عمرانی خط و کتابت کی باتیں سب چالیں ہیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
ترک صدر پاکستان کا دورہ کرکے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ انہوں نے صدر مملکت، وزیراعظم پاکستان سے ملاقاتیں کیں۔ دوطرفہ تعلقات کے مثبت انداز پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جاری تعلقات کو سٹرٹیجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اسی دورے کے دوران پاکستان ترکیہ 24معاہدوں، ایم او یوز پر دستخط بھی کئے گئے، سب سے اہم بات، تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ 169سے زائد دنیا کے ممالک میں ترکیہ واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کی تھوڑی بہت عزت کی جاتی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ مشہور زمانہ آر سی ڈی معاہدے کے تحت بھی جڑے رہے ہیں۔ ترکیہ حقیقت میں پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔ طیب اردوان کے دور حکمرانی میں دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں اور بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ادوار حکمرانی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پاک، ترک تعلقات موثر بنیادوں اور محبت کے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکیہ کے صدر کا حالیہ دورہ اس کا عملی اظہار ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ وفد اس بات کا جائزہ لینے کے لئے آیا ہے کہ پاکستان نے کیا معاہدے کے مطابق، معاہدے کی طے کردہ شقوں پر کس حد تک عملدرآمد کیا ہے۔ وفد نے بجٹ یوٹیلائزیشن مزید بہتر بنانے کے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ وفد نے یہ تجویز ڈویلپمنٹ سیکٹر کیلئے بجٹ ریلیز سٹرٹیجی اور مانیٹرنگ سسٹم پر بریفنگ کے دوران دی۔ ویسے تو یہ بات اچھی ہے کہ بجٹ کے استعمال میں وہ تمام قواعد و ضوابط بروئے کار لائے جانے چاہئیں جو مروج ہیں اور ان کے نتائج بھی معلوم ہیں اور مصدقہ ہیں۔ ہمارے ہاں بجٹ دستاویز کو وہ تقدس حاصل نہیں ہے جو عموماً ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ بجٹ کیا ہے؟ تخمینہ ہے آمدنی و اخراجات کا۔ حکومت یہ طے کرتی ہے کہ آنے والے بارہ مہینوں یا 365دنوں میں آمدنی کتنی ہوگی اور کہاں سے حاصل کی جائے گی؟ اخراجات کیا ہوں گے اور کن کن مدات پر خرچ کئے جائیں گے۔ یہ دستاویز بڑی عرق ریزی اور مہارت سے تیار کی جاتی ہے پھر اسے پارلیمان میں عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس پر بحث و تمحیص ہوتی ہے۔ اس میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ مسودے میں تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں بالآخر حتمی مسودہ کی منظوری کے بعد بجٹ تجاویز، ایک مقدس دستاویز کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جس پر آنے والے سال کے 365دنوں میں عمل کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس دستاویز ”بجٹ ڈاکومنٹ“ کو وہ عزت نہیں دی جاتی ہے جو مہذب اور جمہوریت معاشروں میں دی جاتی ہے۔ بجٹ دستاویز بنانے اور اسے منظور کرنے والی خود ہی اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔ حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر طے کردہ معاملات، بجٹ ایلوکیشنز میں حسب منشا ردوبدل کر دیتے ہیں۔ ادھر کے فنڈ ادھر لگا دیئے جاتے ہیں۔ آمدنی کے لئے لگائے گئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے۔ منی بجٹ لائے جاتے ہیں، کئی دفعہ تو منی بجٹ لانے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا ہے اور تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روایات کے خاتمہ کے لئے آئی ایم ایف نے بجٹ کے استعمال کو مزید بہتر بنانے کے لئے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ بجٹ دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے جو کچھ اسمبلی نے پاس کیا ہے، اس پر عملدرآمد کو مانیٹر کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ اس لئے بھی ہے کہ ہم قرض لیتے وقت آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے وعید کرتے ہیں، جو کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کے جو وعدے کرتے ہیں ان پر عملدرآمد ہوتا دیکھ سکے۔ آئی ایم ایف اپنے فنڈز کا منصفانہ استعمال یقینی بنانا چاہتا ہے وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ قرض لینے والا ملک (پاکستان) قرض واپس بھی کر سکے۔ طے شدہ اقساط کی واپسی کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف بجٹ دستاویز میں درج اقدامات پر من و عن عمل کیا جائے بلکہ فنڈز کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط پر بھی عملدرآمد ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر معاملات گڑبڑ ہو جاتے ہیں۔ ویسے پاکستان نے آج تک اپنے تمام عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کیا ہے۔ وعدے پورے کئے ہیں اس لئے ہمارا ریکارڈ اچھا ہے مثبت ہے اس پر کسی قسم کے داغ دھبے نہیں ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہم معاشی طور پر نہ صرف عدم استحکام کا شکار ہیں بلکہ ہماری معیشت سے مستحکم و پائیدار بنیادوں پر استوار نہ ہونے کے باعث کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔ عالمی ادارے براہ راست مداخلت کاری کے ذریعے معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کر رہا ہے، وہ ہمارے قاضی القضاہ سے کیوں مل رہا ہے، بات یہ ہے کہ وہ ہمارا قرض خواہ ہیں، ہم قرض دار ہیں۔ قرض دار کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی بات عمران خان کی خط و کتابت کے بارے میں کر لیں۔ مجھے اس بارے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عمران خان افتراق و انتشار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ 1996ءمیں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر جیل یاترا تک، اس نے اپنا کلیدی فرض کبھی نہیں بھلایا۔ اس کا ہر ایک قدم،
اس کی ہر ایک چال، اس کی ہر موو اور اس کے بیانات، اسی مرکزی و محوری مقصد کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ عمرانی سیاست نے پاکستان میں فکری انتشار اور عملی انارکی پھیلائی ہے۔ معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ، ہر شعبہ، ہر ادارہ اسی تفریق کا شکار نظر آتا ہے۔ ویسے تو ریاست نے عمرانی سیاست کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کی شیطانی حرکات کو محدود کر دیا ہے لیکن کیونکہ وہ تخریب کاری اور انتشار پر مامور ہے اس لئے وہ جیل میں بیٹھ کر بھی کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے مقصد کے حصول کے لئے کاوشیں کرتا رہتا ہے۔ خط و کتابت کا سلسلہ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ حال ہی میں اس نے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے جس میں آرمی کو ہی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ خط کے مندرجات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو اس میں اس مقصد کے حصول کی جستجو نظر آتی ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے۔ ویسے آرمی چیف نے اس کا جواب خوب دیا ہے۔ ویسے انہیں خط ابھی ملا نہیں ہے لیکن انہوں نے خوب کہا ہے کہ ”خط کی باتیں سب چالیں ہیں آیا تو پڑھوں گا نہیں وزیراعظم کو بھجوا دوں گا“ کیا خوب جواب ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بجٹ دستاویز آئی ایم ایف جاتے ہیں جاتی ہے جاتا ہے گیا ہے کے لئے کیا ہے
پڑھیں:
پاکستان کی وہ قومی ٹیم جس نے کرکٹ کا ایک بھی میچ نہیں ہارا
بین الاقوامی سطح پر معاشرے کے مختلف افراد جیسے کہ نابینا یا پھر چلنے پھرنے سے معذور اشخاص کے لیے بھی کرکٹ کے علیحدہ مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔
وہیل چیئر پر کرکٹ میچز کھیلنا اتنا آسان نہیں ہوتا تاہم اس میں پاکستان کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
جاوید ملک پاکستان وہیل چئیر کرکٹر ہیں اور 2 مرتبہ وہیل چئیر کی قومی ٹیم کو ایشیا کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بلائنڈ کرکٹ گیمز: فائنل میں بھارت کو شکست، پاکستان نےگولڈ میڈل جیت لیا
وہ ایتھلیٹ بھی ہیں اور باسکٹ بال اور آرچری میں بھی ملک کی نمائندگی کر چکے ہیں اور ساتھ ساتھ معذور افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک فلاحی ادارہ بھی چلاتے ہیں۔
جاوید ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اسپیشل افراد کو کھیل کی طرف لے کر آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کے والدین سے گزارش ہے کہ وہ انہیں کام کرنے اور کھیلنے دیں تاکہ ان میں خوداعتمادی پیدا ہو۔
انہوں نے کہا کہ جب میں خود کھیلتا تھا تو میرا مذاق اڑایا جاتا تھا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والدین نے ان کی حوصلہ افزائی کی جس کے سبب آج وہ اس مقام پر ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان کی بلائنڈ ٹی ٹونٹی ورلڈ میں کامیابی، کوئٹہ کا نعمت اللہ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی
جاوید ملک نے کہا کہ ہم وہیل چیئر کرکٹ کے پائینیر ہیں اور اب تک پاکستان کی وہیل چیئر کرکٹ ٹیم اپنا کوئی میچ نہیں ہاری۔
انہوں نے کہا کہ اوائل میں ہم ٹینس بال سے کرکٹ کھیلتے تھے لیکن آج پاکستان کی وہیل چیئر کرکٹ ٹیم دنیائے کرکٹ کی ٹاپ رینکنگ ٹیم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم وہیل چیئر پر بیٹھ کر بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایتھلیٹ جاوید ملک پاکستان وہیل چیئر کرکٹ ٹیم وہیل چیئر کرکٹ