Jasarat News:
2025-04-15@09:45:01 GMT

الخدمت کے تحت حیا ڈے کی مناسبت سے 5 سیمینار

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ”حیا ڈے” کی مناسبت سے سیمیناز کا انعقاد۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے شعبہ آرفن کیئر کے تحت ”حیا ڈے” کی مناسبت سے شہر میں 5 مختلف سیمینارز کا انعقاد کیا گیا جن میں رجسٹرڈ بچے، بچیاں اور ان کی مائیں شریک ہوئیں۔ ان سیمینارز میں الخدمت حیدرآباد کے صدر نعیم عباسی، جوائنٹ سیکرٹری مصعب قاضی، الخدمت ویمن ونگ کی صدر فرح ناز، سیما امتیاز اور ممتاز عالم دین پروفیسر ڈاکٹر مجیب اللہ منصوری ے شرکت کی اور موضوع پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے حیا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ”حیا اسلام کی بنیادی اقدار میں سے ہے اور یہ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں خیر و برکت کا سبب بنتی ہے۔” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کر” (صحیح بخاری) اسی طرح سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو نظریں جھکانے اور شرم و حیا اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مجیب اللہ منصوری نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب پردہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں پردہ محض ایک لباس نہیں بلکہ ایک مکمل نظریہ حیات ہے، جو فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا ضامن ہے۔سیمینار میں بچوں نے حیا کے موضوع پر تقاریر کیں اور دیدہ زیب ڈرائینگ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اس موقع پر بچوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق حیا اور شرم و حجاب کی اہمیت سے روشناس کرایا گیا، تاکہ وہ ایک پاکیزہ اور مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ

دین اسلام زندہ و تابندہ ہے اور تاقیامت دنیا کی تاریکیاں اس کے تعلیمات سے روشن رہیں گی کیوں کہ دین اسلام کے راستے میں قربانیاں دی گئیں ان قربانیوں کا یہ صلہ ہے ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کو اپنے لہو سے سینچا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 164ہجری میں بغداد میں پیداہوئے۔ان کا خاندانی تعلق عرب کے ایک قبیلہ ’’شیبان‘‘ سے تھا۔والد کاسایہ کمسنی ہی میں سر سے اٹھ گیا لیکن بیوہ ماں نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن بغداد میں حاصل کرنے کے بعد عصری علوم یعنی فقہ و حدیث کے حصول کے لئے خود کو آمادہ و تیار کرلیا اور کم عمری ہی میں فقہ اور علم حدیث میں مہارت حاصل کرلی اور عظیم حافظ حدیث کہلائے جانے لگے۔
امام احمد بن حنبل فقہی اصولوں کے بارے یہ رائے رکھتے تھے کہ قرآن اور احادیث ان کے بنیادی ماخذ ہیں ۔جہاں کہیں قرآن و حدیث میں واضح دلیل دستیاب نہ ہوتی تو پہلی وآ خری ترجیح اقوال صحابہ رضی اللہ ھم اجمعین کو دیتے ۔
آپ قیاس اور اجماع کو انتہائی محدود پیمانے پر توجہ کے قابل گردانتے تھے۔آپ کی صعوبتوں کا آغاز تب ہوا جب آپ نے عباسی دور میں معتزلہ کے اٹھا ئے فتنے کہ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ کے عقیدے کے خلاف آواز بلند کی ۔
خلیفہ مامون کا دور تھا وہ معتزلیوں کا عقیدت مند تھا پس اس نے امام کی گرفتاری کا حکمنامہ جاری کردیا۔یہ سلسلہ یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ مامون کے بعد جب معتصم نے خلافت سنبھالی تواس نے سزا کا سلسلہ تیز تر کردیا۔اہل سنت کے عقیدے کا دفاع کرنے پر امام علیہ الرحمت کوکوڑے مارے گئے اتنے کہ ان کا جسم ادھڑ کر رہ گیا مگر انہوں نے صدائے حق پر وہ استقامت دکھائی کہ دنیا حیران زدہ رہ گئی۔قیدو بند کی صعوبتیں امام احمد بن حنبل کی استقامت کو متزل نہ کر سکیں۔
معتصم کے اقتدار کے خاتمے کے بعد متوکل خلافت کے سنگھاسن پر براجمان ہوا تو حالات کا رخ بدل گیا ۔اب امام احمد کی سزائیں ختم کی گئیں انہیں عزت و احترام کے ساتھ رہا کیا گیا یوں عوام دل و جان سے ان کی قدر کرنے لگی۔
امام احمد بن حنبلؒکی مشہور تصنیف ’’المسند‘‘ ہے ۔جواحادیث نبویﷺ کا عظیم مجموعہ ہے جس میں احادیث کو راویوں کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔یہ مجموعہ تقریبا ً چالیس ہزار احادیث اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔جسے امام نے اصحاب رسول ﷺ کے اسمائے گرامی کے مطابق ترتیب دیا ہے ۔جس میں ہر صحابیؓ کی روایات کا جدا جدا ذکر کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے المستند کے مضامین انتہائی سلیقے سے بیان کئے ہیں جن میں عقائد و توحید، سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، فقہ و احکام،اخلاق و آداب ، فضائل و اعمال اور فتنوں سے متعلق پیش گوئیاں فرمائی گئی ہیں۔ مذکورہ مجموعے میں انتہائی جامعیت کے ساتھ احادیث کو ان کے مقام و اقسام مثلاً ضعیف، حسن اور صحیح احادیث جمع کی ہیں ۔
امام احمد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ’’ ہر وہ حدیث جو کسی نہ کسی طرح نبی علیہ السلام سے منسوب ہواسے ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘ امام نے اپنے مجموعہ احادیث میں سند کی مضبوطی کو ملحوظ خاطر رکھا، مسند میں صحیح اور حسن درجے کی احادیث کو فوقیت دی تاہم بعض ضعیف روایات شامل کیں جن کی وضاحت بعد کے محدثین نے کی۔اس مجموعے میں سات سو سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مرویات جمع کی گئی ہیں۔
امام احمد نے متعدد ایسی احادیث جو حدیث کی دیگر کتب میں ناپید ہیں انہیں اس مجموعے میں محفوظ کیا گیا ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 241ھ میں اپنی جنم بھومی بغداد ہی میں مالک حقیقی سے جاملے ،ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے جوق در جوق شرکت کرکے امام کے علمی مقام پر مہر تصدیق ثبت کی۔انا للہ وانا الیہ راجعون

متعلقہ مضامین

  • چین ویتنام ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینا عالمی اہمیت کا حامل ہے، چینی صدر
  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم
  • عطا تارڑ کا غزہ امداد بھیجنے پر الخدمت اور جماعت اسلامی کو خراج تحسین
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • وفاقی محتسب کا سفارتی برادری کو ٹیکس شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بااختیار بنانے کے لیے سیمینار کا انعقاد
  • استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
  • امریکا اسٹریٹجک پارٹنر اور چین سے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، وزیرخزانہ
  • قومی اہمیت کے حامل 2 اہم کیسز آئینی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر