Nai Baat:
2025-02-20@20:26:10 GMT

لا اِلہ الا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

لا اِلہ الا اللہ

کائنات کتنی وسیع ہے۔ اس کا ادراک انسانی شعور اور ترقی کو ابھی تک نہیں ہو سکا نہ ہی کسی اور مخلوق کو کبھی ہو سکے گا لیکن یہ کیسی بات ہے کہ حقیقی اہل معرفت شخصیت کے سینے میں کائنات تیرتی پھرتی ہے۔ جی ہاں کئی ہوں گے مگر وہ محض زبان سے نہیں یقین کے ساتھ حق کی گواہی تسلیم کرتے اور اس میں غوطہ زن رہتے ہیں۔ اس اظہار کے لیے چار الفاظ پر مبنی لا اِلہ الا اللہ کلمہ ہے۔ جو سب جانتے ہوئے بھی اس احساس میں مبتلا ہو کہ اسے کچھ علم نہیں۔ دراصل وہ معرفت پا گیا۔ معرفت یعنی جان گیا پہچان گیا۔ حقیقت کو چھو گیا اس چھو جانے سے بس قدم آگے بڑھے لگن اور جستجو کے ساتھ تو وہ معرفت الٰہی پا گیا۔ معرفت الٰہی پھر کسی کوشریک نہیں ہونے دیتی۔ یکتائی میں دخل قہر کا سبب بن جاتا ہے۔ معرفت الٰہی پا جانے کے بعد تمام خوف مٹ جاتے ہیں حتیٰ کہ موت کا خوف بھی وصال کے شوق میں بدل جاتا ہے۔ انسانی معاشرت، منافقت کا شاہکار کیوں بن گئی کہ جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ اس کرب سے نکلنے کا کتنا آسان نسخہ ہے کہ جیسا دکھائی دینا چاہتے ہو ویسا بن جاﺅ۔ آج دل تھا کسی اور موضوع کے بجائے من کے اندر کی طرف منکشف ہوتے ہوئے دریچوں کے اندر جھانکوں جن پر ایک روحانی شخصیت نے دستک دی اور کہا کہ کبھی لا الہ الا اللہ پر بھی غور کرو۔ اُف میرے خدایا یہ چار الفاظ کا کلمہ کائنات کا اول آخر ہے جب کچھ نہیں تھا یہ تھا اور جب کچھ باقی نہ رہے گا تو پھر یہی صدا آئے گی لا الہ الا اللہ میں محض زبان کی نوک سے ادا کیے جانے کے انداز کی بات نہیں کرتا یقین اور صرف یقین کی بات کرتا ہوں۔ کبھی کسی قبرستان سے گزریں جہاں ارواح کے بدن ایک بار پھر سب کچھ مٹ جانے کے انتظار میں ہیں جب پکارا جائے گا لا الہ الا اللہ اس کا یقین ایسے قبرستانوں، شمشان گھاٹوں سے گزریں تو اور بھی بڑھ جاتا ہے جس کا ایک درس استغفار، صبر اور شکر تمام مذاہب کی یہ تین دیواریں اور سامنے عبادات کے طریقے ہیں۔ اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عام معرفت کے معنی تو سب جانتے ہیں کہ تو جانتا اور پہچانتا ہے۔
جو دنیاوی علم اور کامیابی کیلئے الگ ہے مگر قرب الٰہی کے لیے معرفت الٰہی لازم ہے اللہ کی معرفت اس کو مانتے چلے جانے میں چھپی ہے۔ اس کی مخلوقات کے مشاہدے اور مخلوقات کی بے بسی میں چھپی ہے۔ تاریخ کے کھنڈرات میں چھپی ہے۔ ڈھلتے بدن، جانداروں کے روبہ زوال اعضاءمیں چھپی ہے اور پھر بڑے بڑے شہ زور اولیاءاللہ تو درکنار اس کے پیغمبر جن کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلائے ان کے، اپنے اپنے مسکن میں خود آرام فرماتے ہوئے، پیغام میں چھپی ہے بزرگوں کے بقول معرفت الٰہی کہ آدمی اللہ کو پہچانے۔ وہ اپنے شعور کو اِس طرح بیدار کرے کہ اس کو خالق اور مخلوق، عبد اور معبود کے درمیان تعلق کی گہری پہچان ہو جائے۔ معرفت شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں۔ ادراک معرفت یا عرفان کا لغوی مطلب ہے کہ آدمی کسی چیز کی علامت میں غور و فکر کر کے اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ اللہ کی معرفت یہ ہے کہ انسان اللہ کو اس کی نشانیوں میں غور و فکر کے ذریعے دریافت کرے، نہ کہ اس کی ذات میں۔اِس سے معلوم ہوا کہ معرفت کا تعلق مجرد علم سے نہیں ہے، بلکہ معرفت کا تعلق غور و فکر سے ہے۔ علم کسی آدمی کے اندرمعرفت کی ابتدائی صلاحیت پیدا کرتا ہے، یعنی چیزوں پر گہرائی کے ساتھ غور و فکر کرنا۔ جب کوئی شخص معرفت کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے، وہ مسلسل طور پر اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ تخلیقات میں خالق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس غور وفکر کے نتیجے میں اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔ جس شخص کو اِس قسم کی معرفت حاصل ہو جائے، وہ انتہائی سنجیدہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو عارفانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے لگتا ہے۔ اس کی عبادت اور اس کے اخلاق و معاملات میں معرفت کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کو فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا لگاو¿ سب سے زیادہ ان چیزوں میں ہو جاتا ہے جو معرفت کی غذا دینے والی ہوں۔ وہ معرفت کے ماحول میں جیتا ہے اور معرفت کی ہواو¿ں میں سانس لیتا ہے۔
اب یہ یاد رہے کہ لا الہ الا اللہ کی حقانیت پر صرف جو مسلمان قبضہ سمجھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں یہ تسبیح تو کائنات کی ہر چیز کرتی ہے یقینا انسان سے زیادہ کرتی ہو گی کچھ علماءروحانی ابلاغ میں ابتلا اور رغبت کو شخصیت پرستی کہتے ہیں اور اس کے مخالف ہیں۔ کیا ناصح کا خیال اس سے رغبت اس کا روح و بدن میں سرایت کر جانا بدعت ہے، نہیں یہ بے اختیاری ہے جو مولانا رومیؒ ہوں یا اقبالؒ بھی مبتلا رہے خود صحابہ اجمعین اور انبیاءبھلے اولاد کی جدائی میں ہو اس میں مبتلا رہے۔ دراصل ان زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا گزارا چلتا ہے انسان جبلتی طور پر یقین چاہتا ہے، سرشاری کی تلاش میں ہوتا ہے۔ محبوب حقیقی تک پہنچنے کے راستے اور ہستیاں بھی اسے محبوب ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی پرندہ مارنے کے بعد زندہ کر دکھانے کی بات کی جس پر رحمن نے کہا کہ ابراہیم تم بھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ اللہ میں یقین رکھتا ہوں بس ذرا اطمینان کے لیے اور پھر رحمت العالمین جو عالمین کے لیے رسول اور پیغمبر کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں کے لیے اللہ نے فرمایا کہ جس نے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی اس نے میرے ہاتھ پر بیعت کی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور دوسری جگہ فرمایا اے نبی مٹی کی مٹھی جو آپ نے کفار کی طرف پھینکی وہ آپ کی نہیں میری مٹھی تھی (مفہوم) کیا کسی کو اندازہ ہے کہ صحابہ اجمعین کے ایمان کا قلزم کس طرح فراٹے بھرتا ہو گا۔ یہ نشانیاں اور عظمتیں دراصل انسانوں کے اطمینان اور سکون اور آقا کے رتبے جن کا ذکر بلند کیا گیا کو ثابت کرنے کا اعلان کرنے کے لیے ہیں۔ آپ ذرا غور فرمایئے کہ کرونا جو قیامت کا ٹریلر تھا دنیا کی تمام ترقی انسان کی تمام کامیابی اس وائرس کے سامنے ڈھیر نہ ہوئی تھی اگر کرونا محبوب کو محبوب سے دور کر گیا، بیٹوں کو باپ سے، ماﺅں کو جگر گوشوں سے اجتناب کا درس دے گیا۔ کلب، بازار، مارکیٹ حتیٰ کہ دل سنسان ہو گئے اور سناٹوں کا شور عام ہو گیا۔ اس سناٹے اس میں کیا کوئی دوسری آواز رہ گئی تھی سوائے لا الہ الا اللہ کے اور تو اور ملحدین کے روح و قلوب سے بھی دم توڑتے ہوئے شور سے ہی آواز آتی تھی لا الہ الا اللہ۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: معرفت ال ہی غور و فکر جاتا ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

جنرل عاصم منیر کو روکنے کی کوشش ہوئی مگر وہ اللہ کے حکم سے آرمی چیف بن گئے، فیصل واوڈا

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ جنرل عاصم منیر کو پی ٹی آئی نے قانونی اور آئینی طور پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اللہ کے حکم سے آرمی چیف بن گئے۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رجیم چینج کے وقت جنرل باجوہ نے مارشل لا کی پوری تیاری کی تھی، جنرل عاصم منیر کو مارشل لا پلیٹ میں رکھا ہوا ملا۔

یہ بھی پڑھیے: علی امین گنڈاپور پارٹی صدارت جانے کے بعد اب وزیراعلیٰ بھی نہیں رہیں گے، فیصل واوڈا کا دعویٰ

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے بدلا لینا ہوتا تو آرمی چیف کے لیے بہت ہی آسان تھا، لیکن اس نیک نیت شخص نے جمہوریت کو پروان چڑھایا۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ آرمی چیف اچھے نفیس انسان اور حافظ قرآن ہیں۔ حکومت نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو کسی اور پر الزام نہ لگائے، یہ بڑی غلط بات ہے کہ فوج کے ساتھ بند کمروں میں جاکر معافیاں بھی مانگیں اور باہر جاکر گالیاں بھی دیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

faisal wavda gen asim munir imran khan جنرل عاصم منیر فیصل واوڈا

متعلقہ مضامین

  • عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے این آر او لینا چاہتے ہیں: رانا ثنااللہ
  • حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللہ
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • ریاست کو عارف علوی کیخلاف کارروائی،مراعات واپس لینے کا حق ہے،رانا ثنا اللہ
  • ماضی میں ن لیگ سمیت کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ ملک ریاض کیخلاف ریفرنس دائر کرسکے، رانا ثنا اللہ
  • حقیقی محبت کا مقام، عرشِ رحمان کے سائے تلے
  • اسلامی جہاد کے وفد کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • امام ترمذی ایک منفرد محدث و محقق
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان
  • جنرل عاصم منیر کو روکنے کی کوشش ہوئی مگر وہ اللہ کے حکم سے آرمی چیف بن گئے، فیصل واوڈا