Nai Baat:
2025-02-19@06:12:28 GMT

اصغرخان سے عمران خان تک

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

اصغرخان سے عمران خان تک

اصغرخان ایک دیانتدار اور بااصول شخصیت کے باوجود سیاسی میدان میں ناکام رہے حالانکہ اگر لچک ،برداشت اور میانہ روی سے کام لیتے تو آج تاریخ ضروریادرکھتی اور اُن کا تذکرہ زیادہ نہیں تو نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح ضرورہورہا ہوتاعلاوہ ازیں تحریکِ استقلال بھی ہے کہ نہیں ہے جیسے انجام سے دوچار نہ ہوتی۔
ائر مارشل جیسے منصب سے سبکدوشی کے بعد اصغرخان نے مصروفیت کے لیے سیاسی میدان کا انتخاب کیامگر سیاسی تربیت کی کمی کبھی پوری نہ ہو سکی البتہ بے داغ اور اُجلی شخصیت کی بدولت احترام ملا اور اُن کی جماعت دیکھتے ہی دیکھتے قومی اُفق پر نمایاں ہوتی گئی وہ عسکری پس منظر کے باوجود جنرل ضیاالحق کے سخت ناقد رہے 1985میںچاہے غیر جماعتی انتخاب ہوئے مگر فوجی حکومت کو اِس طرف لانے میں وہ ہمعصر جماعتوں کے سربراہوں سے زیادہ فعال رہے لیکن اُن کاایک غیر سیاسی فیصلہ سیاسی منظرسے غیاب کا سنگِ میل قرار پایا۔
ہوا یوں کہ جنرل ضیاالحق نے ملک میں عام انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیااِس فیصلے کی روسے کوئی امیدوار جماعتی انتخابی نشانات کے ساتھ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا تھا جس پرا صغرخان نے انتخابی عمل کابائیکاٹ کرنے کے ساتھ نہ صرف بھرپورمخالفت کا اعلان کر دیا بلکہ کہہ دیا کہ اگر میری جماعت کے کسی رُکن نے حصہ لیا تو وہ جماعت میں نہیں رہ سکے گا رفقانے بڑی کوشش کی کہ اصغرخان بے لچک رویہ ترک کردیں لیکن کسی کی نہ سنی گئی مگر انتخاب ہوں اور سیاسی لوگ حصہ نہ لیں ایسا ممکن ہی نہیںاپنی جماعت کے سربراہ کے دوٹوک اعلان کے باوجود تحریکِ استقلال کے کئی لوگ انتخابی میدان میں اُترے اورکامیابی سے ہمکنارہوئے اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اصغرخان رویے اور اعلان پر نظر ثانی کرتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے اپنے تمام منتخب ساتھیوں کو جماعت سے ہی نکال دیا یہ ایسا جھٹکا تھا جس کے بعد اصغرخان کی سیاست نہ صرف ناکامیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی بلکہ جماعت بھی محدودہوتی چلی گئی ۔
عمران خان کو حاصل مقبولیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا توشہ خانہ ،190ملین پونڈ کیس ہویا پھر عدت کے دوران نکاح کی پاداش میں ملنے والی سزائیں،اُن کاہر فدائی بانی چیئرمین کواب بھی دیانتداراور بے گناہ تصورکرتاہے اب جس طرح آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی قابلِ ذکر تعداد ایوانوں میں ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جماعت کی پالیسیاں باہمی مشاورت سے بنائی جاتیں لیکن ایسا نہیں ہورہابلکہ پوری جماعت کی رائے پر عمران خان کے ایک حکم کوفوقیت حاصل ہوتی ہے وہ جسے چاہتے ہیں بطور عہدیدار نامزد کرتے اورجسے چاہتے ہیں نکال باہر کرتے ہیںایسے رویے کو جمہوری نہیں کہہ سکتے ویسے بھی کارکنوں کو سڑکوں پر لانے اور مصائب کی بھٹی میں جھونکنے سے اتنا فائدہ نہیں ہو سکتا جتنا ایوانوں کے اندر احتجاج موثر ثابت ہو سکتا ہے مگر باربار احتجاج کے اعلانات ، عہدیداروں پر شک اور برطرفیاں ہورہی ہیں مگر کسی عہدیدار میں اتنی جرا¿ت نہیں کہ اصل حقائق سے باخبر کر سکے سبھی احکامات پر کورنش بجالانے میں عافیت سمجھتے ہیں یہ بے لچک اور غیر سیاسی رویہ اصغرخان سے بڑی حدتک مماثلت رکھتاہے۔
جب کوئی بشری خامیوں سے پاک نہیں تو عقلِ کُل ہونے کا دعویٰ کسی کو زیبا نہیں باربار غلطیاں کرنا اور پھر نقصان اُٹھانے کے باوجودسبق حاصل نہ کرناہرگزدانشمندی نہیں چلیں وقتی طورپرمان لیتے ہیں کہ پی ڈی ایم سے غیر سیاسی عناصر نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرائی اور منظوری میں بھی کردار ادا کیا لیکن قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت کو استعفے دیکر بے توقیر کرانے میں کسی غیر سیاسی کی نہیں بلکہ بانی چیئرمین کی ذہانت کارفرما تھی یہی نہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا پنجاب اور کے پی کے میں اپنی جماعت کی حکومتیں ختم کرانے کا فیصلہ صائب تھا؟ یہ فاش غلطیاں تھیں جس کا خمیازہ نہ صرف ساری تحریکِ انصاف بلکہ بانی پی ٹی آئی خود بھی آج بُھگت رہے ہیں پھربھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور بے لچک رویے کی بدولت مزید سیاسی نقصان کی طرف گامزن ہیں ۔
نو مئی کے پُرتشدداحتجاج جیسی حماقت کاکوئی جواز نہ تھا اِس حماقت کا جو بھی ذمے دار ہے وہ تحریکِ انصاف کا بدترین دشمن ہے کیونکہ اِس حماقت نے پوری جماعت کو گہری کھائی میں دھکا دیااسی حماقت کے نتیجے میں ریاستی اِدارے شبہات کاشکار ہوئے اور ایسی سوچ پروان چڑھی کہ یہ جماعت ملک کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اِس لیے مزید چھوٹ دینا قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہو سکتا ہے مگر پی ٹی آئی کے رویے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اُسے حماقت کا ادراک ہے اور نہ صرف پشیمان ہے بلکہ مستقبل میں ایسے کسی سانحے کا حصہ بننے کااِرادہ نہیں رکھتی ۔
باربار اسلام آباد پر چڑھائی کرنا مناسب نہیں اور پھر عین اُس وقت جب غیر ملکی مہمان دارالحکومت میں موجود ہوتوپھرتومزیداحتیاط کرنی چاہیے مگر بیلا روس کے صدرالیگزینڈر لوکاشنکو کی آمد پر ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ خدانخواستہ پاکستا ن خانہ جنگی کا شکار ہے اِس لیے سرمایہ کاری کرنانقصان دہ ہے۔ مزیدیہ کہ ناکام احتجاج کااعتراف کرنے کے بجائے چھبیس نومبر2024 کے حوالے سے من گھڑت اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے کے ساتھ آئی ایم ایف کو قرض دینے سے روکنے کی سازشیں کی جارہی ہیں گزرے برس دسمبر سے عمران خان تارکینِ وطن سے ترسیلاتِ زر روکنے کی اپیلیں کررہے ہیں حالانکہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ رقوم بہت اہمیت رکھتی ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں اگر ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو صرف حکمران متاثر ہوں گے اور پی ٹی آئی محفوظ رہے گی؟ ظاہرہے ملک دیوالیہ ہوگا توسبھی زد میں آئیں گے ۔ ترسیلاتِ زر کسی سیاسی نظریے کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ نہیں بلکہ تارکینِ وطن کے گھروالوں کی بنیادی ضروریات کا تقاضا ہے جنھیں کسی مہم سے روکنا ممکن نہیںاسی لیے اُن کے اپنے حمایتی بھی حصہ نہیں لے رہے اور بار بار اپیلوں کے باوجود ترسیلاتِ زرمیں کمی نہیں آئی بلکہ پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور تین ارب ڈالر کی حد مسلسل دوسرے ماہ بھی برقرارہے اسی طرح ماضی میں سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان پر کارکن تو ایک طرف عہدیدار بھی عمل نہ کر سکے سچ یہ ہے کہ حقائق اور ملکی مفاد کے منافی حکمتِ عملی عمران خان کی سیاست کے لیے سود مند نہیں ہو سکتی کاش وہ اصغرخان کے غیر سیاسی فیصلوں کے انجام سے کچھ سیکھ لیں ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے باوجود غیر سیاسی پی ٹی آئی نہیں ہو کے لیے

پڑھیں:

گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر

آج کل تحریک انصاف میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میرے لیے حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی گالم گلوچ کے کلچر پر رکھی گئی تھی۔ گا لم گلوچ کا کلچر ہی ان کی پہچان تھا۔ بانی تحریک انصاف بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے تھے۔

وہ اپنی جماعت میں بھی ان لوگوں کو ہی پسند کرتے تھے جو گالم گلوچ میں مہارت رکھتے تھے۔ جو سیاسی مخالفیں کے ساتھ جو جتنی زیادہ بدتمیزی کرتا تھا، اسے اتنی ہی جلدی ترقی ملتی تھی۔ ٹاک شوز میں بد تمیزی کے خصوصی نمبر دیے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین سے بد تہذیبی سے پیش آنے پر خراج تحسین پیش کیاجاتا تھا۔ یہی سب تحریک انصاف کی پہچان تھی۔

آج تحریک انصاف اپنے اسی کلچر کا خود شکار ہو گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک اقتدار تھا، طاقت تھی تو سیاسی مخالفین کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اب اقتدار نہیں ہے، طاقت نہیں ہے تو آپس میں ہی ایک دوسرے کو گالیاں دینا شروع کر دی گئی ہیں۔

تحریک انصاف میں جس طرح ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، اس کی کسی سیاسی جماعت میں پہلے کم ہی مثال ملتی ہے۔ سیاسی جماعت میں لوگوں کے ایک دوسرے سے اختلاف ہو تے ہیں، ناپسندیدگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ نہیں کی جاتی۔ بہر حال سیاسی تہذیب اور لحاظ ملحو ظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اب ایسا نہیں ہے۔ سب ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

کل تک تحریک انصاف اپنے سیاسی مخالفین کو چور کہنے میں مہارت رکھتی تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہے ہیں۔ شاید ان کو چور کہنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹاؤٹ کہتے تھے۔ اب ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہہ رہے ہیں۔

کل تک سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزام لگاتے تھے، اب ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگا رہے ہیں۔ کل سیاسی مخالفین کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے تھے۔ آج ایک دوسرے ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ مچھلی منڈی پارٹی بن گئی ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے درپے ہیں۔

 ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور لڑائی اسٹبلشمنٹ کرا رہی ہے۔ میں یہ نہیں مانتا۔ میری رائے میں پہلے اس لڑائی کو بانی تحریک انصاف نے خود بڑھایا ہے۔ انھوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کا یہ خیال رہا کہ جب سب ایک دوسرے کے خلاف ہوںگے تو میری قیادت پر متفق ہوں گے۔

وہ اپنے بعد کسی کو بھی اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی جگہ لے لے۔ اس لیے اختلافات اور تقسیم کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ لیکن شاید اب صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ جیل سے ریموٹ کنٹرول سے سب کنٹرول کر لیں گے۔

سب ان کو تو لیڈر مانتے ہیں۔ اس لیے آپس میں لڑیں اچھی بات ہے۔ جب لڑائی حد سے بڑھے گی تو وہ کنٹرول کر لیں گے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہوا ہے۔ صورتحال کسی حد تک اب بانی تحریک انصاف کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئی ہے، ان کا ریموٹ کنٹرول خراب ہو گیا ہے۔

آپ فواد چوہدری کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ بانی تحریک انصاف نے معاملہ کو جان بوجھ کر الجھایا ہے۔ وہ فواد چوہدری سے جیل میں ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ، اسے پارٹی میں واپس لینے کا اشارہ بھی دیتے ہیں، میری رائے میں ان کا خیال تھا کہ وہ فواد چوہدری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیں گے، وہ پارٹی سے باہر رہ کر بھی ان کا ہی کام کریں گے، یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ بانی تحریک انصاف فواد چوہدری اور پی ٹی ٹی کے درمیان لڑائی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے فواد چوہدری کو جیل میں بلا کر پارٹی قیادت کے خلاف بیان بازی سے روک بھی دیا تھا۔

بھائی جب روکا ہے تو اسے جماعت میں لے لیں، صلح بھی کروا دیں، وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک طرف انھوں نے جماعت کی فواد چوہدری کو واپس نہ لینے کی پالیسی کی حمائت کی ،دوسری طرف فواد چوہدری کی بھی حوصلہ افزائی جاری رکھی ۔ آج صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ لڑائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سارا کھیل ہی خراب ہو گیا ہے۔ شیر افضل مروت کے معاملے میں بھی جان بوجھ کر حالات کو خراب رکھا گیا۔

عثمان ڈار کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ کیا گنڈا پور اور جنید اکبر کی لڑائی بھی بانی انجوائے نہیں کر رہے ہیں ۔اسی طرح تیمور جھگڑا اور گنڈا پور کی بھی لڑائی نظر آرہی ہے۔بانی تحریک انصاف ان کو کے پی کابینہ میں لانا چاہتے ہیں گنڈا پور نہیں لانا چاہتے۔ اگر وہ کابینہ میں آتے ہیں تو گنڈا پور بطور وزیر اعلیٰ کمزور ہوںگے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو نقصان ہو رہا ہے۔

 آج تحریک انصاف میں اختلافات کی بنیاد میں سلمان اکرم راجہ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ فواد چوہدری کی شعیب شاہین سے لڑائی ہوئی ہے۔ لیکن شیر افضل مروت کی سلمان اکرم راجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ فواد چوہدری کی بھی سلمان اکرم راجہ سے دوستی نہیںہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سلمان اکرم راجہ وجہ تنازعہ کیوں نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی نسبت بیرسٹر گوہر کم تنازعات کا شکار ہیں۔ ان کی اگر قبولیت کم ہے تو مخالفت بھی کم ہے۔ کوئی ان کو اپنے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتا۔

میں مانتا ہوں آج کی صورتحال تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے فائدہ مند ہے۔ کمزور تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ ضرور سمجھیں یہ صورتحال تحریک انصاف کی قیادت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اس میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی کمال نہیں۔ یہ لڑائیوں کا کلچر ان کا اپنا ہے۔ ان لڑائیوں کو انھوں نے خود پروان چڑھایا ہے۔ اگر یہ لڑائیاں بڑھتی ہیں تو اس میں بھی تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی تحریک انصاف میں نیا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے لوگ بانی تحریک انصاف کو ایک دوسرے کی شکائتیں لگاتے رہے ہیں۔

وہ شکائتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار اور جیل کا فرق وہ نہیں سمجھ سکے۔ جو چیز اقتدار میں اچھی ہو سکتی ہے، جیل میں زہر قاتل بن جاتی ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی زہر قاتل بن گیا ہے۔ گالم گلوچ اور شکایتی کلچر اب تحریک انصاف کو اندر سے کھا رہاہے۔ یہ ہتھیار انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو مارنے کے لیے بنائے تھے، آج خود اس کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر
  • سیاسی سروے 2024-2025: پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی، مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں اضافہ
  • جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے احتجاج کیوں شروع کردیا؟
  • جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی کے گرینڈ الائنس کا حصہ بننے سے انکار
  • قائدین جماعت اسلامی کیخلاف مقدمات بلاجواز ہیں‘محمد یوسف
  • خطوط کی سیاست اور مفاہمتی امکانات
  • عمران خان کوآرمی چیف کے جواب کے بعد وزیر اعظم سے رابطہ کرنا چاہیے، احسن اقبال
  • خان صاحب! سب سے پہلے پاکستان
  • پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے بڑی دشمن جماعت ہے،احمد شیخ
  • کسی نئی سیاسی تحریک کی کامیابی، امکانات کتنے