حکومت کا اسمگلنگ نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
وفاقی حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے اسمگلنگ نیٹ ورک کے انکشاف کے بعد اس کے خلاف مکمل تحقیقات کا اعلان کیا ہے، ایجنسی کی جانب سے حکومت کو رپورٹ دی گئی تھی کہ 78 افراد جن میں سے زیادہ تر کا تعلق محکمہ کسٹمز سے ہے وہ اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو غیر ملکی اشیا براستہ کوئٹہ پنجاب اور اسلام آباد اسمگل کرتے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک اعلیٰ افسر نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے ایکسپریس کو بتایا کہ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اس نیٹ ورک میں شامل بعض افراد وفاقی سطح کی انتہائی اعلیٰ پوزیشن پر ہیں۔
ایف بی آر عہدیدار کے مطابق ادارے کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے اس حوالے سے محکمے کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس نیٹ ورک میں ملوث افسران اور دیگر افراد کے خلاف حقائق جاننے کے لیے تحقیقات کا آغاز کریں۔
اس حوالے سے ایکسپریس نے ایف بی آر اور وزارت خزانہ دونوں سے رابطہ کیا تاہم دونوں کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا، مذکورہ عہدیدار نے مزید بتایا کہ اس تحقیقات کی سربراہی ممکنہ طور پر کسٹمز انفورسمنٹ کے چیف کلیکٹر باسط مقصود عباسی کرسکتے ہیں جنہیں دیگر افسران کی مدد بھی حاصل ہوگی تاہم اس تحقیقات کی غیرجانبداری پر ابھی سے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ میں ملوث بعض افسران انتہائی اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ ابھی تو صرف حقائق جاننے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں جو کہ اس ماہ کے آخر تک مکمل ہوگی اور حتمی رپورٹ کے بعد ہی کسی کارروائی کا تعین کیا جاسکے گا۔
ذرائع کے مطابق اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسمگلنگ کے ذریعے ہونے والی آمدنی بیرون ممالک منتقل کی جاتی ہے اور اس بھی میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسران ملوث ہیں اور اسی حوالے سے ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ہوسکتا ہے تحقیقات ایسی ایجنسی کے سپرد کردی جائیں جو اندرون ملک کے ساتھ بیرون ملک تحقیقات کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔
رپورٹ کے مطابق نیٹ ورک میں 37 بدعنوان کسٹم افسران کے علاوہ 41 اسمگلرز شامل ہیں جو کوئٹہ سے غیر ملکی اشیا اندرون ملک خاص طور پر پنجاب اور اسلام آباد اسمگل کرتے ہیں ان اشیا میں سگریٹ، ٹائرز، کپڑے وغیرہ شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حوالے سے کے مطابق نیٹ ورک اور اس
پڑھیں:
پنجاب حکومت کا نجی شراکت منصوبوں کے لیے پرانی اتھارٹی ختم کرکے نئی اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ
لاہور:پنجاب حکومت نے نجی شراکت داری کے لیے پرانی اتھارٹی کو ختم کرکے ایک نئی اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 2019ء والے ایکٹ کو ختم کردیا جائیں گا تاہم ختم کرنے کا اطلاق فوری نہیں ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جاری منصوبوں پر 2019ء والے ایکٹ کے تحت کام مکمل کای جائے گایا اسے نئے ایکٹ میں منتقل کردیا جائےگا، نئی اتھارٹی عوامی نجی شراکت داری ایکٹ 2025ء کے نام سے جانی جائے گی جس کی تفصیلات پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ بل میں سامنے آئی ہیں۔
قبل ازیں پرانے ایکٹ کے ذریعے بڑے منصوبے لاہور میٹرو بساورنج لائن، روڈا، جیسے منصوبے بنائے گئے ہیں، نئے ایکٹ کے ذریعے منصوبوں کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے گا، نئے بننے والی اتھارٹی کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے والے منصوبے کو بھی پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنز شپ کے تحت مکمل کیا جاسکےگا۔
منصوبوں میں انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ، توانائی کے منصوبے، پانی اور نکاسی آب، تعلیمی منصوبے، ٹرانسپورٹیشن اور شہری ترقی شامل ہوں گے۔ منصوبوں کے حوالے سے کام کرنے کے لیے حکومت صوبائی، محکمانہ، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر ورکنگ پارٹیز تشکیل دے سکتی ہے۔
اتھارٹی میں وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر منصوبہ بندی ترقی، محکمہ فنانس اور محکمہ قانون کے سیکرٹریز اور نجی شعبے کے تین ماہرین شامل ہوں گے، اتھارٹی کو زمین کی حصولی کے لیے زمین حصولی ایکٹ 1894ء کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے۔ اتھارٹی کو منصوبوں کے لیے معاہدے کرنے، جائیداد خریدنے اور مقدمات دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔
نئی اتھارٹی بنانے کا مقصد پنجاب میں عوامی نجی شراکت داری کو فروغ، حکومتی بوجھ کو کم کرنا ، نجی وسائل سے فائدہ اٹھانا ہے۔ بل کے مطابق نجی شراکت داروں کو مختلف مراعات اور مالی مدد بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔
بل کے تحت "وایبلیٹی گیپ فنڈ" اور "پروجیکٹ ڈویلپمنٹ فیسیلٹی" قائم کی جائیں گی، جو نجی شراکت داروں کو منصوبوں کے لیے مالی مدد فراہم کریں گی۔
بل میں مختلف انتظامی محکموں، اتھارٹی اور نجی شراکت داروں کے درمیان معاہدوں اور طریقہ کار کو منظم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بھی شامل ہیں۔ بل پورے پنجاب میں نافذ ہوگا اور تمام پی پی پی پر مبنی منصوبوں پر لاگو ہوگا۔
اتھارٹی حکومت کو منصوبوں کے متعلق پالیسی مشورے دے گی، اتھارٹی ضروری افسران، ملازمین، ماہرین، مشیران، کنسلٹنٹس اور دیگر عملے کی تقرری کرسکے گی۔ اتھارٹی منصوبوں کی منظوری، فنڈز کی تقسیم اور معاہدوں کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی۔
نجی شعبے کی ناکامی کی صورت میں عمل درآمدی ادارہ منصوبے کے اختیارات سنبھال سکتا ہے۔ منصوبوں میں تنازعات کو پاکستان کے قوانین کے تحت حل کیا جائے گا۔
اتھارٹی ممکنہ خطرات کی نشاندہی، تشخیص اور انہیں کم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے گی۔ اتھارٹی کی معاہدے اور اس سے متعلق دستاویزات عوامی دستاویزات ہوں گی جیسے کوئی بھی شہری حاصل کر سکے گا۔ آئندہ بل کی تفصیلات اور اس کے ممکنہ اثرات پر پنجاب اسمبلی میں مزید بحث کی جائے گی۔