بانی پی ٹی آئی آرمی چیف کو دو خط لکھ چکے تھے اور اب تیسرا خط بھی کھڑکا ڈالا ہے۔ پہلے دونوں خطوط پر جس طرح کا رد عمل آیا اس کے باوجود بھی تیسرا خط لکھنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس پر بھی بات ہو گی لیکن پہلے دیگر خطوط کا مختصر ذکر ہو جائے ۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں خطوط کا بڑا ذکر ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے تو پہلے بھی خط لکھا تھا اور انہی چھ میں سے پانچ محترم ججز نے اب پھر خط لکھا لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا۔ یہ تمام خطوط چونکہ محترم ججز کی جانب سے لکھے گئے ہیں اس لئے ان کے ذکر میں تھوڑا محتاط رہنا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہے ان کا مقصد عدلیہ کا وقار نہیں بلکہ سیاست ہی تھا ۔ ان تمام خطوط نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو دو چار دن کے لئے تھوڑا گرم ضرور کیا لیکن ان تمام خطوط سے پاکستان کی سیاست یا عدالتی ماحول میں رتی بھر فرق نہیں پڑا بلکہ جس جس نے یہ خط لکھے انھیں اس قدر موثر اور مدلل جواب دیئے گئے کہ جن امور پر خطوط لکھے گئے اور ان میں جن امور کا ذکر تھا ان پر جو اختلاف رائے تھا اسے ختم کرنے میں بھی مدد ملی اور نہ صرف مدد ملی بلکہ ان خطوط کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور عدالت دونوں جگہ ماحول کو خراب کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی اس کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ۔ اب بات کرتے ہیں کہ تیسرے خط کی ۔ بانی پی ٹی آئی نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ہر وہ کام کرنا ہے کہ جس پرمنفی ہونے کی چھاپ لگے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ انھوں نے تیسرے خط میں بھی چھ پوائنٹس لکھے ہیں اور جنھیں تاریخ کا پتا ہے انھیں بخوبی علم ہے کہ یہ 6پوائنٹس شیخ مجیب الرحمن کے تھے اور ان چھ پوائنٹس کا تعلق سقوط ڈھاکہ سے ہے ۔ اب یہ تو طے تھا کہ اس خط کا حشر بھی وہی ہو گا کہ جیسا اس سے پہلے دو خطوں کا ہوا ہے لیکن شومئی قسمت کہ اس تیسرے خط کا جو حشر ہوا اور پھر اس حشر کو میڈیا میں جس طرح نشر کیا گیا تو دنیا پہلے دو خطوں کا جو ون ٹو کا فور ہوا تھا اسے بھول گئی ۔
ایک تقریب میں رخصت ہوتے ہوئے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ انھیں بانی پی ٹی آئی کا خط نہیں ملااور اگر ملا بھی تو وہ پڑھیں گے نہیں بلکہ اسے وزیر اعظم کو بھجوا دیں گے ۔ آرمی چیف نے جو کچھ کہا اس کا ایک ایک لفظ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور حیرت ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کا راگ الاپنے اور دن رات اس پر آنسو بہانے والے عمران خان آئین اور قانون کے بر خلاف آرمی چیف کو تیسرا خط لکھ رہے ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کا اس حوالے سے جو موقف ہے بحث سے بچنے کے لئے ہم اسے من و عن تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ حکومت واقعی بے بس ہے اور تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اس طرح آرمی چیف کو خط لکھ کر اور انھیں بار بار منت کر کے کہ آشیر باد ان کے سر پر رکھ کر انھیں حکومت میں لایا جائے کیا اس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کر رہے ہیں یا انھیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں ۔ جو بات بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں کیا اس کھلی ڈھلی حقیقت کا ادراک شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو نہیں تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں اور ہر طرح کا ظلم برداشت کر لیا لیکن جنرل ضیاءکے آگے اس طرح رحم کی اپیلیں کر کے ہاتھ نہیں پھیلائے اور اسی طرح مشرف دور میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اس طرح کا رویہ نہیں اپنایا اور ایک آمر سے بار بار منتیں کرنے کی بجائے آ پس میں سیاسی قوتوں نے مل کر میثاق جمہوریت جیسی اہم ترین دستاویز پر دستخط کئے اور یہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طاقت تھی کہ جس نے اس جنرل مشرف کو جس کا تکیہ کلام تھا کہ ” نو بی بی نو بابو “ اسے مجبور کیا کہ وہ خود چل کر بی بی شہید کے پاس جا کر این آر او کرے اور میاں صاحب کو وطن واپس آنے کی اجازت دے ۔ اگر اس دور میں سیاسی جماعتیں متحد ہونے کی بجائے منتشر رہتی تو مشرف دباﺅ میں آتا اور نہ ہی حالات پھر اس موڑ تک پہنچتے کہ جہاں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آمر کو کہ جو58ٹو بی کی طاقت سے لیس تھا اسے ایک گولی چلائے بغیر منصب صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ۔
بانی پی آئی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی طاقت نہیںہے اور اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک میں اصل طاقت ہے تو اگر وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں اس کا طریقہ یہ تو بالکل بھی نہیں ہے اس لئے کہ جو طریقے آپ اپنا رہے ہیں اس میں تو آپ اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور اور سیاست دانوں کو کمزور سے کمزور تر کر رہے ہیں اور آپ کا مقصد کہیں نظر نہیں آتا کہ آپ آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں بلکہ آپ تو اپنے طرز سیاست سے انھیں مزید توانا کر رہے ہیں اور فقط یہ چاہتے ہیںکہ وہ دوسروں کی بجائے آپ کے سر پر آشیر باد کا ہاتھ رکھ دیں ۔ آپ اگر صدق دل سے آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو خطوط لکھنے اور ان کی چاپلوسی کرنے کی بجائے سیاسی قوتوں سے رابطہ کریں اور ان سے اتحاد کر کے انھیں طاقت ور کریں لیکن آپ ایسا کبھی نہیں کریںگے اس لئے کہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت یا آئین اور قانون کی بالادستی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ آپ صرف اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں لیکن تیسرے خط پر آرمی چیف کے رد عمل نے اتنا ضرور بتا دیا کہ اب ملکی سیاست میں انتشار کی بجائے استحکام کے دن شروع ہو چکے ہیں اور سازشی عناصر کے عزائم کامیاب نہیں ہوں گے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: آئین اور قانون کی بالادستی بانی پی ٹی آئی پاکستان کی کر رہے ہیں تیسرے خط آرمی چیف کی بجائے کی سیاست ہیں اور خط لکھ اور ان
پڑھیں:
میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟
زندہ اور مردہ زبانوں میں اگر فرق کرنا ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندہ زبان وہی ہوتی ہے جس کے بولنے والے اس زبان کے عکاس ہوں، یا کم از کم اس کےساتھ جڑے ہوں، اپنی زبان سے متصل اور مربوط ہوں۔
جبکہ مردہ زبان کا مطلب یہ ہے کہ بولنے والے تو موجود ہوں لیکن وہ اس سے جڑے نہ ہوں، ان کا طرزِ ثقافت زبان سے جدا ہوچکا ہے۔ چلیں مردہ نہ کہیں لیکن اتنا ضرور کہہ لیں کہ اس زبان کی معیاد ختم ہونے کی شارع پر گامزن ہے۔
تقسیم کے بعد پنجاب 2حصوں میں بٹ گیا، لیکن پنجابی زبان پاکستان، بھارتی پنجاب کے علاوہ کینیڈا میں بھی بولی جاتی ہے، اس سے قطعہ نظر کے زبان چڑھدی پنجابی اے یا فر لہندے پنجاب دی۔
رسم الخط ‘گُر مکھی یا شاہ مکھی’ اس بحث سے قطعہ نظر اچھی خبر یہ ہے کہ پنجابی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجابی لکھنا کتنے لوگ جانتے ہیں؟
’وارث شاہ‘ کو تو سب ہی جانتے ہوں گے، لیکن کیا پنجابی اس ‘وارث شاہ’ کے حقیقی وارث بن پائے یا نہیں، اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
سید وارث شاہ کی ہیر پنجابی کلاسیکل ادب کے شاہکار کے طور پر جانی جاتی ہے۔ وارث شاہ کی شاعری میں پنجابی زبان، بول چال تے اکھاناں دا اِک خزانہ اے۔
پنجاب کی بود و باش و طرزِ ثقافت کا جو نقشہ وارث شاہ نے کھینچا ہے، وہ سب سے منفرد اور جدا ہے، اور ان کی شاعری کا رنگ ان کے بعد دوبارہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔
وارث شاہ نے اپنڑے کلام وچ نہ صرف لہندی تے چڑھدے پنجاب دی پنجابی ورتی اے، بلکہ انہاں نے پنجاب دے ای مختلف لہجیاں دے حرفاں نو جاہ جاہ تے استعمال کیتا اے۔
کاشف حسین نے ’شاہ‘ اوراں واسطے لکھیا
اُنہاں نے سندھ دی عمر ماروی نوں وی اپنڑے کلام وچ ورتا تے سندھ دی ثقافت نوں وی پنجابی زبان دتی:
(پھوگر عمر بادشاہ خوار ہوئے ملی مارون ڈھول دے رالیاں نوں)
ماں بولی کے حوالے سے یہ تحریر لکھنے کا بھی ایک مقصد ہے، نئے سال کی پہلی ہی صبح بغرض ملازمت چین کا سفر کیا، 1 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے چین کو دیکھا، عوام کی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالی، سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہاں سب ہی چینی زبان یعنی ’ماں بولی‘ ہی بولتے ہیں اور ان کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ جدت صرف انگریزی زبان سے نہیں آتی۔ اگر اپنے ملک اور زبان سے محبت ہو تو ترقی کا ہر اگلا زینہ ہمارے قدم چومنے کو تیار رہتا ہے۔
یہاں آنے سے پہلے انٹرویو لیا گیا، جس میں مجھے پنجابی ہونے کی بنا پر فوقیت دی گئی۔ کسی پنجابی کے لیے یہ بات اچنبھے سے کم نہیں، زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ شیکسپیئر اور میر تقی میر کے بغیر پنجابی کے بھی ایکسٹرا نمبر ملے۔
چین کے قومی میڈیا سے بطور ایڈیٹر متصل ہوا ہوں اور یہاں پر اردو زبان میں خبریں لکھ کر ویب سائٹ پر پوسٹ کی جاتی ہیں، اور پنجابی کے لیے خاص طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا پیج بھی موجود ہے، جہاں خبریں مادری زبان میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔
میں نے زندگی میں پروفیشنل پنجابی پہلی بار پاکستان سے باہر آکر لکھی، اور خیال آیا کہ آج تک اپنے ملک میں رہتے ہوئے پنجابی کیوں نہ لکھ پایا؟
اب جبکہ کام پنجابی میں بھی کرنا تھا تو سب سے پہلے پنجابی لغت کی تلاش تھی، سو یہاں گوگل کام آئی، بہت زیادہ تو نہیں لیکن یہ ضرور تھا کہ پنجابی موجود تھی اور کافی حد تک اس حوالے سے کام بھی ہوچکا تھا، لیکن بدقسمتی یہ کہ وہ ڈھونڈنے پر بھی بمشکل ملتا ہے۔
ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں کوئی پنجابی زبان کا چینل ہے؟ پہلے سوچا کہ ’روہی‘ کہہ دوں پھر ’چینل 41 ‘کا خیال آیا، لیکن ان چینل کی نشریات بھی اُردو میں ہی ہیں۔
یقیناً ہمارے ملک میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے علاقے کی ثقافت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے اور یہی حسن ہے کہ تمام زبانیں بولنے والے ایک ’اُردو‘ کی چھتری تلے جمع ہیں، یہ تحریر زبانوں کی ترویج کے لیے ہے، نہ کہ تقسیم کے لیے۔
خیر میرے لیے باعث شرم تھا کہ دوسرے ملک والے تو پنجابی زبان کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں، لیکن ہمارا اپنا کیا حال ہے؟ یہ مضمون در اصل پنجابی زبان میں لکھا تھا، لیکن ہمارے ملک میں کوئی ایسا بڑا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں پنجابی مضامین، آرٹیکل اور بلاگ شائع ہوسکیں۔
پھر دوبارہ اس کو اُردو کا تڑکا لگانا پڑا، اس قدر مجبوری ہے کہ اپنی زبان کو اپنے ہی ملک میں کسی بڑے پلیٹ فارم پر شائع نہیں کروا سکتا۔ اس کے علاوہ جو پنجابی زبان کی ویب سائیٹ موجود ہیں، ان کی کوئی خاص Reachبھی نہیں ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم پنجابیوں کو پنجابی نہ تو پڑھائی گئی ہے اور نہ ہی ہمیں اب یہ پڑھنے کی عادت ہے اگر لکھ بھی دوں تو عوام کے لیے پڑھنا مشکل ہو جائے گا۔
اور ہمیں کوئی خاص پنجابی پڑھنے کا شوق بھی نہیں ہے، ہر صوبے میں پرائمری یا میٹرک تک کی تعلیم میں مادری زبان کا مضمون شامل ہے، سوائے پنجاب کے۔
سو یہی وجہ ہے کہ یہاں پنجابی نہ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی لکھی جاتی ہے، لیکن بولی ہر جگہ جاتی ہے۔
خیر اس بار فیض فیسٹیول میں پنجابی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو کہ ایک نئی اُمید ہے۔
21 فروری کو ہر سال ’ماں بولی‘ زبان کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، کتنا ہی بہتر ہو کہ اس سال 21 فروری کو ہمارے میڈیا پلیٹ فارم ہر زبان کو بطور خاص حصہ دیں اور کتنا ہی اچھا ہو اگر پنجاب کی حکومت اس اہم موقع پر کم از کم سکول کی حد تک پنجابی زبان کو بطور مضمون پڑھانے کا اعلان کر دیں۔
یونیسکو کے مطابق ہر 2 ہفتوں میں ایک زبان اپنی ثقافت اور فکری ورثے سمیت غائب ہو رہی ہے، ان کے مطابق دنیا میں تقریبا 8324 زبانیں بولی جاتی ہیں، اور 7000 اب بھی استعمال میں ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ صرف چند سو زبانوں کو ہی حقیقی طور پر تعلیمی نظام اور عوامی ڈومین میں جگہ دی گئی ہے۔ اور ڈیجیٹل دنیا میں تو 100 سے بھی کم زبانیں استعمال ہو رہی ہیں۔
مادری زبانوں کا استعمال نہ ہونا صرف ایک زبان کی حد تک مخصوص نہیں ہے، تقریبا سبھی جگہ ایسا ہو رہا ہے، زبانوں کے پھولوں کو اکٹھا کرکے ایک بہترین گلدستہ بنایا جا سکتا ہے، جو خوشی یا غم اور ایک نئی زندگی کی شروعات سمیت ہر جگہ آپ کو خوشی فراہم کرتا ہے۔
سوچیں آپ نے کوئی کامیابی سمیٹی ہو اور ہر زبان کے افراد آپ کو مبارک باد دے رہے ہوں تو کس قدر خوشی ملے گی آپ کو، کہ ہر ر نگ و نسل آپ کی خوشی میں شریک ہے۔ زبانیں سبھی میٹھی، سبھی اچھی اور سبھی سچی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں