوگ چاہ کر بھی کبھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اخلاق اور کردار و سیرت لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عام لوگوں سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بھرا ہوا برتن دنیا کے کام آئے مگر کبھی کبھی خالی برتن ہی دوسروں کی پیاس بجھاتے ہیں کیونکہ جو بظاہر دیکھنے میں خالی نظر آتے ہیں جب وہ بھرتے ہیں تو کبھی خالی ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں۔
دنیا کے عظیم لوگوں کی اکثریت آج بھی محرومیوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ سائنس دانوں کو دیکھ لیں یا فوربز میں چھپنے والے دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیں ان کی اکثریت محرومیوں اور غربت کا شکار تھی لیکن انہوں نے ہمت ہاری اور نہ ہی اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں اور عظمت کو اپنے اندر دفن ہونے دیا بلکہ وہ اپنے اندر کی اس عظمت کو اندر ہی اندر پروان چڑھاتے رہے، انہیں ہمیشہ اپنی اس عظمت کا ادراک رہا، انہوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے ذہن پر کوئی دبائو محسوس نہیں کیا اور ان کو جونہی مناسب موقع ملا وہ دنیا میں ایک چمک دار ستارے کی مانند نمودار ہوئے۔
جب انسان کو اپنی عظمت کا شعور حاصل ہو تو وہ جیسے بھی مشکل حالات کا شکار ہو وہ ان سے نکل آتا ہے اور ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب وہ اپنا لوہا منوا کر رہتا ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھنے والے، اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی پہچان کر کے ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھے لوگ عموما سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ حقیقی بڑے اور عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں، جن کو اپنی عظمت اور صلاحیتوں کا مکمل ادراک ہوتا ہے اور جو ہر مشکل اور رکاوٹ کو عبور کر کے ابھرتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کر سکیں گے آئن سٹائن ہوتا ہے دنیا کے
پڑھیں:
انسان اپنا دشمن آپ ہے!
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔
اگر آپ طاقتور اور بااختیارلوگوںکے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں ، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خو د ہی سوال کرتے ہیں اور خو د ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،خود ہی خوفزدہ ہیں اور خو د ہی خو د کو تسلی دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتا تے ہیں کہ اصل ماجرا کیاہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگر د وں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جو کچھ ہو چکاہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بد نصیبیوںکا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہوجائو ”۔
ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ‘انسان غورو فکر کر نے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہرقسم کے پاپڑ بیلتا ہے ” اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خر گو ش کا پیچھا کرتے ہیں ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہوسکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ مطابقت ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظر یات کی تائید کرسکیں ۔ آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ” ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خو اہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے ”۔ اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کو ئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے بااختیار اورطاقتور اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خو اہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں ،وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جارہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پرتیار نہیں ہیں ،وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہورہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پر یشانیوں کے نر غے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکہ کے شہر ہ آفاق میو برادرز نے اعلان کیا تھا کہ ” ہمارے ہسپتالوں کے نصف سے زیادہ بسترا عصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیاجاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے ۔ ان کے ” اعصابی عوارض ” کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی ، ناکامی ، شکست ، ہار ، فکر ، رنج، غم ، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں ”۔ افلاطون کہتاہے ” طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دئیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیاجاسکتا ہے ”۔
پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگرنے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کانام ”انسان اپنادشمن آپ ہے ” وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیادشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کا رفرماہیں آپ ان کا خاتمہ کرڈالیں تو آپ اس کتا ب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ” خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا” ۔ یہ ایک بو کھلادینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیاں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگریہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جاسکتا ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے ۔دیگر صورت میں پھر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گزارنا پڑیگا۔یہ کتنی کربنا ک بات ہے جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی وہ اپنی نااہلی کے احساس کو ظاہر ی شورو غوغا اور لاف زنی کے ذریعے اسے چھپاتے پھرتے ہیں، ان کی یہ حرکت نہایت بیہودہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے آدمی ” مغرور آدمی ادنی سے اختیارات کا مالک ہو کر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے” ۔انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے غلط کا رسوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ۔کنفیوشس کہتاہے جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کرو کہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی ہے ۔