سابق جنوبی افریقی کرکٹر ہرشل گبز نے پی ایس ایل فرنچائز کراچی کنگز کے ساتھ اپنے گزارے ہوئے وقت کی یادوں کو شیئر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بابراعظم کی انگلش اتنی اچھی نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں سمجھانے میں مجھے دشواری پیش آتی تھی، انہوں نے سوشل میڈیا پر پرستار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بابر کے ساتھ زبان کا مسئلہ تھا، آپ جانتے ہیں کہ ان کی انگلش اتنی اچھی نہیں ہے اس لیے انہیں کچھ نکات سمجھانے میں مشکل پیش آتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بابراعظم کی بیٹنگ کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ انہوں نے اپنی سوچ نہیں بدلی اور وہ اپنے انداز اور ٹیمپو کے ساتھ ہی کھیلتے رہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

انسان اپنا دشمن آپ ہے!

آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔
اگر آپ طاقتور اور بااختیارلوگوںکے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں ، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خو د ہی سوال کرتے ہیں اور خو د ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،خود ہی خوفزدہ ہیں اور خو د ہی خو د کو تسلی دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتا تے ہیں کہ اصل ماجرا کیاہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگر د وں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جو کچھ ہو چکاہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بد نصیبیوںکا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہوجائو ”۔
ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ‘انسان غورو فکر کر نے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہرقسم کے پاپڑ بیلتا ہے ” اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خر گو ش کا پیچھا کرتے ہیں ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہوسکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ مطابقت ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظر یات کی تائید کرسکیں ۔ آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ” ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خو اہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے ”۔ اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کو ئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے بااختیار اورطاقتور اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خو اہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں ،وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جارہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پرتیار نہیں ہیں ،وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہورہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پر یشانیوں کے نر غے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکہ کے شہر ہ آفاق میو برادرز نے اعلان کیا تھا کہ ” ہمارے ہسپتالوں کے نصف سے زیادہ بسترا عصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیاجاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے ۔ ان کے ” اعصابی عوارض ” کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی ، ناکامی ، شکست ، ہار ، فکر ، رنج، غم ، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں ”۔ افلاطون کہتاہے ” طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دئیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیاجاسکتا ہے ”۔
پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگرنے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کانام ”انسان اپنادشمن آپ ہے ” وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیادشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کا رفرماہیں آپ ان کا خاتمہ کرڈالیں تو آپ اس کتا ب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ” خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا” ۔ یہ ایک بو کھلادینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیاں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگریہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جاسکتا ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے ۔دیگر صورت میں پھر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گزارنا پڑیگا۔یہ کتنی کربنا ک بات ہے جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی وہ اپنی نااہلی کے احساس کو ظاہر ی شورو غوغا اور لاف زنی کے ذریعے اسے چھپاتے پھرتے ہیں، ان کی یہ حرکت نہایت بیہودہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے آدمی ” مغرور آدمی ادنی سے اختیارات کا مالک ہو کر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے” ۔انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے غلط کا رسوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ۔کنفیوشس کہتاہے جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کرو کہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • کتابوں سے عشق و محبت کیجیئے کیونکہ کتابیں تہذیب سکھاتی ہیں، عمران پرتاپ گڑھی
  • فہیم اشرف کی سلیکشن! رضوان خوش نہیں بڑا انکشاف
  • انسان اپنا دشمن آپ ہے!
  • بابراعظم نے نیا اعزاز اپنے نام کرلیا
  • بابراعظم نے ویرات کوہلی کو پیچھے چھوڑ دیا، ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین 6 ہزار رنز مکمل
  • ’’ معاشی خود مختاری تب ہوتی جب آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے‘‘
  • شیر افضل مروت مشکل وقت میں مضبوط کھڑے رہے، انہیں ہٹانے کا علم چئیرمین بیرسٹر گوہر خان کو بھی نہیں،شہریار آفریدی
  •  پاکستانی عوام نے ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا :رجب طیب اردوان
  • عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی