خوش اخلاقی بہت بڑی صفت ہے!
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
رابرٹ ولسن کی عمر پچھتر برس کی تھی۔ اہلیہ کا انتقال تقریباً آٹھ برس پہلے ہو چکا تھا۔ ایک بیٹا تھا، جو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں کام کرتا تھا اور بہت کامیاب تھا۔ ولسن باقاعدگی سے سیر کرتا تھا اور کھانے پینے میں کافی احتیاط کرتا تھا۔ لہٰذا اچھی صحت کا مالک تھا۔ مگر بڑھاپا کسی طور پر چھپایا نہیں جا سکتا۔
ولسن کے کندھے تھوڑے سے جھکے ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سوٹ بھی پرانے ہی پہنتا تھا۔ پوری عمر شکاگو میں نوکری کر کے اب وہ اسی شہر کا مستقل باسی بن چکا تھا۔ ولسن کے پاس ایک بیس برس پرانی گاڑی تھی۔ ایک دن، فیصلہ کیا کہ اسے بہتر اور زیادہ آرام دہ گاڑی خریدنی چاہیے۔ بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں کافی پیسے موجود تھے۔ ایک دن رابرٹ نئی گاڑی دیکھنے اور خریدنے کے لیے شکاگو کے سب سے بڑے شو روم پر گیا۔
وہ جگہ قیمتی کاریں بیچنے کے لیے جانی جاتی تھی۔ رابرٹ نے پرانا سا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میںایک قدیم سا بریف کیس تھا۔ جوتے بھی نئے نہیں تھے۔ شو روم میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان سیلزمین اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس جوان لڑکے نے دیدہ زیب کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ جوتے بھی چمک رہے تھے۔ مقابلے میں رابرٹ ایک غریب آدمی نظر آ رہا تھا۔ ولسن نے بڑی تہذیب سے اس سیلزمین سے پوچھا کہ اسے مرسڈیز گاڑی خریدنی ہے، اور وہ بھی ایس کلاس کی۔ شوروم کے اس ملازم کا نام جان میتھیو تھا۔ اس نے سوالیہ طریقے سے رابرٹ کی طرف دیکھا۔ میتھیو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک غریب نظر آنے والا بوڑھا سا آدمی، مرسڈیز جیسی قیمتی گاڑی کیونکر خرید سکتا ہے۔
یقیناً وہ صرف قیمت معلوم کر کے، وقت ضایع کرنے آیا ہے۔ جان نے سنجیدگی سے ولسن کو کہا کہ کیا آپ کے پاس دو لاکھ ڈالر ہیں کہ اتنی بیش قیمت گاڑی خرید سکیں۔ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ شوروم کا سپروائزر بھی وہیں آ گیا۔ ایک معمولی وضع قطع کے خریدار کو دیکھ کر، رعونت سے پوچھنے لگا کہ فرمایئے آپ کی کیا خدمت کریں۔ میتھیو نے بتایا کہ یہ مرسڈیز خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ سپروائزر نے غیرسنجیدگی سے کہا کہ جناب کیا آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ مرسڈیز جیسی مہنگی گاڑی خرید سکیں۔ رابرٹ کے لیے شو روم کے عملے کا یہ رویہ حددرجہ توہین آمیز تھا۔ وہ تو ایک گاہک تھا اور یہ اس کا استحقاق تھا کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی کار خرید لے۔
شو روم والے اپنے رویے سے مسلسل اس کی بے عزتی کر رہے تھے۔ بہرحال رابرٹ خاموشی سے واپس آ گیا مگر وہ پوری رات بے چین رہا۔ اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ صبح ہوتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ بیٹے کو باپ کی سبکی سے بڑی تکلیف ہوئی۔ مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے پہلے والد سے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ شو روم کی کمپنی کا نام اور دیگر کوائف اپنے والد سے لے لیے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شو روم اور کمپنی خسارہ میں جا رہی ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی بندہ اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بیٹے نے اپنے والد کو ساری صورت حال بتائی تو رابرٹ کے ذہن میں یکدم ایک خیال آیا۔ پچیس برس پہلے میں نے پچاس ہزار ڈالر نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لگائے تھے۔ان کی موجودہ مالیت کتنی ہے؟ بیٹے نے اکاؤنٹ دیکھ کر بتایا کہ اڑھائی دہائیوں میں وہ پانچ ملین ڈالر کے برابر ہو چکے ہیں۔ رابرٹ نے بیٹے سے پوچھا کہ کاروں کا شو روم کتنے میں اپنی مکمل کمپنی فروخت کر رہا ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بھی تقریباً اتنے ہی پیسے مانگ رہا ہے۔ رابرٹ نے بیٹے کو فوراً کہا کہ آپ ایک دن میں قانونی کارورائی مکمل کر کے یہ شو روم اور کمپنی فوری طور پر خرید لو۔ باپ کے حکم پر بیٹے نے فوری طور پر قانونی کارروائی مکمل کر کے کمپنی رابرٹ ولسن کے نام کروا دی۔ یہ سب کام دو دنوں میں مکمل ہو گیا مگر شو روم میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کمپنی نئے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔
بہرحال، رابرٹ، اپنے وہی پرانے کپڑے پہن کر اگلے دن شو روم میں گیا۔ وہی جان میتھیو اور سپروائزر اسے دیکھ کر غصے میں آ گئے۔ فرمایئے، آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ مرسڈیز خریدنے کے لیے تو شاید آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ رابرٹ نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا کہ وہ اب کمپنی کا مالک ہے اور اپنے کمرے میں بیٹھنے کے لیے جا رہا ہے۔ یہ جملہ سن کر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ بوڑھا رابرٹ بڑی متانت سے اپنے کمرے میں گیا اور تمام اسٹاف کو بلوایا۔ میتھیو اور سپروائزر کو کہنے لگا کہ آپ دونوں کو گاہک سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔
شائستگی سے بات کرنا آپ کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ دونوں معافیاں مانگنے لگ گئے کہ آیندہ غلطی نہیں ہو گی۔ مگر رابرٹ اپنا ذہن بنا چکا تھا۔ اس نے دونوں کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ بقیہ اسٹاف کو صرف ایک حکم دیا کہ شو روم میں جو بھی انسان، جس حلیہ میں بھی آئے، اسے عزت اور احترام سے گاڑیاں دکھانی ہیں۔ اب ہوا یہ کہ جو بھی گاہک، شو روم میں آتا تھا، اس کی اتنی آؤبھگت کی جاتی تھی کہ وہ حیران رہ جاتا تھا۔ اکثر لوگ گاڑی وہیں سے خرید کر باہر نکلتے تھے۔ کمپنی کی شہرت پورے شکاگو میں بہت جلد پھیل گئی۔
ایک سال کی قلیل مدت میں، رابرٹ کی کمپنی اور شو روم پورے شہر کی بہترین جگہ قرار دی گئی۔شو روم کا منافع، آسمان کو چھونے لگا۔ رابرٹ مرتے دم تک اس شو روم کو حددرجہ کامیابی سے چلاتا رہا اور شکاگو میں ان سے زیادہ کاروں کے کاروبار میں کسی نے نہیں کمایا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں، اینکر نے ان کے کاروبار میں کامیابی کا راز پوچھا تو اس کا جواب صرف ایک جملہ کا تھا، لوگوں کا احترام اور عزت کرنا، سب سے اہم چیز ہے۔
مجھے جب یہ اطمینان ہوگیا کہ یہ پورا واقعہ مکمل طور پر درست ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی۔ مگر اس پر غور کرنے سے ذہن میں کئی نئے معاملات سامنے آنے لگے۔ متعدد سوالات اٹھ گئے۔ رابرٹ نے جو سبق سکھایا۔ وہ بار بار ذہن میں اپنے اردگرد کے معروضی حالات دیکھ کر سانپ کی طرح پھن پھیلانے لگا۔جب اپنے ملک کی اکثریت کو دیکھتا ہوں تو وہ حددرجہ غصیلے اور دوسرے کو تکلیف دینے کے مزاج کے حامل معلوم پڑتے ہیں۔
حکومت میں موجود سیاست دانوں سے لے کر نوکرشاہی کے افسران تک، ہر مقام پر بڑا یا چھوٹا فرعون بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ کسی دفتر میں چلے جایئے، سب سے پہلے یہ معلوم ہو گا کہ آپ کی کوئی ذاتی عزت نفس نہیں ہے۔ اس قدر عامیانہ سلوک ہو گا کہ آپ اپنا جائز کام کروانے کے بجائے، واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔ دراصل، ہمارا پورا ملک منفی سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رویوں پر چل رہا ہے۔
ہر شخص دوسرے کو ذلیل کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا ہے۔ ہمارے حکمران طبقہ کی رعونت تو دیدنی ہے۔ وہ تو پچاس سے سو گاڑیوں کے حصار کے بغیر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر مصنوعی سی مسکراہٹ اور جعلی خوشگوار موڈ کو دکھا کر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے! کیا کوئی بھی پاکستانی اپنے جائز کام کروانے کے لیے کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملنے کا تصور تک کر سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اپنے حقوق کے لیے حکمران طبقے کے کسی اہم یا غیراہم شخص سے مل پائیں۔ میں آج کی بات نہیں کر رہا۔ تہتر برس کی کہانی صرف یہ ہے کہ ایک جعلی طرز کا حکمران طبقہ ہے جو عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ لوگوں کے حقوق اور جائز خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔
خوش اخلاقی کا رویہ تو بڑی دور کی بات، یہاں تو اپنی عزت بچا کر زندگی گزارنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں۔
سمندر کی لہروں میں مرنے کو، ملک خداداد میں زندہ رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کا شاہانہ پن کم ہونے کے بجائے تکلیف دہ حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رویہ کو صحیح کرنا، مشکل نہیں بلکہ مکمل طور پر ناممکن ہے۔ اور ہاں، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، اس دین کے پیروکار ہیں جس میں حسن اخلاق، ہر عبادت پر فوقیت رکھتا ہے مگر عملی طور پر ہر چیز الٹ ہے۔ پتہ نہیں اگر رابرٹ ولسن امریکا کے بجائے پاکستان کا شہری ہوتا تو اس کا کیا بنتا۔ شاید وہ یہاں زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کرنا بہتر سمجھتا؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گاڑی خرید کے بجائے نہیں ہے تھا اور دیکھ کر کا تھا کے پاس ایک دن کہا کہ رہا ہے کے لیے کی بات
پڑھیں:
انسان خود کو نہ بدلے تو حالات اُسے بدل کر رکھ دیتے ہیں
تعارف:
حسن رضا، ایچ آر ماہر اور ایک ٹیک کمپنی کے سی ای او ہیں۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر میں مختلف اداروں کے ساتھ و ابستہ رہے۔ کنسلٹنسی کے مختلف پروجیکٹس بھی کیے۔ کم و بیش دو عشروں تک مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اپنی کمپنی قائم کی۔
سوال: ایچ آر کا بنیاد ی کام کیا ہے۔
جواب: ایچ آر کسی بھی ادارے کا ایک شعبہ ہوتا ہے جو ملازمین کے مختلف معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس میں ملازمین کی بھرتی، تربیت ، انتظامیہ کے ساتھ تعلقات ، متعلقہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کروانا ایچ آر کی ذمہ داری ہے۔
سوال: ٹیک ایچ آر(Tech HR) کی اصطلاح سے کیا مراد ہے؟
جواب: ٹیک انڈسڑی میں ایچ آر سے مراد ہیومن ریسورس کے مختلف کاموں کو ڈیجیٹل ٹولز، سافٹ وئیرز اور آرٹیفیشل اینٹلی جنس کے ذریعے سے کرنا ہے۔ اس میں ملازمین کی کارکردگی، جاب پر رہنے والا عرصہ، آن لائن ٹریننگز، ریموٹ ورکنگ، کام کی جگہ کا کلچر، ٹیکس کٹوتی، کارکردگی کی ٹریکنگ، ملازمین کے ساتھ سیشنز اور اس نوعیت کی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔
سوال: پاکستان میں ایچ آر کا سکوپ کیا ہے؟
جواب: بدلتے رجحانات کے ساتھ پاکستان میں بھی کاروباری دنیا میں نت نئے آئیڈیاز اور رجحانات کو اپنایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ، پاکستا ن میں کاروباری اداروں میں ایچ آر کا تصور نہیں تھا۔گلوبلائزیشن کے بعد اور انٹرنیٹ کے عام ہوجانے سے یہاں ایچ آر کا تصور آیا۔ اب پاکستان کی تمام بڑ ی کمپنیوں، کاروباری اداروں میں ایچ آر کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ بالخصوص آئی ٹی انڈسٹر ی کی ترقی کے بعد ایچ آر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر، بینکنگ، آئی ٹی، ہیلتھ اور ایجوکیشن میں اس کا رول بڑھ گیا ہے۔
سوال: آپ زندگی کا ایک طویل عرصہ کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت کرتے رہے ، پھر آپ نے اپنی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟
جواب: یہ اچھا سوال ہے۔ جب آپ ملازمت کر رہے ہوتے ہیں تو آپ بنیادی اخراجات پورے کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک لگی بندھی تنخواہ ہر ماہ مل جاتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ میری بنیادی ضروریا ت پوری ہو رہی ہیں۔ تو سلسلہ چل رہا ہے تو چلتے رہنے دیں۔ لیکن میرے والد مجھے کہا کرتے تھے کہ تم کوئی اپنا کام کرو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ میں کہا کرتا تھا تنخواہ مل رہی ہے، زندگی سکون سے چل رہی ہے۔ تو رہنے دیں ٹھیک ہے۔ مگر وہ کہتے تھے کہ نہیں تم کوئی اپنا کام شروع کرو۔ وہ کیونکہ انگلینڈ میں رہتے تھے تو جب بھی پاکستان آتے تو ہماری اسی موضوع پر بات چیت ہوتی تھی۔ ملازمت پیشہ آدمی رِسک لینے سے گھبراتا ہے۔ سوچ وہی فکس سیلری والی رہتی ہے۔ لیکن جب آپ Owner بنتے ہیں تو پھر آپ کا ڈر اور خوف ختم ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ ، اپنے آپ کو بطور لیڈر اوپر لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بات بتا تا ہوں ، جس سے میں گروسری وغیرہ لیتا تھا ، تو ادھار وغیرہ چلتاہے۔ کچھ ایسے معاملات ہوئے کہ تنخواہ لیٹ ہو گئی۔ راشن والے کو کچھ پیسے دینے تھے تو اس نے بہت شور مچایا۔ آپ پیسے نہیں دے رہے ، تو میرے ذہن میں میرے والد کا جملہ آیا کہ اگر تم بزنس نہیں کرنا چاہتے تو ٹھیک ہے مگر تمہار ا کوئی اور بھی ذریعہ آمدن ہونا چاہیے۔ تو مجھے خیال آیا کہ اگر چالیس پچاس ہزار روپیہ میں اپنی مہارت سے کما سکتا ہوں تو کیوں نہ کمایا جائے۔ تو پھر میں نے جاب کے ساتھ ساتھ کوئی کنسلٹنسی آ جانی تو وہ کر دینی، مختصر دورانیے کا کوئی کام کر دینا تو اس طرح میرا آمدنی کا ذریعہ بنتا گیا۔
جب میں نے دیکھا کہ میرا بیک اپ آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہا ہے تومیں نے سوچا کہ مجھے اس طرف آنا چاہیے۔ دو ہزار بیس میں جب کووڈ تھا تو اس وقت مجھے ٹیک انڈسٹری میں آنے کا موقع ملا۔ اس وقت پاکستان میں ٹیک اور فارماسویٹیکل دو ہی سیکٹر بڑھوتری کی جانب گامزن تھے۔ ٹیک سٹارٹ اپس کے ساتھ کنسٹلنٹی شروع کر دی، اس طرح میرا اپنا کام شروع ہوا۔ تو میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ راشن والا مجھے نہ کہتا اور مجھے خیال نہ آتا تو شاید میری زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ نہ آتا۔اس کے علاو ہ قاسم علی شاہ بھی مجھے کہا کرتے تھے کہ اپنا کام شروع کرو، تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔
سوال: آپ کی کمپنی کی ڈ ومنز کیاہے وہ کس نوعیت کے کام کرتی ہے؟
جواب: میری کمپنی ٹیک بیسڈ ایچ آر کمپنی ہے۔ جس میں مختلف ٹیک کمپنیز کے ایچ آر کو ہم ہر ماہ اکٹھا کرتے ہیں۔ ہمارے ہر میٹ اَپ کے مختلف تھیمز ہوتے ہں۔ کارپوریٹ سیکٹر کے اکثر سیشنز ، بنیادی طور پر نیٹک ورکنگ سیشنز ہوتے ہیں، لیکن ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ علمی سیشنز ہوں اور نئے رجحانات اور موضوعات پر بات ہو۔ مثلاً گزشتہ ایک میٹ اَپ میں ہم نے ایک گلوبل ٹرینڈ تھا Open Salary Forum ، یعنی ہر ایک کو ہر کسی کی تنخواہ کا علم ہو، اس پر ہم نے بات چت کی۔ پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنا بڑا مشکل ہے۔ کچھ کلچر ل روایت ہے ، سماجی مسائل بھی ہیں۔ ہم نے Open Salary Forum پر بات چتہ کی۔ ہم نے ایچ آر کے بہترین آٹھ، دس ماہرین کو بلایا اور انہوں نے اس موضوع پر بات کی۔ ہم نے پھر Mentoring Reverse پر بات کی۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس میں آپ اپنے سینئیرز سے تو سیکھتے ہی ہیں مگر اب آپ اپنے جونئیرز سے بھی سیکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم نے ایک نشست رکھی ، ایچ آر کے لو گوں کو بلایا اور اس پر بات چیت کی۔ ٹیکنا لوجی سے وابستہ نوجوان سیکھناچاہتے ہیں، وہ سینئیرز سے بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ایکLearning Forum بنا دیا ہے۔ اب لو گ ادھر آتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: اپنا کام شروع کرنے کا ابتدائی تجربہ کیسا رہا؟
جواب: آغاز میں تو کچھ مشکلات تھیں۔ کیونکہ میرے اہلِ خانہ بھی اس نئے تجربے سے کچھ مطمئن نہیں تھے۔ انہی دنوں ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک تصویر اور پوسٹ بہت وائرل ہوئی، جس میں ایک شخص نے خود کشی کر لی تھی۔ پوسٹ میں تھا کہ اس کی بیوی اسے کہتی تھی کہ جاؤ اور کما کر لاؤ اور مجھے نہیں پتہ کہ کس طرح کمانا ہے۔ اب پتہ نہیں اْ س شخص پر کتنا دباؤ اور حالات کاجبر ہو گا کہ اس نے یہ قدم اٹھایا۔ بعد میں اس شخص کی بیوی نے معافی بھی مانگی۔ مگر وہ شخص تو جان سے گیا۔ جتنے بھی نوجوان میرے پا س آتے ہیں یا وہ اپنا کام شروع کر رہے ہوتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ آپ نے صبر سے کام لینا ہے، یہ مشکل وقت ہے ، گز ر جائے گا، اللہ پا ک اپنا رحم فرمائے گا اور آپ کو ضرور رزق دے گا۔ گھر والوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مدد کریں۔ میں خوش قسمت رہا کہ میرے گھروالوں نے اس معاملے میں میرے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ کیونکہ میرے والد نے انہیں بتایا ہوا تھا کہ آپ نے دو ، تین ماہ اس کو تنگ نہیں کرنا۔ میراپہلا ماہ مشکل گزرامگربعد میں پھر معاملات بہتر ہوتے چلے گئے۔
سوال: ہمارے ہاں ایک عمومی تاثر ہے کہ تنخواہ دار طبقہ بزنس کی جانب نہیں جاتا، کیونکہ بزنس کے لیے بہت زیادہ پیسہ درکا رہے مگر حالیہ عرصے میں ٹیک کمپنیز نے اس تاثر کی نفی کی ہے ، اب سرمائے سے زیادہ آئیڈیا یا مہارت کی اہمیت ہے ، آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: دیکھیں، اس معاملے کا تعلق سوچ سے ہے۔ سی ای او بننے سے پہلے ، سی ای او کی طرح سوچنا پڑتا ہے۔ تو جب آپ کی سوچ ہی سی ای او والی نہیں ہوگی تو پھر آپ سی ای او نہیں بن پائیں گے۔ بدقسمتی سے جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں یا پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ تم نے نوکر ی ہی کرنی ہے۔ سی ای او نہیں بننا۔ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ ہمارا پڑھا ئی کا نظام اور گرومنگ نوکری کے لیے ہوتی ہے، بزنس کے لیے نہیں۔ میں اولڈ راوین ہوں، جب میں وہاں پڑھ رہا تھا تو کئی میرے ہم جماعت پولیس میں آنا چاہتے تھے اور کچھ وکالت کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے کیسز کے معاملات تھے۔ بعض اینکر بننا چاہتے تھے تو وہ بن گئے۔ کوئی اس وقت یہ نہیں کہتا تھا کہ میں نے اپنی کمپنی کھولنی ہے۔ میں ادھر چلا جاؤں ، اْدھر چلا جاؤں، اب وہ سارے ٹھیک ہیں۔ ایک تو یہ مائنڈسیٹ ہے۔ اب جوں جوں سوشل میڈیا پھیل رہا ہے، تو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔
سوال: ٹیک انڈسٹری میں کامیاب ہونے کے لیے کیا ضروری ہے؟
جواب: ٹیک میں کامیاب ہونے کے لیے ٹیکنالوجی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ کے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہونا ضروری ہے۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو کسی انویسٹر کو ڈھونڈیں۔ ہمارے ہاں کام کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ ایک بزنس مین ہے ، وہ آتا ہے، ایک ٹیم بناتا ہے اور اس سے کام کرواتا ہے۔ دوسرا ہوتا ہے فری لانسر ، فری لانسر کیا کرتا ہے ، وہ پروجیکٹ پکڑتا ہے، کام کرتا ہے ، پیسے کماتا ہے لیکن وہ ٹیم نہیں بناتا۔ اب تیسرا کیا ہے کہ ایک انویسڑ ہے، اس کا پیسہ ہے، وہ اچھے آئیڈیے کو پیسہ دینا چاہتا ہے، کوئی بھی فرد اچھے کاروباری آئیڈیا کیساتھ اس کے پاس جائے تو وہ انویسٹ کرتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ کام آپ کرو، میں اپنا مارجن لوں گا اور Partner Sleeping کے طور پر کام کروں گا۔
سوال: ایسے انویسٹرز کہاں ملتے ہیں؟
جواب: ایسے انویسٹرز پاکستان میں دستیاب ہیں لیکن انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں طلباء کیا کرتے ہیں کہ وہ نیٹ ورکنگ نہیں کرتے ، یونیورسٹی اور دیگر افراد کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ ہمیں سپورٹ نہیں کیا۔ اب نجی سیکٹر کی جامعات اس طرف آرہی ہیں۔ وہ طلباء کو انٹرپرینیورشپ کی طرف لے کر آرہے ہیں۔ وہ گالا اور اس نوعیت کی سرگرمیاں کرواتے ہیں تا کہ طلباء کو بتایا جا سکے کہ آپ نے اپنے آئیڈیا کو بیچنا کیسے ہے۔ اگر آپ پاکستان میں نہیں بیچ سکتے تو باہر بیچ دیں۔ میں جن سافٹ وئیر ہاؤسز کے ساتھ کام کر رہا ہوں انہوں نے ایک پروڈکٹ بنائی، پاکستان میں کسی نے اسے نہیں خریدا، انہوں نے باہر بیچ دی، اب ان کے پاس ڈالرز میں پیسے آرہے ہیں۔ پھر اس میں ایک اور پہلو بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ خالی اچھا آئیڈیا کافی نہیں ہے، اس کو پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ آگے جا کر اس کو بیچنا بھی ہے۔ تین چار دوست اکٹھے ہوتے ہیں، انہیں آئیڈیا ز تو اچھے سوجھتے ہیں مگر انہیں بیچنا نہیں آتا، آپ کو ایسی ٹیم چاہیے جس میں آپ اپنی Strength پرکھیلیں، کوئی ایک ممبر بہترین کمیونیکیشن سکل کا مالک ہو، کوئی اچھا تجزیہ کر لیتا ہے، کوئی پریزنیٹیشن اچھی بنالیتا ہوگا، تو یہ ٹیم بنانا ضروری ہے۔
سوال: آپ نے ذکر کیا کہ یہ سوچ کا معاملہ ہے ، یہ بتائیں کہ سوچ میں تبدیلی کیسے آئے، کیا اس کے لیے کوئی عمر کی حد ہے یا کیا کچھ کرنا ہوگا کہ سوچ بدلے؟
جواب: اس میں ایسے ہے کہ جو Change Management ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس تبدیلی کے عمل کے لیے کتنے آمادہ ہیں۔ ہمار ے ہاں لوگوں کو جم میں جانے کا شوق ہوتا ہے۔ جاتے ہیں، ورک کرتے ہیں، لیکن ہم ڈسپلنڈ نہیں رہتے۔ اس میں ہمیں ناکامی ہوتی ہے۔ موٹیویشن کے ساتھ ڈسپلن ضروری ہے۔ یہ سوچنا کہ میں نے کارپوریٹ سیکٹر میں جانا ہے ، یا کسی اور جگہ جاناہے تو میں نے کوشش اور محنت کتنی کی ہے۔ میرے پاس سٹریٹیجی کیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔ ریسرچ کے مطابق اگرآپ اپنے آپ کو جوانی میں تبدیل کرلیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ، بعد میں مشکلات آتی ہیں۔ مگر ناممکن نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے توپھر حالات آپ کو تبدیل کردیں گے۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو ایک قدم بڑھائیں اورپھر مستقل مزاجی اور تسلسل کو برقرار رکھیں۔ Change Management میں تسلسل لازمی ہے۔ وگرنہ کامیابی کے روٹھ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ میں مختلف جامعات میں جاتا ہوں، لیکچر دیتاہوں، بڑے اچھے لیکچر ز ہوتے ہیں، تالیاں بج جاتی ہیں، طلباء خوش ہوتے ہیں۔ مگر بعد میں اس کا فالو اپ نہیں ہوتا۔
سوال: آپ ٹریننگز بھی کرواتے ہیں۔ آپ کا کیا تجزیہ ہے کہ ہمارے نوجوان کہاں کوتاہی کرتے ہیں۔ کونسی تعلیم حاصل کریں یا سکلز سیکھیں تا کہ خود روزگار کمانے کے قابل ہو جائیں۔
جواب: سب سے زیادہ کمی جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ ہے صبر۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز جلدی ہو جائے۔ میں جاؤں آفس میں، ایک بڑا سا آفس ہو ، سجا سجایا ہو، میں گھنٹی بجاؤں اور ملازم چائے لے کر آ جائے۔ یہ ہو گا ضرور لیکن فوراً نہیں ہو سکتا۔ ایجوکیشن میں ڈگری اور سکلز دونوں ضروری ہیں۔ اگر ہروقت کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا چاہیے۔ میرے ایک دوست بہت اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ہرسال کوئی نیا کورس کرلیتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ان سب کورسز کے لیے آپ کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ پیسے کا عمل دخل نہیں ہوتا، نیت کا عمل دخل ہے۔ میں جب نیک نیتی سے شروع کرتا ہوں تو اللہ میری مدد کرتا ہے۔ اگر کسی نوجوان نے کوئی ڈگری کر لی ہے، ایم بی اے یا کچھ اور، تو وہ کہتے ہیں کہ بس میں نے بہت پڑھ لیا۔اب مزید نہیں پڑھنا۔ پھر ہمارے ہاں ایسا بھی ہے کہ جب ہم اپنا کیریئر شروع کر رہے ہوتے ہیں توہمیں وہ نوکری نہیں ملتی جو ہم چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ نوکری ملتی ہے،جو ہم نہیں چاہتے۔ اس کے لیے ہم نے کوئی سکل نہیں سیکھی ہوتی۔میرا ایک سٹوڈنٹ تھا وہ دبئی گیا جاب ڈھونڈنے۔ اس کو ایچ آر کی جاب نہیں ملی۔ اس کو کسی بینک میں کسٹمر سروس کی جاب مل گئی۔ اس نے مجھے فون کیا کہ میری رہنمائی کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کسٹمر سروس کی کچھ ویڈیوز اورآرٹیکلز بھیجتا ہوں، اس کو دیکھو۔ اس نے کہا کہ سر مجھے لگتا ہے کہ مجھے یہ جاب چھوڑنا ہو گی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اگر تم ایچ آر میں آنا چاہتے ہو تو آجا ؤ گے، لیکن یہ تمہارے لئے ایک موقع ہے۔ اس کو ضائع مت کرو۔ اس نے وہ ٹریننگز دیکھیں ، کوئی چھ ، آٹھ ماہ بعد اس کو اپنی فیلڈ میں جاب مل گئی۔ بعد میں بتانے لگا کہ وہ کسٹمر سروس جاب والی تربیت میرے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ سیکھنا ضروری ہے۔ یہ آپ کو Back Pay کرتا ہے۔ اس طرح مختلف کورسز ہیں ، اے آئی کے کورسز ہیں ، جو ان کو سیکھ لے گا، آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ہو ں گے۔
سوال: سوچ کی تبدیلی کے محرکات یا عوامل کون سے ہیں؟
جواب: سوچ کی تبدیلی کے مختلف عوامل ہیں، پہلے تو ایک Mentor ہو جو آپ کی زندگی میں اہم رول ادا کرے۔ آپ کو گائیڈکرے ، وہ فیملی ممبر، کولیگ یا دوست بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا وہ لوگ جوآپ کو ستاتے ہیں، تنگ کرتے ہیں،ان کو اپنی زندگی میں بلاک کر دیں۔ کیونکہ وہ آپ کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ کہیں گے کہ پاکستان میں کچھ نہیں ہو سکتا، ۔ ان لوگوں سے ا پنی کامیابیاں شئیر کریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔
میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے دیں۔ دنیا میں کوئی فرد ، آپ کے لیے کچھ نہیں کرے گا، آپ کو خود ہی اپنے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔