سابق کپتان نے بابراعظم سے اوپننگ کروانے کی مخالفت کردی
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
قومی ٹیم کے سابق کپتان و ڈائریکٹر محمد حفیظ نے بابراعظم کو چیمپئینز ٹرافی میں بطور اوپنر کھلانے کی مخالفت کردی۔
سہ ملکی سیریز میں پاکستان نے تین میچز کھیلے جس میں بابراعظم نے فخر زمان کے ساتھ اوپننگ کی تاہم وہ کچھ خاص نہ کرسکے، انہوں نے تینوں نے اننگز میں بالترتیب 10، 23 اور 29 کے معمولی اسکور بنائے۔
قبل ازیں سلیکشن کمیٹی نے چیمپئینز ٹرافی اسکواڈ کا اعلان کیا تو انجرڈ صائم ایوب کی جگہ کہنا تھا اوپننگ کیلئے بابراعظم یا سعود شکیل کو موقع دیا جائے گا تاہم سہ ملکی سیریز میں بابر اوپننگ کرتے نظر آئے۔
مزید پڑھیں: ہیڈ کوچ عاقب جاوید کا بابراعظم کے حوالے سے اہم بیان
سابق کپتان محمد حفیظ نے بابراعظم کی حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ سلیکشن کمیٹی کو چاہیے وہ اسٹار بیٹر کو نمبر 3 پر کھلائیں اور عبداللہ شفیق، امام الحق یا شان مسعود کو چیمپئنز ٹرافی 2025 کیلئے فخر زمان کیساتھ اوپن کروائیں اور اسکے لیے چیزیں آسان بنائیں۔
مزید پڑھیں: سہ ملکی سیریز کا فائنل؛ بابراعظم نے اہم سنگ میل عبور کرلیا
دوسری جانب چیمپئینز ٹرافی کا آغاز 19 فروری سے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ سے ہوگا جبکہ ایونٹ کا فائنل 9 مارچ کو کھیلا جائے گا۔
پاکستان کا چیمپئینز ٹرافی اسکواڈ:
محمد رضوان (کپتان)، بابراعظم، فخر زمان، کامران غلام، سعود شکیل، طیب طاہر، فہیم اشرف، خوشدل شاہ، سلمان علی آغا (وی سی)، عثمان خان، ابرار احمد، حارث رؤف، محمد حسنین، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئینز ٹرافی
پڑھیں:
میری بہت مخالفت ہوئی، کہا گیا یہ خاتون کون ہیں، ان کی برادری کیا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک---فائل فوٹوسپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے کہا ہے کہ میری بہت مخالفت ہوئی، کہا گیا یہ خاتون کون ہیں؟ ان کی برادری کیا ہے؟
اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب میں جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجھے 2012ء میں لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک نے کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس سننے سے معذرت کر لی۔
انہوں نے کہا کہ یہ خاتین پہلے بینچ اور کورٹ روم میں دکھائی نہیں دیتی تھیں، جس کی وجہ سے میری بہت مخالفت ہوئی، کہا گیا کہ ان کے کنیکشن کیا ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیسے جیسے میں نے اپنا عدالتی سفر آگے بڑھایا لوگ مجھے قبول کرنے لگے، اپنی جگہ اور توجہ حاصل کرنے اور سراہے جانے کے لیے لڑنا پڑتا ہے، جب میں اپنی گاڑی میں کہیں جاتی تو پوچھا جاتا کہ جج صاحب نہیں آئے۔