گزشتہ روز اپنے آپ آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے وزیراعظم ہاوس میں ترک صدر رجب طیب اردوان کے اعزاز میں دئیے جانے والے ایک ظہرانے میں صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں حکم دیا ہے”انہیں کوئی خط نہیں ملا ، خط کی باتیں محض چالیں ہیں ، اگر کوئی خط ملا وہ اسے وزیراعظم کو بھجوا دیں گے“ ، ممکن ہے وہ یہ خط وزیراعظم کو بھجوائیں وزیراعظم وہ خط لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائیں اور عرض کریں”سر آپ کو ملنے والا خط بھلا ہم پڑھنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں ؟ اس خط میں کچھ ایسی باتیں بھی تو ہو سکتی ہیں جو ہمارے پڑھنے والی نہ ہوں صرف آپ کے پڑھنے والی ہوں چنانچہ بہتر ہے یہ خط آپ ہی پڑھیں البتہ یہ خط پڑھنے کے بعد اگر آپ نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہیں اس کام کے لئے پھر مجھے بلا لیجئے گا“ ، محترم آرمی چیف نے وزیراعظم ہاوس میں ترکی کے صدر کے ظہرانے میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں صرف خط کے نہ ملنے کا کہا ، وہ اگر یہ فرما دیتے ”انہیں معلوم ہی نہیں خط ہوتا کیا ہے ؟“ ان کے اس حکم پر بھی اس حکم کی طرح آنکھیں و دیگر اعضاءوغیرہ بند کر کے ہم نے یقین کر لینا تھا کہ” ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے“ ، محترم آرمی چیف نے یہ بھی فرمایا ”ملک تیزی سے ترقی کر رہاہے، ہم بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں“ ،ہم ان کے اس”حکم“ کی بھی آنکھیں بند کر کے تعمیل کر لیں گے کیونکہ اگر ہم نے آنکھیں کھول کر تعمیل کی پھر وہ ترقی ہمیں سوائے وزیراعظم ہاوس ، وزیراعظم کے سرپرست اعلیٰ ہاوس یا سوائے پارلیمنٹ کے کہیں دکھائی نہیں دینی ، پارلیمنٹ کی ترقی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کر دیا گیا ہے ، اس کے بعد کون یہ کہہ سکتا ہے”پاکستان میں پارلیمنٹ کی کوئی توقیر نہیں ہے ؟“ ، خوشگوار پہلو یہ ہے ہمارے محترم آرمی چیف نے بہت عرصے بعد صحافیوں کا سامنا کیا ، وہ چاہتے کنی کترا کے نکل بھی سکتے تھے مگر انہیں چونکہ معلوم ھے ہماری صحافت کم از کم ان کے حوالے سے مکمل طور پر ایک تابعدار اور ”اچھی بچی“ بن چکی ہے چنانچہ انہوں نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی ، جہاں تک ملکی ترقی کا معاملہ ہے اس کی ابتدائی صورت صرف ایک ہی ہو سکتی ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس جا کر اپنا اعتماد اور اپنی عزت آبرو بحال کریں ، جب تک یہ نہیں ہوگا ملکی ترقی صرف زبانی کلامی ہی ہوگی جو کہ زبانی کلامی بڑی تیزی سے ہو بھی رہی ہے ، تحریک انصاف کے بانی عمران خان جو خط ہوا میں آرمی چیف کو لکھ رہے ہیں ان میں کہی یا لکھی جانے والی بہت سی باتیں غلط ہوں گی کہ خط لکھنے والا کون سا فرشتہ ہے اس کی ہر بات درست ہو، اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں ایک کارنامہ ملک کی حقیقی ترقی کے لئے اس نے ایسا نہیں کیا جس کی بنیاد پر آج اس کے ہر جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیا جائے ، اس کے ہر جھوٹ کو سچ تسلیم کئے جانے کی واحد وجہ موجودہ حکمرانوں اور ان کے تابع سسٹم سے عوام کی نفرت ہے ، جو میرے خیال میں شاید ہی اب ختم یا کم ہوگی ، یہ نفرت صرف ایک ہی صورت میں ختم ہوسکتی ہے اگر اس ملک کے طاقتور پہلے سے برے اپنے دل کو تھوڑا اور برا کر کے ایک بار عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیں اور اقتدار اس شخص کے سپرد کر دیں جو جنرل باجوے کی مہربانی سے زیرو سے ہیرو بلکہ اب تو”دیوتا“ بن گیا ہے ، مجھے یقین ہے دوبارہ اقتدار میں آکر اپنے لئے پھر اسی نفرت کا وہ اہتمام کر لے گا جو اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں اس نے کر لیا تھا ، جنرل باجوے کی پے در پے غلطیوں نے عمران خان کا جو فائدہ اور ملک کا جو نقصان کیا اس کا ازالہ شاید ہی اب ہوگا ، دوسری طرف کوئی ایک آدھ بات واقعی اس کی درست ہے اور اپنی ذاتی انا کی قربانی دے کر وہ بات م±لکی ترقی میں واقعی تیزی لا سکتی ہے اس پر غور ضرور فرما لینا چاہئے ، ابھی جو حالات بنے ہوئے ہیں ، خصوصاً اداروں کی بے توقیری اور بدحالی سے لوگوں کے دلوں میں جو نفرت پیدا ہو رہی ہے ، عوام کی خواہشات اور فیصلوں کو طاقت کے زور پر جس طرح مسلسل کچلا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں حقیقی معنوں میں کوئی ترقی ہوئی بھی اسے ایڑی چوٹی و دیگر اعضاءکا زور لگا کر بھی کوئی قبولیت نہیں دلوائی جا سکے گی ، عوام کے گھروں میں ایک ایک کلو خالص سونے کی ڈلیاں بھی کوئی جا کر دے آئے محبت پھر بھی عوام کو اسی سے رہنی ہے جس سے موجودہ حکمرانوں اور ا±ن کے سرپرستوں کو شدید نفرت ہے ، جب تک اس کا کوئی کٹی کٹا آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں نکلے گا کسی قسم کے استحکام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، ان حالات میں ترقی کے راستے نکل بھی آئے کسی کو دکھائی نہیں دینے ، محض طاقت کے زور پر غلیظ سسٹم کو سنبھالا ایک حد تک اور ایک خاص وقت تک ہی دیا جاسکتا ہے ، طاقت کے بل بوتے پر چلنے والے اس غلیظ سسٹم کے خلاف لوگوں کی نفرت میں شدت چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد آئی ، عدلیہ واحد ادارہ ہے جس پر لوگوں کا اعتماد کچھ نہ کچھ بھی بحال رہے ملک کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا ، جب یہ اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے م±لک کا بچنا کسی بڑے معجزے سے کم نہیں ہوتا ، عدلیہ کا تھوڑا بہت بھرم جو بچ گیا ہوا تھا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد یک دم زمیں بوس ہوگیا ہے ، عدلیہ کی بے توقیری اس مقام پر آن پہنچی ہے ہمیں خدشہ ہے یہ کہیں اب آئی ایم ایف کے تابع نہ چلی جائے ، گزشتہ روز آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جس طرح ملاقات کی ، جس طرح کے غیر ضروری سوالات کئے ، کسی اور کو تو پتہ نہیں شرم آئی یا نہیں آئی مجھے بہت آئی کہ میرے ادارے پستی کے کس مقام پر آن پہنچے ہیں ؟ آئی ایم ایف کے وفد نے یقینا سوچا ہوگا پاکستانی عدلیہ کو چونکہ کچھ غیر متعلقہ اداروں کا دباو قبول کرنے کا اچھا خاصا تجربہ ہے تو کیوں نہ ہم ان کے اس تجربے میں مزید اضافہ کریں ؟
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: آرمی چیف کی ترقی کے بعد
پڑھیں:
نواز شریف کا معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف ملنے کی امید کا اظہار
لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کاکہنا ہے کہ ملک کی معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے اور عوام کو جلد مزید ریلیف ملنے کی امید ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ تعمیراتی کام ایک بار پھر شروع ہو چکے ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے بھی وزیراعظم شہباز شریف کی محنت اور جانفشانی کا اعتراف کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر ترقی کا تسلسل برقرار رہتا تو آج پاکستان خطے اور دنیا میں کہیں آگے ہوتا، ماضی کی رکاوٹوں اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کو نقصان پہنچایا، لیکن اب معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔
نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ مخالفین کو عوامی خدمت اور ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ صرف بغض، حسد، بدتمیزی اور بدتہذیبی میں مصروف ہیں، مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ عوامی خدمت کو ترجیح دی ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت مزید مستحکم ہوگی، عوام کو جلد مزید ریلیف دیا جائے گا تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آئے۔
سابق وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو رہی ہے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔