لیبیا ، ایک اور اجتماعی قبر دریافت، 29تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
لیبیامیں قبر سے برآمد ہونے والی لاش کے گر د فارنسک ماہرین تحقیقات کررہے ہیں
طرابلس (انٹرنیشنل ڈیسک) لیبیا کے سیکورٹی حکام نے ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں ایک اور اجتماعی قبر سے مزید 29 تارکین وطن کی لاشیں برآمد کرلیں،جس کے بعد تارکین وطن کی برآمد کی جانے والی لاشوں کی مجموعی تعداد 57ہو گئی۔ لیبیا کے اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ کفرہ کے شمالی علاقے سے مزید 29 لاشیں برآمد کی گئیں۔ اس سے قبل 28 دیگر لاشیں دارالحکومت طرابلس سے 1700 کلومیٹر دور کوفران کے شمالی علاقے سے برآمد ہوئی تھیں۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے کہا کہ لیبیا میں 2اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں پر گولیوں کے زخم ہیں۔ حکام کو توقع ہے کہ آپریشن کے دوران تارکین وطن کی مزید قبریں بھی دریافت ہوں گی۔ برآمد ہونے والی لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے پراسیکیوٹرز اور کریمنل انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے سامنے لیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 6جنوری کو لیبیا کے جنوب مشرقی ضلع کوفرا میں اجتماعی قبر ملی تھیجس ۔ یہ قبر انسانی اسمگلنگ کے مقام پر چھاپے کے بعد ملی جہاں سے حکام نے سب صحارا کے 76 تارکین وطن کو رہا کرایاتھا۔ چھاپے میں ایک ایسے گروہ کے خلاف کارروائی کی گئی جس کے ارکان نے جان بوجھ کر غیر قانونی تارکین وطن کو ان کی آزادی سے محروم رکھا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ ظالمانہ، ذلت آمیز اور غیر انسانی سلوک کیا۔ لاشوں کو چھاپے کی جگہ کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے 3افراد کو گرفتار بھی کیا جن میں سے ایک کا تعلق لیبیا سے اور 2غیر ملکی تھے۔ واضح رہے کہ لیبیا 2011 ء میں معمر قذافی کے خلاف ناٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد پیدا ہونے والے انتشار اور افراتفری سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور انسانی اسمگلرز اس عدم استحکام کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے لیبیا کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کے خلاف برتے جانے والے سلوک پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: تارکین وطن کی
پڑھیں:
اجتماعی جدوجہد کا منفی ماڈل
حیدرآباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں فینسی نمبر پلیٹ، سیاہ شیشے اور قیمتی لائٹ والی گاڑیوں کے خلاف پورے شہر میں مہم شروع کی۔ پولیس کی ٹیم نے بھٹائی نگر کے علاقے میں گاڑیوںکی چیکنگ کے دوران ایک سبز نمبر والی سرکاری نمبر پلیٹ والی کار کو روکا ، اس گاڑی کے سیاہ شیشے تھے۔
گاڑی کا ڈرائیور پولیس افسر کے سوالات کا جواب نہ دے سکا جس کی بناء پر اس کار کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، یہ گاڑی حیدرآباد کے ایک سینئر وکیل کی تھی۔ وکیلوں کے ایک گروپ نے حیدرآباد کے ایس ایس پی ڈاکٹر فرخ علی لنجار سے ملاقات کی۔ وکیلوں کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر غلط درج کی گئی۔ اس بناء پر ایف آئی آر ختم کی جائے مگر ایس ایس پی ایف آئی آر ختم کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
وکلاء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ متعلقہ وکیل کی یہ گاڑی ایس ایس پی کے قافلے میں داخل ہوگئی تھی ۔ ایس ایس پی نے گاڑی کے ان کے قافلے میں داخلے پر ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے ایس ایچ او کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب ایس ایس پی اور ڈی آئی جی نے ایف آئی آر ختم کرنے کے مطالبے کو نہ مانا تو وکلاء نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیدیا۔ اس دھرنا کی بناء پر کراچی ، حیدرآباد سڑک پر ہر قسم کی ٹریفک معطل گئی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق نیشنل ہائی وے پر ہزاروں مختلف نوعیت کی گاڑیاں جمع ہوئیں۔
ان میں پنجاب اورخیبر پختون خوا جانے اورآنے والی بسیں، ٹرک اور ٹرالر شامل تھے۔ مسافروں کو جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے شدید سردی میں کئی دن گزارنے پڑے۔ ان میں کچھ مسافر اپنے پیاروں کی میتوں کی تدفین کے لیے اپنے اپنے آبائی شہروں کو جارہے تھے۔
ملیر بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی قیادت میں وکیلوں نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا اور اس شاہراہ کو بند کردیا ۔ پھر اس کے ساتھ سندھ کی تمام بار ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے اپنے حیدرآباد کے رفیقوں سے یکجہتی کے لیے ہڑتال شروع کردی۔ ٹھٹھہ، سجاول، بدین، لانڈھی، بھینس کالونی سے آنے والے ہزاروں سے زیادہ افراد شاہراہ فیصل تک نہ پہنچ سکے یوں شاہراہ فیصل پر ٹریفک معطل ہوگیا۔ حیدرآباد کے عہدیداروں نے ڈی آئی جی حیدرآباد اور کراچی میں وزارت داخلہ کے سینئر افسروں سے طویل مذاکرات کیے۔ وکلاء کا مطالبہ تھا کہ متعلقہ ایس ایس پی کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔
پولیس کے اعلیٰ افسر نے یہ پیشکش کی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے مگر وکلاء کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پہلے ایس ایس پی کا تبادلہ کیا جائے پھر وکلاء عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونگے۔ حکومت نے سندھ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے مذاکرات کیے مگر سندھ کے شہری چار دن تک ایک کنفیوژن اور بے بسی کا شکار رہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کی کابینہ کے وزراء سینئر وزیر شرجیل میمن اور ناصر شاہ صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ چین کے دورہ پر گئے ہوئے تھے، یوں سندھ میں فیصلہ ساز اداروں کا کوئی فرد سندھ کے دار الحکومت کراچی میں موجود نہیں تھا مگر پھر خدا خدا کرکے سندھ حکومت کسی فیصلے پر پہنچ گئی۔ حیدرآباد کے ڈی آئی جی طارق رزاق دھاریجو نے ایس ایس پی کو چھٹیوں پر بھیج دیا۔ جب یہ تنازع شروع ہوا تھا تو حیدرآباد کے تمام ایس ایچ او اور دیگر افسران نے اس ایس ایس پی سے یکجہتی کے لیے رخصت کی درخواست جمع کرادی تھی اور یہ افسران ایس ایس پی دفتر پر جمع ہوگئے تھے مگر شاید اعلیٰ افسروں کی مداخلت پر ان افسروں نے اپنی رخصت کی درخواستوں پر زور نہیں دیا۔
وکلاء نے اپنی اس اجتماعی جدوجہد کی کامیابی کا خوب جشن منایا۔ سول سوسائٹی کے بعض متحرک کارکنوں نے اس کو پولیس کے ظلم کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی کامیابی قرار دیا مگر اس جھگڑے نے کئی نئے سوالات اٹھا دیے۔ وکیلوں کی اجتماعی جدوجہد سے یہ سوال اہم ہوگیا کہ اپنی برادری کے کسی فرد کے مبینہ طور پر انفرادی حق کے غضب ہونے پر اجتماعی جدوجہد کو راستہ بنانا مظلوموں کے حقوق کے لیے اجتماعی جدوجہد کے لیے مفید ہے یا تباہ کن ہے۔
وکلاء میں اجتماعی جدوجہد کا دور 2007سے شروع ہوتا ہے جب اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مستعفی ہونے کی ہدایت دی مگر افتخار چوہدری نے اس حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جس پر افتخار چوہدری کو معطل کرکے کچھ دنوں کے لیے نظربند کردیا گیا جس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لیے وکلاء نے ایک تاریخی اجتماعی جدوجہد شروع کی۔ اس وقت کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تمام تنظیموں نے وکلاء کی تحریک کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا وعدہ کیا مگر سابق صدر پرویز مشرف کے صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے اس وعدے کو پورا کرنے سے انکار کیا تو میاں نواز شریف اور بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت میں ہزاروں افراد پر مشتمل جلوس گوجرانوالہ پہنچا تو میاں نواز شریف کو چیف جسٹس کی بحالی کی اطلاع دی گئی اور میاں صاحب نے واپس ماڈل ٹاؤن جانے کا فیصلہ کیا۔
بعد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے باقاعدہ طور پر جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد وکلاء ایک مضبوط گروہ کی شکل میں سامنے آئے۔ چند وکلاء کے ذاتی جھگڑے پر سیکڑوں وکلاء نے لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کر کے اسپتال کو سخت نقصان پہنچایا، خاص طور پر پنجاب سے یہ خبریں زیادہ آنے لگیں کہ چھوٹے شہروں میں وکلاء کے گروہ ججوں کو یرغمال بناتے ہیں اور ان سے مرضی کے فیصلے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک واقعے میں وکلاء کے ایک گروپ نے چیف جسٹس اسلام آباد کے چیمبر پر بھی حملہ کیا جس پر چند وکیلوں کو سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ سینئر وکلاء کا کہنا تھا کہ وکلاء میں ایک خاص قسم کا فاشزم ابھر کر سامنے آرہا ہے اور اجتماعی جدوجہد کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد کے اس واقعے کے بارے میں فریقین نے جو الزام لگائے ہیں جوڈیشل کمیشن کی آزادانہ تحقیقات سے ہی ان میں سے کوئی ایک الزام صحیح یا غلط ثابت ہوسکتا تھا مگر وکلاء کا اپنے ساتھی کی جانب سے لگائے گئے الزام کے درست ثابت ہونے سے پہلے کئی دن تک احتجاج ،سندھ کی عدالتوں کی بندش اور ہزاروں افراد کی زندگیوں کو معطل کرنے اور کروڑوں روپے کے نقصان کا اس صورت میں کون ذمے دار ہوگا جب جوڈیشل کمیشن وکلاء کے الزام کی توثیق نہیں کرتا؟ چند ماہ قبل عمر کوٹ پولیس کے اہلکاروںکے ہاتھوں ایک ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی نے سخت احتجاج کیا، اگر وکلاء معصوم آدمی کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے تو ایک اعلیٰ قسم کی روایت قائم ہوتی۔
اجتماعی تحریکوں کا جائزہ لینے والے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اجتماعی جدوجہد مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کے لیے سب سے اہم اور موثر ہتھیار ہے۔ طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور سیاسی کارکنوں نے اجتماعی جدوجد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے ہیں۔ گلگت اور آزاد کشمیر میں سول سوسائٹی کی اجتماعی جدوجہد کی تاریخ یہی سبق دیتی ہے، اگر اجتماعی جدوجہد کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ ہتھیار کمزور ہوجائے گا۔