Jasarat News:
2025-02-19@04:19:50 GMT

پاکستانیوں سمیت 119 تارکین وطن امریکا بدر

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

واشنگٹن(صباح نیوز)امریکہ نے پاکستانیوں سمیت مختلف ملکوں کے119افراد کو ملک بدر کرتے ہوئے فوجی طیارے کے ذریعے پاناما بھیج دیا ہے۔لاطینی امریکا کے ملک پاناما کے صدر ہوزے رال ملینو نے تصدیق کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان سمیت متعدد ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکا میں مقیم 119 تارکین وطن کو ملک بدر کرتے ہوئے پاناما بھیج دیا ہے۔ صدر ہوزے رال مولینو نے کہا ہے کہ امریکی فضائیہ کا ایک طیارہ دارالحکومت
پانامہ سٹی کے مغرب میں ہاورڈ ائرپورٹ پر اترا، اور اس میں سوار 119 تارکین وطن کو ہوٹلوں میں منتقل کیا گیا۔صدر مولینو نے کہا کہ ملک بدر ہونے والوں میں چین، پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کے شہری شامل ہیں۔ اسی سلسلے میں جلد ہی امریکا سے مزید طیارے بھی پہنچیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی میں 7 ملین سے زیادہ اہل ووٹرز جو یا تو خود تارکین وطن ہیں یا ان کے والدین کا شمار تارکین وطن برادری میں ہوتا ہے، آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7.1 ملین اہل رائے دہندگان، کا تناسب آٹھ جرمن ووٹرز میں ایک ووٹر بنتا ہے۔ سماجیات کے ایک معروف جرمن ماہر فریڈریک رؤمرجرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) سے وابستہ ہیں اور انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک مطالعہ کے شریک مصنف ہیں۔

اس تحقیق میں ان لوگوں کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود جرمنی ہجرت کر کے آئے ہیں یا جن کے والدین تارکین وطن کے طور پر جرمنی آ کر آباد ہوئے تھے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے

یورپ میں مہاجرت اور مہاجرین سے متعلق تمام تر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ''انفومائگرنٹ‘‘ کے 2022 ء کے اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں۔

ان میں سے اکثر گھرانوں کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے لیکن سیاسی سطح پر پاکستانی برادری اس مغربی ملک میں بڑی حد تک غیر فعال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن برادری جرمن معاشرے میں اپنے لیے کوئی خاطر خواہ سماجی اور سیاسی جگہ بنانے میں اب تک بہت کامیاب نظر نہیں آرہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد ایسے پاکستانی نژاد باشندوں سے بات چیت کی جن کی دوسری اور تیسری نسلیں جرمنی میں پروان چڑھ چُکی یا رہی ہیں۔

جرمنی میں تارکین وطن کا سماجی انضمام نسبتاﹰ بہتر، او ای سی ڈی

پاکستان سے جرمنی آکر تعیلم حاصل کرنے کے بعد جرمن سماجی شعبے میں بے حد فعال کر دار ادا کرنے والی شاھدہ پروین کہتی ہیں کہ 1984 ء سے وہ جرمنی میں آباد ہیں اور اب تک انہوں نے پاکستانی نژاد باشندوں کو ایکٹیو سیاست میں حصہ لیتے نہیں دیکھا۔ ایک نامور سوشل ورکر اور ایجوکیشنسٹ شاھدہ پروین مغربی جرمن شہر ویٹن میں انضمام کی مشاورتی کونسل میں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندے جرمنی آکر یہاں سکونت اختیار کرتے ہیں، یہاں کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن یہاں کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آخر ایسا کیوں ہے، شاھدہ پروین نے کہا،''سیاست میں حصہ لینے کے لیے سیاسی ، سماجی معاشرتی، تعلیمی، تربیتی اور ثقافتی شعور لازم ہے۔ زیادہ تر لوگ محض اپنے معاشی معاملات سے ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ چند خاص شعبوں کا انتخاب کر لیتے ہیں مثلاً آئی ٹی کا میدان، میڈسن کا شعبہ یا کاروبار سنبھالنے پر تمام تر توجہ مرکوزرکھتے ہیں۔

‘‘ شاھدہ پروین کا مزید کہنا تھا،''کسی ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم ہمارے ہم وطنوں کی توجہ قطعاً اس جانب نہیں ہوتی۔‘‘

نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟

شہر بون میں آباد ایک اور معروف پاکستانی نژاد جرمن شہری توقیر احمد اعلیٰ تعیلم کے لیے جرمنی آنے کے بعد بزنس کے شعبے سے منسلک رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خو د کو مختلف سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔

ان کہنا ہے کہ وہ 1990 ء سے جرمن شہریت لینے کے بعد سے جرمنی کے تمام الیکشنز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے توقیر احمد نے کہا،''ووٹ کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جمہوریت کا فروغ نہیں چاہتے۔ جمہوریت کا پروسس قیمتی ہوتا ہے۔

ووٹ نہ ڈال کر دراصل آپ انہیں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ انتہاپسندی کے خلاف احتجاج کا حصہ بنتا رہا ہوں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کے خلاف کولون میں ہونے والے مظاہرے میں شامل ہوا۔ بون میں بھی مظاہروں میں شرکت کی۔‘‘

برانڈنبرگ انتخابات: حکمران جماعت کی اے ایف ڈی پر معمولی برتری

توقیر احمد کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم جرمنی جیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اظہار خیال میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی۔

‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے گہری سیاسی دلچسپی کے باوجود ایکٹیو سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ان کا کہنا تھا،'' کیونکہ میں اپنی فیملی کی پہلی نسل سے ہوں جسے جرمنی آکر روٹی روزی کمانے کی فکر تھی جس کا اللہ نے بہت اچھی طرح موقع فراہم کر دیا۔ افسوس یہ کہ میرے تین میں سے کسی ایک بچے نے بھی ایکٹیو سیاست میں آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

‘‘

جرمن انتخابات 2025کے تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر جرمنی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے باوجود پاکستانی نژاد نوجوان سیاست میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس بارے میں برلن میں متعدد دہائیوں سے آباد ایک اور پاکستانی ادبی اور کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' جرمنی میں آباد زیادہ تر پاکستانی باشندوں نے اب تک جرمن معاشرے اور اقدار کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔

اکثر پاکستانیوں کی نظروں میں جرمنی کی اکثریتی آبادی کافر ہے۔ اس سوچ اور رویے کا رد عمل یہ ہے کہ جرمن باشندے پاکستانیوں کو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھنے اور قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘

جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش

ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہی اور انہوں نے تارکین وطن پاکستانیوں کی کئی نسلوں کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔

پاکستانیوں کے سیاسی رویے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''یہاں رہنے والے پاکستانی اپنا تشخص تلاش کرتے ہیں جو انہیں صرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی ہی سے ملتا ہے اور وہ اپنی تمام سیاسی توانائیاں پاکستان میں نمائندہ جماعتوں کے ارکان یا عہدے داران کی حیثیت سے صرف کرتے ہیں۔‘‘

جرمن دارالحکومت برلن ہی کی ایک اور معروف سماجی شخصیت، ایک کامیاب بزنس مین اور پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے والد ہیں۔

ان کے بچے پیدائشی جرمن ہیں اور اب ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ منظور اعوان 2019 ء سے پاکستان پیپلز پارٹی برلن کے صدر بھی ہیں۔

منظور اعوان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' جرمن سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے آپ کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔ یہاں کی شہریت حاصل کرنا بہت پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔

جرمن زبان پر عبور ہونا بھی لازمی ہے۔‘‘ تاہم منظور اعوان کے مطابق نئی نسل کے لیے یہ تمام عوامل مشکل نہیں ہیں۔

جرمنی غیر ملکی ہنرمند کارکنوں کے لیے پرکشش کیوں نہیں رہا؟

پاکستانیوں کے مجموعی سیاسی رویے کے بارے میں منظور اعوان نے کہا،''پاکستان میں سیاسی عمل کا تسلسل جاری نہیں ہے اور ووٹ کی اہمیت کا احساس بھی باشندوں میں کم ہی ہے۔

اس رویے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو سیاست میں شامل کرنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے جو ہماری ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام حکومت کو تقویت ملے۔ میڈیا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

1980ء سے جرمنی میں آباد منظور اعوان نے سن 2000 میں جرمن شہریت حاصل کی اور تب سے وہ اور انکی فیملی کے تمام اہل ووٹرز جرمنی کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے اچھے مواقع موجود ہیں۔ لیکن تارکین وطن پاکستانیوں کو سماجی اور سیاسی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں چینی فلم “نیژ ا 2” کی خصوصی اسکریننگ کی تقریب
  • پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے: بلاول بھٹو
  • جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
  • امریکا سے بے دخل کیے جانے والے شہریوں کو لے کر ایک اور جہاز بھارت پہنچ گیا
  • تارکین وطن اور گوانتاناموبے
  • روس یوکرین امن مذاکرات سے یورپ کو دور رکھا جائے،امریکا
  • سعودی عرب سمیت 11 ممالک سے 173 پاکستانی ڈی پورٹ، 24 کراچی میں گرفتار
  • روس یوکرین امن مذاکرات سے یورپ کو دور رکھا جائے گا، امریکا
  • سعودی عرب اور امارات سمیت 11ملکوں سے مزید 173 پاکستانی ڈی پورٹ، 24کراچی میں گرفتار
  • سعودیہ اور امارات سمیت 11 ملکوں سے مزید 173 پاکستانی ڈی پورٹ، 24 کراچی میں گرفتار