Nai Baat:
2025-04-30@23:12:09 GMT

تیسرے خط کے بعد حالات

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

تیسرے خط کے بعد حالات

بانی پی ٹی آئی آرمی چیف کو دو خط لکھ چکے تھے اور اب تیسرا خط بھی کھڑکا ڈالا ہے۔ پہلے دونوں خطوط پر جس طرح کا رد عمل آیا اس کے باوجود بھی تیسرا خط لکھنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس پر بھی بات ہو گی لیکن پہلے دیگر خطوط کا مختصر ذکر ہو جائے ۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں خطوط کا بڑا ذکر ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے تو پہلے بھی خط لکھا تھا اور انہی چھ میں سے پانچ محترم ججز نے اب پھر خط لکھا لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا۔ یہ تمام خطوط چونکہ محترم ججز کی جانب سے لکھے گئے ہیں اس لئے ان کے ذکر میں تھوڑا محتاط رہنا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہے ان کا مقصد عدلیہ کا وقار نہیں بلکہ سیاست ہی تھا ۔ ان تمام خطوط نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو دو چار دن کے لئے تھوڑا گرم ضرور کیا لیکن ان تمام خطوط سے پاکستان کی سیاست یا عدالتی ماحول میں رتی بھر فرق نہیں پڑا بلکہ جس جس نے یہ خط لکھے انھیں اس قدر موثر اور مدلل جواب دیئے گئے کہ جن امور پر خطوط لکھے گئے اور ان میں جن امور کا ذکر تھا ان پر جو اختلاف رائے تھا اسے ختم کرنے میں بھی مدد ملی اور نہ صرف مدد ملی بلکہ ان خطوط کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور عدالت دونوں جگہ ماحول کو خراب کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی اس کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ۔ اب بات کرتے ہیں کہ تیسرے خط کی ۔ بانی پی ٹی آئی نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ہر وہ کام کرنا ہے کہ جس پرمنفی ہونے کی چھاپ لگے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ انھوں نے تیسرے خط میں بھی چھ پوائنٹس لکھے ہیں اور جنھیں تاریخ کا پتا ہے انھیں بخوبی علم ہے کہ یہ 6پوائنٹس شیخ مجیب الرحمن کے تھے اور ان چھ پوائنٹس کا تعلق سقوط ڈھاکہ سے ہے ۔ اب یہ تو طے تھا کہ اس خط کا حشر بھی وہی ہو گا کہ جیسا اس سے پہلے دو خطوں کا ہوا ہے لیکن شومئی قسمت کہ اس تیسرے خط کا جو حشر ہوا اور پھر اس حشر کو میڈیا میں جس طرح نشر کیا گیا تو دنیا پہلے دو خطوں کا جو ون ٹو کا فور ہوا تھا اسے بھول گئی ۔
ایک تقریب میں رخصت ہوتے ہوئے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ انھیں بانی پی ٹی آئی کا خط نہیں ملااور اگر ملا بھی تو وہ پڑھیں گے نہیں بلکہ اسے وزیر اعظم کو بھجوا دیں گے ۔ آرمی چیف نے جو کچھ کہا اس کا ایک ایک لفظ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور حیرت ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کا راگ الاپنے اور دن رات اس پر آنسو بہانے والے عمران خان آئین اور قانون کے بر خلاف آرمی چیف کو تیسرا خط لکھ رہے ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کا اس حوالے سے جو موقف ہے بحث سے بچنے کے لئے ہم اسے من و عن تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ حکومت واقعی بے بس ہے اور تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اس طرح آرمی چیف کو خط لکھ کر اور انھیں بار بار منت کر کے کہ آشیر باد ان کے سر پر رکھ کر انھیں حکومت میں لایا جائے کیا اس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کر رہے ہیں یا انھیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں ۔ جو بات بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں کیا اس کھلی ڈھلی حقیقت کا ادراک شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو نہیں تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں اور ہر طرح کا ظلم برداشت کر لیا لیکن جنرل ضیاءکے آگے اس طرح رحم کی اپیلیں کر کے ہاتھ نہیں پھیلائے اور اسی طرح مشرف دور میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اس طرح کا رویہ نہیں اپنایا اور ایک آمر سے بار بار منتیں کرنے کی بجائے آ پس میں سیاسی قوتوں نے مل کر میثاق جمہوریت جیسی اہم ترین دستاویز پر دستخط کئے اور یہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طاقت تھی کہ جس نے اس جنرل مشرف کو جس کا تکیہ کلام تھا کہ ” نو بی بی نو بابو “ اسے مجبور کیا کہ وہ خود چل کر بی بی شہید کے پاس جا کر این آر او کرے اور میاں صاحب کو وطن واپس آنے کی اجازت دے ۔ اگر اس دور میں سیاسی جماعتیں متحد ہونے کی بجائے منتشر رہتی تو مشرف دباﺅ میں آتا اور نہ ہی حالات پھر اس موڑ تک پہنچتے کہ جہاں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آمر کو کہ جو58ٹو بی کی طاقت سے لیس تھا اسے ایک گولی چلائے بغیر منصب صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ۔
بانی پی آئی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی طاقت نہیںہے اور اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک میں اصل طاقت ہے تو اگر وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں اس کا طریقہ یہ تو بالکل بھی نہیں ہے اس لئے کہ جو طریقے آپ اپنا رہے ہیں اس میں تو آپ اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور اور سیاست دانوں کو کمزور سے کمزور تر کر رہے ہیں اور آپ کا مقصد کہیں نظر نہیں آتا کہ آپ آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں بلکہ آپ تو اپنے طرز سیاست سے انھیں مزید توانا کر رہے ہیں اور فقط یہ چاہتے ہیںکہ وہ دوسروں کی بجائے آپ کے سر پر آشیر باد کا ہاتھ رکھ دیں ۔ آپ اگر صدق دل سے آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو خطوط لکھنے اور ان کی چاپلوسی کرنے کی بجائے سیاسی قوتوں سے رابطہ کریں اور ان سے اتحاد کر کے انھیں طاقت ور کریں لیکن آپ ایسا کبھی نہیں کریںگے اس لئے کہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت یا آئین اور قانون کی بالادستی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ آپ صرف اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں لیکن تیسرے خط پر آرمی چیف کے رد عمل نے اتنا ضرور بتا دیا کہ اب ملکی سیاست میں انتشار کی بجائے استحکام کے دن شروع ہو چکے ہیں اور سازشی عناصر کے عزائم کامیاب نہیں ہوں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: آئین اور قانون کی بالادستی بانی پی ٹی آئی پاکستان کی کر رہے ہیں تیسرے خط آرمی چیف کی بجائے کی سیاست ہیں اور خط لکھ اور ان

پڑھیں:

پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا پوسٹ مارٹم

کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں ایک بار پھر خون بہایا گیا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں اس بار خون صرف بیگناہ سیاحوں کا نہیں بلکہ سچائی کا بھی بہا ہے۔ پہلگام میں پیش آنے والا فائرنگ کا واقعہ جس نے درجنوں جانیں نگل لیں وہ ایک دردناک سانحہ ہی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسا منصوبہ جو صرف لاشوں پر سیاست چمکانے والوں کا ہی ہو سکتا ہے۔مودی سرکار کی فریب کی کہانی نے خون کے دھبوں میں سچ کی تلاش کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ بھارتی حکومت کا فالس فلیگ آپریشن ایک بار پھر بری طرح بینقاب ہو چکا ہے، اس بار ثبوت اتنے واضح ہیں کہ خود بھارت کے عوام، صحافی، متاثرین اور اپوزیشن بھی خاموش نہیں رہ سکے۔ پہلگام جو برسوں سے سیاحوں کا مرکز رہا ہے، ایک اچانک حملے کی زد میں آ گیا۔ مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ سے 26 سیاح ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے۔ ان میں دو غیر ملکی شہری بھی شامل تھے، جن کا تعلق اٹلی اور اسرائیل سے بتایا گیا۔
اس واقعے نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ مگر سکیورٹی ذرائع اور خود واقعے کے حقائق پر ایک نظر ڈالیں تو ایک عجیب سی جلد بازی، ایک سوچا سمجھا بیانیہ، اور ایک منصوبہ بند ڈرامہ نظر آتا ہے۔حیرت انگیز طور پر حملے کے فوراً بعدصرف دس منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔ یہ ایف آئی آر پہلگام پولیس اسٹیشن میں تیار کی گئی جو کہ واقعے کی جگہ سے چھ کلومیٹر دور واقع ہے۔ ایف آئی آر میں حملے کا وقت دن ایک بج کر پچاس منٹ سے دو بج کر بیس منٹ درج ہے اور محض دس منٹ بعد یعنی دو بج کر تیس منٹ پر ایف آئی آر مکمل ہو چکی تھی۔ اتنی جلدی ایف آئی آر کی تیاری بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس میں ’’نامعلوم سرحد پار دہشت گرد‘‘، ’’اندھا دھند فائرنگ‘‘،’’بیرونی آقائوں کی ایما پر‘‘ جیسے الفاظ کا شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایف آئی آر پہلے سے لکھی جا چکی تھی۔ گویا ایک مکمل اسکرپٹ تھا جس پر صرف دستخط باقی تھے۔ مودی حکومت نے حملے کے فوری بعد اسے ایک دہشت گرد کارروائی قرار دیا اور بھارتی میڈیا نے اپنے مخصوص انداز میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ مگر اس بار نہ تو عوام نے یقین کیا نہ صحافیوں نے اور نہ ہی اپوزیشن نے خاموشی اختیار کی۔ مقبوضہ کشمیر میں مقامی صحافیوں اور عینی شاہدین نے واقعے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کھل کر سوالات اٹھائے۔ متاثرہ خاندانوں نے حکومت کے دعووں کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ آخر حملہ آور اتنے آرام سے فرار کیسے ہو گئے جبکہ علاقے میں سخت سکیورٹی کا دعوی کیا جاتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کا سہارا لیا ہو۔ ماضی میں پلوامہ، اوڑی اور پٹھان کوٹ جیسے واقعات میں بھی یہی طرز عمل اپنایا گیا۔ ہر بار ایک مخصوص وقت پر ایک خاص بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے، اور فوری طور پر پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن وقت بدل چکا ہے، اور اب سچائی کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بھی اس بار مودی حکومت کے خلاف ڈٹ کر سامنے آئی ہیں۔ کانگریس، عام آدمی پارٹی، اور دیگر جماعتوں نے حملے کے بعد حکومت سے نہایت سخت سوالات کیے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب کشمیر کو مکمل طور پر سکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے، ہر گلی میں فوجی اور ہر عمارت پر کیمرے نصب ہیں تو پھر حملہ کیسے ہوا؟ اگر حملہ آور واقعی سرحد پار سے آئے تو وہ کیسے آئے؟ اتنے حساس علاقے میں اتنی بڑی کارروائی کرنا کیسے ممکن ہو سکا؟ اور سب سے اہم بات کہ کیا اس حملے کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ استعفی دیں گے یا وزیر اعظم نریندر مودی اس پر جوابدہ ہوں گے؟ان سوالات کے جواب میں بھارتی حکومت خاموش ہے۔ لیکن اس خاموشی میں شکست کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ خود وزیر داخلہ امت شاہ بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی سنگین ناکامی تھی۔اس اعتراف کے بعد بھی اگر حکومت سچ چھپانے پر بضد ہے تو یہ مزید خطرناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ اور اگر ایک جمہوری حکومت اپنے ہی عوام کو قربانی کا بکرا بنانے لگے تو وہ فاشزم کی راہ پر گامزن ہو چکی ہوتی ہے۔
پہلگام واقعے کا ایک اور پہلو بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ عالمی میڈیا کی خاموشی۔ جب بھی بھارت میں کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں غیر ملکی شامل ہوں تو مغربی میڈیا شور مچا دیتا ہے۔ لیکن اس بار غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت پر بھی عالمی سطح پر وہ ردعمل نظر نہیں آیا جو عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کا مضبوط پروپیگنڈہ نیٹ ورک ہے جو مغربی دنیا کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن اس بار سچ کو دبانے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ انٹرنیشنل تجزیہ کار بھی اب بھارت کی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آنے والے واقعے پر بھارت کی حقائق چھپانے کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔آل پارٹیز کانفرنس کے بعد بھارتی وزیر برائے پارلیمانی امور کرن ریجیجو نے پہلگام واقعے میں غلطی کا اعتراف کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے بتایا گیا کہ واقعہ کیسے ہوا اور غلطی کہاں ہوئی۔ تاہم بعد میں کرن ریجیجو نے اپنے ویڈیو بیان سے غلطی والا حصہ ہی غائب کروا دیا اور بیان کو ایڈٹ کرکے جاری کیا۔
بھارتی صحافی رویش کمار نے بھی اس جانب نشاندہی کی۔اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے بھارت کی ان حرکات کا نوٹس لیں۔ فالس فلیگ آپریشن نہ صرف انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے بلکہ یہ خطے کے امن کو بھی شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اگر بھارت اپنے داخلی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اس قسم کی کارروائیاں کرتا رہا تو خطہ کسی بڑے تصادم کی طرف جا سکتا ہے۔پہلگام کا واقعہ ایک دردناک سانحہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک آئینہ بھی ہے جس میں مودی حکومت کا اصل چہرہ دیکھنا اب ناممکن نہیں رہا۔ عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں صحافیوں کی آواز بلند ہو چکی ہے، اپوزیشن متحد ہو رہی ہے اور عالمی رائے عامہ بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ مودی حکومت جتنے مرضی بیانیے تراش لے لیکن سچ اپنی جگہ پر قائم رہے گا۔یہ تحریر لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیسے سیاست دان اقتدار کی ہوس میں انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ لیکن امید باقی ہے کہ سچ بولنے والے، لکھنے والے اور حق کے لیے لڑنے والے اب خاموش نہیں رہیں گے۔ پہلگام کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور نہ ہی فالس فلیگ کی یہ چال تاریخ سے چھپائی جا سکے گی۔

متعلقہ مضامین

  • خوشحالی کے بغیر عظیم انسان
  • مودی نے بھارتی فوج کو فری ہینڈ دیدیا لیکن شہباز شریف نے نہیں دیا، بیرسٹر علی ظفر
  • ہم یورپ کی سلامتی کو مزید یقینی نہیں بنا سکتے، واشنگٹن
  • بولنے سے زیادہ پرفارم کرنے پر یقین رکھتا ہوں، بابر اعظم
  • مودی نے بھارتی فوج کو فری ہینڈ دے دیا لیکن شہباز شریف نے نہیں دیا، بیرسٹر علی ظفر
  • خدمت گاروں کے خدمت گار
  • چیٹ جی پی ٹی کا نیا لائٹ ورژن متعارف
  • ہم نے بیانیے کی جنگ بھارت سے جیت لی، کوثر کاظمی
  • ڈاؤ یونیورسٹی میں خصوصی عہدہ تخلیق، ڈاکٹر سہیل راؤ ڈائریکٹر ایمرجنگ مقرر
  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا پوسٹ مارٹم