Islam Times:
2025-04-15@09:52:06 GMT

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ، خطرات اور مضمرات

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ، خطرات اور مضمرات

اسلام ٹائمز: نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی مسعود کے اہل خانہ کو افغان طالبان سے ہر ماہ تقریباً 43 ہزار ڈالر ملتے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حمایت بند کروانے کے لئے دباؤ کے باوجود افغان طالبان کی مسلسل حمایت پاکستان میں اس گروپ کے بڑھتے ہوئے حملوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 35 ویں رپورٹ میں کہی گئی۔ تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قائم کردہ آزاد ماہرین کا ایک پینل ہے جو القاعدہ، داعش خراسان اور اس سے وابستہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کے خلاف پابندیوں کے نفاذ میں مدد فراہم کرتا ہے۔

فنشل، لاجسٹک اور آپریشنل اسپورٹ:
ٹیم بین الاقوامی پالیسی اور سلامتی کی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے ان تنظیموں کی طرف سے درپیش خطرے کے منظرنامے کا جائزہ لینے کے لیے 2 سالانہ رپورٹ پیش کرتی ہے۔ یکم جولائی سے 13 دسمبر 2024 تک کی مدت کا احاطہ کرنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حیثیت اور طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، جب کہ اس گروپ نے پاکستان پر اپنے حملوں میں اضافہ کیا، 600 سے زائد حملے کیے، جن میں سے زیادہ تر افغان علاقے سے کیے گئے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور آپریشنل امداد، تربیتی مراکز، پناہ گاہیں اور مالی مدد فراہم کرتے رہے، جس سے گروپ کی اپنی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی مسعود کے اہل خانہ کو افغان طالبان سے ہر ماہ تقریباً 43 ہزار ڈالر ملتے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا (برمل) صوبوں میں نئے تربیتی مراکز بھی قائم کیے ہیں، جب کہ افغان طالبان کی صفوں کے اندر سے بھرتیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس توسیع کی وجہ ٹی ٹی پی  افغانستان میں قائم ہونیوالی اور آپریٹ کرنیوالی سب سے بڑے درجے کی دہشت گرد تنظیم بن چکی ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق 6،000 سے 6،500 جنگجو ہیں۔ اس گروپ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مسلسل نظریاتی اور تاریخی تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔

بڑھتے ہوئے حملوں کیوجہ سے پاکستان نے فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے، جس میں افغان سرحد کے پار، خاص طور پر پکتیکا اور خوست میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان فوجی اقدامات میں سرحد پار چھاپے اور جوابی حملے بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی روابط کو آگے بڑھایا اور افغان طالبان پر زور دینے کے لیے کابل میں وفود بھیجے کہ وہ ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کریں۔ تاہم، افغان حکام فیصلہ کن اقدامات کے بجائے ثالثی کی تجویز پیش کرنے سے گریزاں رہے، جس کی وجہ سے سفارتی تعطل پیدا ہوا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ان پیش رفتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

تحریک جہاد پاکستان، دہشت گردوں کا مشترکہ پلیٹ فارم:
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ افغان طالبان کی حمایت نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ حکمت عملی کو تیز کرنے کے قابل بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر (ٹی ٹی پی) کے حملوں کی تعداد اور عزم میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون میں اضافے سے ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ تنظیمیں تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے جھنڈے تلے حملے کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوا ہے، جس میں خودکش بمباروں اور جنگجوؤں اور نظریاتی رہنمائی کی فراہمی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ افغان تعاون کالعدم ٹی ٹی پی کو دوسرے خطوں اور ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک چھتری فراہم کرنیوالی تنظیم میں تبدیل کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اپنے مجید بریگیڈ کے ذریعے آواران، پنجگور اور دالبندین سمیت جنوب مغربی پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ مجید بریگیڈ نے خواتین کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کے کالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی کے ساتھ رابطے ہیں، اور یہ عناصر افغانستان میں اپنے آپریشنل مراکز اور روابط کے ذریعے بی ایل اے سمیت ان گروہوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ 

روایتی طور پر نسلی قوم پرست مقاصد کی پیروی کرنے والے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسے مذہبی دہشت گرد گروہوں کے درمیان یہ ابھرتا ہوا گٹھ جوڑ مفادات کے تزویراتی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کی داعش خراسان کی کوششوں کو ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے 3 ہائی پروفائل کارندوں کو گرفتار کیا۔ اس سے قبل ان کی گرفتاری کا اعلان پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا، جو ان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی باقاعدگی سے تشہیر کرتی ہیں۔

ہائی پروفائل دہشت گردوں کی نشاندہی:
رپورٹ میں پنج شیری کو داعش خراسان کے لیے ٹریول اینڈ لاجسٹکس کا کوآرڈینیٹر بتایا گیا ہے، جب کہ منزیر نے وسطی ایشیا میں بھرتی نیٹ ورکس کا انتظام کیا، کاکا یونس کی شناخت دہشت گردی کی سرگرمیوں کے ایک اہم مالی اعانت کار کے طور پر کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کے باوجود طارق تاجک، جسے کرمان حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، افغانستان میں مفرور ہے۔ رپورٹ کے مطابق، داعش خراسان نے نشاندہی سے بچنے اور مزید گرفتاریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں اور اجلاسوں کے انعقاد کے لیے الیکٹرانک مواصلات سے دوری اور احتیاط کی پالیسی اپنائی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دہشت گرد گروہوں کے رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی افغانستان میں کیا گیا ہے کہ افغان طالبان رپورٹ میں ان میں اضافہ کہ افغان ٹی ٹی پی کے ساتھ کرتا ہے کے لیے کی گئی

پڑھیں:

غیر قانونی افغان باشندوں، کارڈ ہولڈرز کا انخلاء تیزی سے جاری

ملک بھر میں غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے، گذشتہ روز طورخم سرحد کے راستے 2 ہزار 4 سو18 غیر قانونی مقیم افغان شہری بے دخل کئے جا چکے ہیں۔
13 اپریل کو 13,000 سے زائد غیر قانونی افغان باشندوں کو وطن واپس روانہ کیا گیا،مجموعی طور پر پاکستان چھوڑنے والے غیر قانونی افغان باشندوں کی تعداد 948,870 تک پہنچ چکی ہے،حکومتِ نے واپس جانے والوں کے لیے خوراک اور صحت کی بہترین سہولیات فراہم کیں ہیں۔
امیگریشن ذرائع کے مطابق گذشتہ روز 2 ہزار 418 افراد پر مشتمل 452 غیر قانونی مقیم افغان خاندان لنڈیکوتل ٹرانزٹ کیمپ آئے، جنھیں قانونی کاروائی پوری ہونے کے بعد انہیں طورخم سرحد کے راستے ڈی پورٹ کردیا گیا۔
یکم اپریل سے لیکر اب تک 35 ہزار 676 غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کیا جاچکا ہے۔۔
حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی باعزت وطن واپسی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے،کہ غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کے دوران کسی سے بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔
حکومتِ پاکستان نے واپس جانے والوں کے لیے خوراک اور صحت کی بہترین سہولیات فراہم کی ہیں۔ دوسری طرف انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی ہدایت پر پولیس کی غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کے انخلا ء کی مہم جاری، جس کے تسلسل میں 10136 سے زائد غیر قانونی مقیم باشندوں کو ہولڈنگ سنٹرز پہنچایا جا چکا ہے جبکہ 560 غیر قانونی مقیم افراد ہولڈنگ پوائنٹس پر موجود ہیں۔
ترجمان پنجاب پولیس نے بتایا کہ لاہور میں 5 اور صوبہ بھر میں 46 ہولڈنگ سنٹرز قائم ہیں۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ دیگر ممالک کی طرح انٹرنیشنل قوانین کے تحت ڈی پورٹیشن پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
وفاقی حکومت اور حساس ادارے غیر قانونی مقیم باشندوں کی ڈی پورٹیشن مہم کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ تمام غیر قانونی مقیم شہریوں کا انخلاء یقینی بنا رہے ہیں اور سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ انخلا ء کے عمل کے دوران ہیومن رائٹس کو مکمل طور پر مدنظر رکھا جا رہا ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت کی بے حسی، واپس بھیجے گئے مہاجرین افغانستان رُل گئے
  • افغان پاکستان سے کس حال میں اپنے وطن جا رہے ہیں؟
  • غیر قانونی افغان باشندوں، کارڈ ہولڈرز کا انخلاء تیزی سے جاری
  • افغانستان؛ مسجد کے قریب بم دھماکے میں خاتون جاں بحق اور 3 افراد زخمی
  • غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا انخلا ءتیزی سے جاری
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • وزیراعظم شہباز شریف کا افغان حکومت کو دہشت گردوں کو لگام ڈالنے کا مشورہ
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات