مسلمانوں میں اتحادنہیں ٹرمپ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مسلمانوں میں اتحاد نہیں ٹرمپ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے ہیں‘ امریکا، یورپ میں سرمایہ کاری کی وجہ سے مسلم حکمران ٹرمپ منصوبے کے خلاف کچھ نہیںکرسکتے‘ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں مزید 110 فلسطینی شہید ہوئے‘ مسئلہ فلسطین مزید گمبھیر ہوگا‘ غزہ کی تباہی کے بڑے مجرم سعودی عرب، قطر ، یو اے ای اور ترکی ہیں۔ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان ،عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان حسنین ابراہیم کاظمی، تجزیہ کار مظہر طفیل،ادیب دانشور، تجزیہ کار سید اظہر علی شہ بخاری، ترجمان دفتر خارجہ شفقت خان، بزنس مین شیخ اظہر اقبال، تجزیہ کار اعجاز احمد، پیپلز پارٹی ورکرز کی مرکزی رہنما ناہید خان اور ایف پی سی سی آئی کے بزنس مین پینل کے مرکزی رہنما مرزا عبد الرحمن نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کے ناپاک عزائم کی کامیابی کس حد تک ممکن ہے؟‘‘ عمر ایوب خان نے کہا کہ فلسطین کا معاملہ بہت حساس ہو چکا ہے‘ جنگ جتنی بھی طویل ہو فریقین کو بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑتا ہے‘ یہی کچھ اسرائیل اور فلسطین کی
جنگ کے دوران ہوا ہے‘ اگر آغاز کار میں ہی مذاکرات شروع ہو جاتے تو انسانیت کا اتنا زیادہ جانی و مالی نقصان جو اسرائیل کی طرف سے کیا گیا ہے، وہ نہ ہوتا‘ اب جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے‘ قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہو رہاہے‘ جنگ کے شعلے بجھ رہے ہیں‘ یہ آگ پھولوں میں تو تبدیل نہیں ہوگی البتہ انسانیت مزید المیے سے وقتی طور پر بچ جائے گی‘ اس جنگ بندی کو عبوری سیٹلمنٹ ہی کہا جا سکتا ہے‘ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، فلسطینیوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں مل جاتا‘ اس وقت تک جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں‘ اقوام متحدہ کی جو قراردادیں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے منظور ہو چکی ہیں، ان پر عمل کروایا جائے۔ حسنین ابراہیم کاظمی نے کہا کہ ٹرمپ نے جو کچھ کہا ہے اس پر وہ پورا عمل کرسکتا ہے۔ مظہر طفیل نے کہا کہ غزہ سے متعلق امریکی صدر اور اسرائیل کی پالیسی مکمل طور پر ہم آہنگی پر مشتمل ہے ابھی تک غزہ کے بے گناہ مسلمانوں پر جو بھی مظالم ڈھائے گئے ہیں اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارے کی کمی اور یہود و نصارا سے قریبی تعلقات اور سب سے بڑھ کے امریکا اور یورپ میں بے انتہا سرمایہ کاری ہے‘ امت مسلمہ کا کردار موجودہ صدی میں انتہائی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے‘ اگر دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوتے تو یقینی طور پر آج اسرائیل غزہ کے مسلمانوں پر اس انداز سے ظلم و ستم نہیں کرتا‘ اگر عرب ممالک بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرتے تو غزہ میں شہید اور بے گھر ہونے والے مسلمان غزہ ہی میں سکون سے رہ رہے ہوتے‘ غزہ کی افسوس ناک صورتحال کا سب سے بڑا مجرم سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کے علاوہ ترکی بھی ہے‘ اسی طرح پاکستان کا کردار اور ہماری خارجہ پالیسی بھی غزہ کے شہید مسلمانوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے‘ روز قیامت تمام امت مسلمہ سے اس کی جوابدہ ہوگی‘ طوق کا پھندا تمام امت کے حکمرانوں کے گلے کا سنگھار بنے گا لہٰذا ابھی تک کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ٹرمپ غزہ سے متعلق اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکتا۔ اظہر علی شہ بخاری نے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا جب معاہدہ ہوا ہے‘ ایسے معاہدے توڑنا اسرائیل کی جبلت رہی ہے‘ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بڑی طاقتوں کو بہر صورت خطے میں امن کے لیے اور انسانیت کی غارت کاری روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شفقت خان نے کہا کہ پاکستان نے غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی تجویز کو انتہائی تشویشناک اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سرزمین فلسطینی عوام کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق 2 ریاستی حل ہی اِس کا واحد قابلِ عمل اور منصفانہ راستہ ہے‘ پاکستان فلسطینی عوام کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے ساتھ ساتھ1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، خود مختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی رہا ہے اور رہے گا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینیوں کو اُن کی سرزمین سے بے گھر کرنے اور غیر قانونی بستیوں کو جاری رکھنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور پورے خطے کے امن و سلامتی کو نقصان پہنچائے گی‘ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ پر قبضے کا اعلان کر کے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا‘ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا غزہ پر ’’قبضہ‘‘ کر کے اس کی تعمیرنو کر سکتا ہے، وہ غزہ کا مالک ہو گا اور خطے میں موجود تمام خطرناک بموں (جو پھٹے نہیں) اور دیگر ہتھیاروں کو ختم کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔ امریکی صدر نے غزہ پر قبضے کا اپنا بیان نہ صرف دہرایا بلکہ اِس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی بتا دیا، ان کے نزدیک غزہ سے فلسطینیوں کو کہیں اور آباد کیا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر نے غزہ کو ’’ترقی‘‘ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے واشنگٹن کے کردار کو ’’طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن‘‘ کے طور پر بیان کیا، اُنہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عرب ممالک بھی اُن کے منصوبے کی حمایت کریں گے تاہم وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے ٹرمپ کی تجویز کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اِس کی وضاحت کی کہ امریکی صدر نے غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کی بات نہیں کی‘ امید پیدا ہوئی تھی کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے کردار ادا کریں گے مگر یہ امید اس وقت خاک میں مل گئی جب ان کی طرف سے غزہ سے ان کے مکینوں کو ہی نکالنے کا اعلان کر دیا گیا۔ شیخ اظہر اقبال نے کہا کہ بہت سے ممالک جلد ہی ’’ابراہام معاہدے‘‘ میں شامل ہوں گے‘ اسرائیل بھی اس معاہدے کا حصہ ہے‘ مراکش اور یو اے ای سمیت کئی ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں‘ پاکستان کو بھی اس معاہدے کا حصہ بننے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ مسئلہ فلسطین کے حل تک تمام مسلم ممالک کا اس معاہدے میں شامل ہونا ممکن نہیں ہے‘ مسئلہ فلسطین حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتا چلا جائے گا‘ اس مسئلے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ مستقل طور پر بد امنی کا شکار چلا آرہا ہے جس کے منفی اثرات عالمی امن پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اعجاز احمد نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات سے پہلے تجویز دی تھی کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر کے اِردگرد کے ممالک میں آباد ہو جائیں، امریکا علاقے کی تعمیرنو کرے گا‘ ٹرمپ کے اِس بیان کے بعد دنیا بھر میں اس کے خلاف آواز اُٹھائی گئی ہے‘ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی طرف سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا ماسوائے اسرائیل کے، کسی دوسرے ملک نے اِس تجویز سے اتفاق نہیں کیا بلکہ بعض ممالک نے تو اِس پر شدید تنقید کی‘ اِس سب کے باوجود صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ پر قبضے کا اعلان کر کے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ امریکی صدر کے اِس بیان سے مراد عارضی طور پر علاقے کو چھوڑنا ہے‘ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا غزہ پر ’’قبضہ‘‘ کر کے اس کی تعمیرنو کر سکتا ہے۔ ناہید خان نے کہا کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، فلسطینیوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں مل جاتا‘ اس وقت تک جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے‘حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے پر ابھی تک عمل ہو رہا ہے‘ اسرائیل کی طرف سے اپنا سارا اسلحہ فلسطینیوں کے خلاف جھونک دیا گیا ہے‘ بہتر ہوتا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط اور اعلان ہوتے ہی اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا۔ مرزا عبد الرحمن نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ اسرائیل اور حماس کے مابین ہوا ہے‘ ایسے معاہدے توڑنا اسرائیل کی جبلت رہی ہے‘ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بڑی طاقتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسئلہ فلسطین فلسطینیوں کو امریکی صدر اسرائیل کی اس معاہدے معاہدے پر کی طرف سے نے کہا کہ سکتا ہے کے لیے کے بعد جنگ کے کر دیا غزہ کے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )ترجمان وائٹ ہاﺅس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جاری بیان میں وائٹ ہاﺅس کا کہنا ہے کہ تجارتی پالیسیاں کئی دہائیوں سے امریکہ کو ناکام بنا رہی ہیں امریکی صنعت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے پہلے ہی کام جاری ہے.(جاری ہے)
جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کئی ممالک اور بڑی کمپنیاں امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہی ہیں یا اس کا عہد کر رہی ہیں بیان میں جن مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے ایک امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل ہے جس نے فروری میں امریکہ میں تربیت سازی اور آلات کی تیاری کے لیے پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا کہا تھا. ادھرچھ سینئر ڈیموکریٹس نے امریکہ کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وفاقی سیکیورٹیز کے قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کرے. سابق صدارتی امیدوار اور موجودہ سینیٹر الزبتھ وارن کے دستخط شدہ خط میں کہا گیا ہے کہ ہم ایس ای سی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ آیا ٹیرف کے اعلانات کے بعد مارکیٹ کا کریش ہونا اور بعد ازاں جزوی بحالی کا کوئی فائدہ ٹرمپ انتظامیہ یا ان کے دوستوں کو پہنچا ہے. خط میں ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ حالیہ ٹیرف کو بے ہنگم اور فضول قرار دیا گیا ہے تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر کی جانب سے اپنے نام نہاد باہمی ٹیرف کے منصوبے کو روکنا ان کی تشویش کا باعث ہے خط میں کہا گیا ہے کہ ہماری قوم کے پاس انسائڈر ٹریڈنگ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے سخت قوانین ہیں. سینیٹرز کے گروپ نے ایس ای سی پر زور دیا کہ وہ ٹیرف کے اعلانات کی تحقیقات کرے کہ آیا ان سے ٹرمپ یا ان سے وابستہ افراد کو فائدہ پہنچا خط پر چک شومر، رون وائیڈن، مارک کیلی اور روبن گیلیگو اور ایڈم شف کے دستخط بھی ہیں جنہوں نے 25 اپریل تک ایس ای سی سے جواب دینے کی درخواست کی کہ آیا امریکی صدر کے ٹیرف کے اقدامات کی تحقیقات کا کوئی منصوبہ ہے.