اشتہار.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم
میں: کیا میں اس غیر سنجیدہ عنوان کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟
وہ: دراصل اس عنوان کی وجہ ایک واقعہ ہے۔ کئی سال قبل پشاور شہر کی سیر کے دوران بس دو چیزیں ذہن میں سما گئیں ایک روایت سے جڑا قصہ خوانی بازار دوسرا ایک Shop Sign جو اپنے انوکھے اور تخلیقی انداز تحریر سے ہر آنے جانے والے کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا، جس پہ لکھا تھا کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم۔
میں: آئس کریم والے نے اپنے کاروبار کی مشہوری کے لیے جس تخلیقی اُپچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ نام وضع کیا، وہ کم از کم ہمارے میڈیا پر اُن چیختے چلاتے، بھونڈے اور بے تُکے اشتہارات سے تو بہتر ہے جو صبح وشام ہمارا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔
وہ: تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن اشتہارات کا یہ بے تُکا پن صرف ہماری طبیعتوں پر گراں گزرنے تک محدود نہیں کیوں کہ ہماری اس ناگواری کی وجہ تو محض وہ خلل ہے جو کسی شو یا ڈرامے کے تسلسل کو خراب کرتا ہے، اصل میں اشتہارات نے ہماری اقدار، سماج، زبان اور تہذیب پر اتنی ضربیں لگائی ہیں کہ پوری قوم ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔ اب اپنی پسندو ناپسند پر ہمارا اختیار ہے نہ فیصلہ سازی کے کسی مرحلے پر ہم خود کو بااختیار محسوس کرتے ہیں۔
میں: یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر اختیار ایک اشتہار ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟
وہ: ذرا اس پہلو پر غور کرو کہ ہم زندگی میں اپنی پسند وناپسند کا معیار کسی اپنے کے مشورے سے زیادہ اشتہار میں بتائے گئے پیغام کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں۔ کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کیسے کھانا ہے اور کیسے پہننا ہے، کب کھانا ہے اور کب پہننا ہے۔ فرد کی زندگی کے انتہائی ذاتی نوعیت کے ان تمام فیصلوں کا اختیار بھی اب اس کے پاس نہیں رہا۔ اس کے ہر دن کا آغاز سماجی رابطے کی کسی بھی ویب سائٹ پر چلنے والے طرز(Trend) کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صبح کا انداز کچھ ہے، اور شام کا چلن کچھ اور۔ یہ انداز یہ چلن کسی نہ کسی ادارے یا مصنوعات بنانے والی کسی کمپنی کے تعاون سے جاری کیا جاتا ہے جو اشتہار کاری کا ایک ذریعہ اور طریقہ ہے۔ جو اشیاء فرد پہلے خود چھان پھٹک کر اور اس کا معیار اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور ہاتھوں سے چھونے کے بعد حاصل کرتا تھا، اب وہ محض ایک اشتہار ساز کی جھوٹی سچی باتوں پر من وعن ایمان لاکر خاموشی سے خرید لیتا ہے۔
میں: لیکن اس میں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان کمپنیوں کا کیا قصور ہے، وہ گاہک کو بندوق کے زور پر اپنی مصنوعات خریدنے پہ تو مجبور نہیں کرتے ’کہ ہم نے اپنے صابن پر دس روپے کم کردیے ہیں اگر نہیں خریدا تو تم جہاں نظر آئے تمہیں وہی گولی ماردی جائے گی‘۔
وہ: بالکل ایسا ہی ہے کہ اس عمل میں گاہک کے ساتھ زور زبردستی کا کوئی سلوک روا نہیں رکھا جاتا لیکن پروڈکٹ خریدنے پر مائل یا مجبور کرنے کا یہ معاملہ دھونس دھمکی کے بجائے نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اشتہار ساز صارف کی نفسیات کو سمجھنے اور ہر پہلو سے اس کا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، وہ اپنی پروڈکٹ کے ساتھ نت نئی مفت پیشکشوں کی صورت میں ہو یا قرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والے پرکشش انعامات کی شکل میں یا پھر کبھی اسے کوئی جذباتی منظر دکھا کر اس کی جیب سے رقم نکلوانا، اس کی وضاحت انگریزی اصطلاح Emotional Blackmailing سے بآسانی ہوجاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اشتہارات کے ذریعے قابل فروخت اشیاء کو اتنا بڑھا چڑھا کر دکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کی آنکھیں خیرہ اور دماغ مائوف ہوجاتا ہے۔
اشتہارات کی اس ہمہ گیر نفسیاتی یلغار کے نتیجے میں آج دنیا کی ہر چیز ایک پروڈکٹ بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرد کی اپنی ذات ایک پروڈکٹ ہے اور جب معاملہ کسی مشہور کھلاڑی، فن کار وغیرہ کا ہو تو پھر اس کے جسم پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی ادارے اور اس کی بنائی ہوئی شے کی تشہیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بے چارہ صارف صرف اس بنیاد پر اس پروڈکٹ کو استعمال کرنا شروع کردیتا ہے کہ اشتہار یا کسی پروگرام میں وہ چیز اس کی پسندیدہ شخصیت کے ہاتھوں یا چہرے کی زینت بنی ہوئی ہے، بھلے حقیقی زندگی میں وہ اس مشہور شخصیت کو ایک آنکھ نہ بھاتی ہو۔ یوں کچھ ہی دن بعد وہ چمکتی دمکتی پروڈکٹ صارف کی نظر سے گر جاتی ہے، مگر کمپنی کا ملک ایک شاطر ایڈورٹائزر کی طرح اسی شے کو ایک نئے نام اور نئے فن کار کے ساتھ دوبارہ بازار میں لے آتا ہے۔
فرد کی زندگی پر اشتہارات کے اثرات کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اشتہارات نے انسان کے اندر چھپی لالچ کو ابھارا، گئی تہذیب سے جڑی قناعت نئی تہذیب کی شناخت ہوس سے بدل گئی۔ بڑے بڑے
ساہوکاروں کی دیکھا دیکھی مقامی سطح کے چھوٹے کاروباریوں اور دکان داروں کو بھی یہ سیکھ ملی کہ کاغذ اور گتے کے پیکٹ میں لپیٹ کر جو چاہے کھلادو، معیار کو جتنا چاہے گرادو، بازار میں سب بک جاتا ہے، بس اگر تھوڑا بہت خرچہ کرنا بھی ہے تو پروڈکٹ کی پیکنگ کو پرکشش بنانے کے لیے اس پر کوئی اچھوتا سا نام چھاپ کر اور چمکتے دمکتے رنگوں کی مدد سے اس کو خوب صورت بناکر۔ ساتھ ہی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق برقی ذرائع ابلاغ کے لیے اشتہار بناکر اپنی پروڈکٹ کی وقعت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسے عوام کے لیے کم وقت میں زیادہ قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرزِ معاش سے کھلے بندوں دھوکا دہی کے ایک نئے چلن کا آغاز ہوا جو موجودہ دور تک آتے آتے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا جائزذریعہ بن گیا۔
میں: ہاں یہ بات تو ہے ہوس اور منافع خوری کا عمل شاید اسی سوچ کا مرہونِ منت ہے۔
وہ: اس حوالے سے یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اشتہارات کو مغربی تہذیب اور اس کے معاشی نظامِ سرمایہ داری کا اہم ستون کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جہاں اس نظام نے سرمائے کو صنعت اور معیشتی اداروں کی شکل میں چند افراد تک محدود کردیا وہیں سادہ لوح عوام کو نت نئی مصنوعات کی ترغیب دلا کر اس کے حصول کی خواہش جگانے میں اشتہارات نے اس نظام کی بنیادوں کو ہرگزرتے دن کے ساتھ مستحکم کیا۔ مگر اشتہارات کا یہ معاملہ محض عوام الناس کی جیبوں سے پیسے نکال کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے تک محدود نہیں رہا، اس نے نہ صرف انفرادی سطح پر فرد کے سوچنے کا انداز بدل دیا بلکہ اجتماعی حوالے سے بھی اقدار وروایات کو ایک ایسا چولا پہنا دیا جس سے معاشروں کی خوبصورتی تہذیبی رکھ رکھائو سے نکل کر محض اشیاء کی ظاہری تراش خراش اور نمودو نمائش تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اشتہارات کے زبان وادب پر پڑنے والے اثرات پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔