Daily Mumtaz:
2025-02-15@17:28:20 GMT

روس کیخلاف یورپ اور امریکا کی مدد درکار ہے: صدر زیلنسکی

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

روس کیخلاف یورپ اور امریکا کی مدد درکار ہے: صدر زیلنسکی

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس کے خلاف امریکا اور یورپ سے مدد مانگ لی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق جرمنی کے شہر میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے دوران یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کی مدد کرنے کے لیے یورپ اور امریکا کو اتحاد کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی یوکرین کو کبھی بھی نیٹو کا حصہ تصور نہیں کیا تھا۔

صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کو اپنے تحفظ کے لیے ٹھوس ضمانتیں درکار ہیں، ہم روسی صدر سے تب تک ملاقات نہیں کریں گے جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کا مشترکہ منصوبہ سامنے نہیں آ جاتا۔

کانفرنس میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کے بعد صدر زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہونے سے قاصر رہتا ہے تو ہم اپنی فوج کی تعداد کو دگنا کر دیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: صدر زیلنسکی نے کہا کہ

پڑھیں:

ٹرمپ کی نئی صف بندیاں اور پاکستان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ 12 فروری 2025 کو انکشاف کیا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر طویل بات چیت کی، جس کے نتیجے میں روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کےلیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔

یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے کیونکہ اب تک کی صورتحال میں روس اپنی شرائط پر ہی امن قائم کرنے کا خواہاں رہا ہے، جبکہ یوکرین مغربی حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے جنگ کو طول دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان براہ راست مذاکرات اس تنازع کے مستقبل کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ فون کال نہ صرف یوکرین کےلیے ایک دھچکا ہے بلکہ اس سے نیٹو کے کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر شک کا اظہار کیا ہے، جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ نیٹو کے ذریعے یوکرین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کےلیے تیار نہیں ہے۔ یہ بیان امریکا اور یورپی اتحادیوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ نیٹو ممالک یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے نیٹو پر امریکا کے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے سابقہ دور صدارت میں بھی نیٹو کے اخراجات میں کمی کی کوشش کی گئی تھی، اور اب جب کہ وہ دوبارہ صدر بن چکے ہیں، ان کی پالیسی ایک بار پھر اسی سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا براہ راست اثر یوکرین پر پڑے گا، کیونکہ اگر امریکا نے نیٹو کے ذریعے مکمل تحفظ کی یقین دہانی سے انکار کردیا تو دیگر یورپی ممالک کےلیے یوکرین کی مدد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

روسی صدر پوٹن کی مذاکرات پر آمادگی بظاہر ایک مثبت قدم معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے پیچھے روس کے مخصوص اہداف بھی ہوسکتے ہیں۔ روس شاید اس وقت جنگ بندی پر اس لیے آمادہ ہورہا ہے کیونکہ اسے احساس ہوچکا ہے کہ مغربی ممالک کی مسلسل مدد یوکرین کو غیر متوقع طور پر زیادہ دیر تک لڑنے کی صلاحیت دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پوٹن واقعی امن چاہتے ہیں، یا یہ محض ایک سفارتی چال ہے تاکہ وقتی طور پر جنگ بندی ہو، اور روس خود کو دوبارہ منظم کرسکے؟ 

اسی دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا امریکا کا دورہ بھی عالمی سیاست میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے گرمجوش رہے ہیں، اور اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے۔ امریکا، بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں بھارت کو کئی اقتصادی اور دفاعی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ 

یہ صورتحال پاکستان کےلیے خاصی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن کےلیے پاکستان کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت نے خود کو مغربی دنیا کے ایک بڑے اقتصادی اور اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر منوایا ہے، جبکہ پاکستان اپنی سفارت کاری میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا جو اسے عالمی سیاست میں ایک نمایاں مقام دے سکے۔ 

اگر ہم عالمی سطح پر رونما ہونے والے ان واقعات کے تناظر میں پاکستان کے سفارتی مقام کا جائزہ لیں تو صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اب تک کسی بھی پاکستانی اعلیٰ سطح کے رہنما کا امریکی قیادت سے کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے کیونکہ جب دنیا کے بڑے ممالک جیسے روس، یوکرین، چین اور بھارت امریکی پالیسی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، تو پاکستان کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا کرتی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مسئلہ پاکستان کی بیوروکریسی اور سفارتی پالیسی کی کمزوری ہے یا امریکا کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی کا حصہ؟ اگر ہم سفارتی ناکامی کی بات کریں تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک متحرک اور جدید حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سفارتی تعلقات محض رسمی بیانات سے نہیں بلکہ مسلسل روابط اور مؤثر پالیسی سے مضبوط ہوتے ہیں۔

افغانستان کا معاملہ امریکی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں اس حوالے سے بھی پاکستان کے کردار پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ امریکا کےلیے افغانستان کی صورتحال اب اس طرح اہمیت نہیں رکھتی جیسا کہ ماضی میں تھی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کےلیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ امریکا، جو ہمیشہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے، اب خطے میں بھارت کو ترجیح دے رہا ہے اور پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کےلیے زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں فوری اور بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی تاکہ وہ اپنی سفارتی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔ 

موجودہ صورتحال میں پاکستان کو فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی کے کچھ نکات پر محنت کرنا ہوگی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ یا وزیراعظم کو براہ راست امریکی قیادت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے متحرک ہونا پڑے گا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ روس، یوکرین، چین اور بھارت کے ساتھ سفارتی طور پر متحرک ہیں، تو پاکستان کےلیے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ واشنگٹن سے اپنے تعلقات کو ازسر نو مستحکم کرے۔ 

پاکستان کو صرف اپنی داخلی سیاست تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عالمی امور میں مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سفارتی وفود کو زیادہ متحرک اور موثر بنایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کا نقطۂ نظر عالمی سطح پر سنا جاسکے۔ 

اگر امریکا بھارت کو ایک بڑے اقتصادی پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے تو پاکستان کو بھی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ 

پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی اہمیت منوانی ہوگی۔ اگر امریکا اس معاملے پر پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے، تو اسلام آباد کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جو اسے خطے میں ناگزیر بنا سکیں۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی صدر پوٹن کے ساتھ گفتگو، یوکرین جنگ کے مستقبل، نیٹو کی پالیسی اور امریکا بھارت تعلقات سب کچھ عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر ازسر نو غور کرے اور عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائے۔ اگر پاکستان فوری اقدامات نہ کرے تو خدشہ ہے کہ امریکا کی نئی پالیسیوں میں پاکستان کےلیے جگہ مزید کم ہوجائے گی، جو مستقبل میں پاکستان کی معیشت، سفارت کاری اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی ملک سنسر شپ کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور تارکین وطن کی بے تحاشہ آمد پر قابو نہیں پا سکے.جے ڈی وینس
  • ٹرمپ کی نئی صف بندیاں اور پاکستان
  • امریکی امداد کے بغیر میں روس سے جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتا، زیلنسکی
  • امریکا کا یورپ کو آزادی اظہار پر لیکچر
  • یورپی اتحادیوں کو خطرہ اندر سے ہے: میونخ کانفرنس میں امریکی نائب صدر کا  خطاب
  • روس خطرہ ہے، دفاعی اخراجات بڑھانے ہونگے: نیٹو
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب پوٹن سے رابط
  • یوکرین کی شمولیت کے بغیر یوکرین کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوگی . برطانوی وزیر دفاع
  • امریکی میڈیا، سچ اور معاشرتی علوم